زندگی غم اور خوشی جیسی ملے جلے احساسات کا مرکب ہے۔ زندگی سب سے خوبصورت تحفہ بھی ہے اور ایک بہت بڑا عذاب بھی۔ اگر اس کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو خوشی اور غم جیسی کیفیتوںکی کوئی مادی حیثیت نہیں‘ بلکہ یہ الگ الگ احساسات کے نام ہیں۔ اگر پریشانی کا احساس غالب آگیا تو انسان پریشان اور اگر خوشی طاری ہو گئی تو انسان خوش۔ جس زمانے میں ہم رہ رہے ہیں اس میں تو 90 فیصد لو گ تناﺅ کا شکار ہیں۔ خوشی جیسا احساس جیسے ہم سے روٹھ گیا ہو‘ ہر طرف مایوسی‘ اداسی اور تناﺅ نظر آتا ہے، کوئی بھی کہیں بھی خوش نہیں ہے۔ اگر خوشی کو براہ راست دولت سے جوڑا جاتا تو شاید بے شمار دولت رکھنے والے آج غمزدہ نہ ہوتے۔ یہ لوگ بے شمار دولت رکھتے ہوئے بھی ایک عام آدمی کی نسبت زیادہ ذہنی دباﺅ کا شکار رہتے ہیں۔ اپنے آپ سے ناخوش‘ اپنے پیاروں سے ناخوش‘ کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ روح کا سکون حاصل کرنے کے لئے بہت سا پیسہ بہاتے ہیں مگر سکون ہے نہ آرام۔ دوسری طرف غریب کا بھی یہی حال ہے۔ ہر وقت غربت کا رونا روتا‘ اپنے مسائل کا ذکر کرتا اور الجھنوں کو سلجھاتا ہوا ہی نظر آتا ہے۔ امیر بھی پریشان ہے تو غریب بھی۔ ہر کوئی خوشی کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ تو کائنات میں کونسا شخص ایسا ہے جو اپنے آپ سے اور جو کچھ اس کے پاس موجود ہے‘ اس سے خوش ہو۔ ایسا انسان تو شائد ہی کوئی ہو۔ اگر کوئی ہے تووہ اس دنیا کا سب سے خوش نصیب شخص ہو گا۔میں بھی ایک انسان ہوں‘ اس لئے میرے ساتھ بھی اکثر ایسا ہوتا ہے۔ مایوسی‘ اداسی‘ تناﺅ جیسے احساسات مجھے بھی کبھی کبھی اپنے شکنجے میں جکڑ لیتے ہیں جن سے آزادی حاصل کرنا دشوار ہوتا ہے۔ مگر کچھ ایسے کام ہیں جن کے کرنے سے میرے تناﺅ میں کمی اور میری روح کو سکون ملتا ہے۔ میں جب بھی اداس‘ مایوس‘ دل شکستہ ہوئی میں نے اپنی امید کو کبھی نہ توڑا۔ انسان کا سب سے اچھا دوست اور رازدار خدا کے بعد انسان خود ہے۔ اپنے آپ کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کی کیونکہ جو شخص اپنے چہرے پہ مسکراہٹ‘ اپنے آپ سے پیار‘ اپنے آپ کا خیال نہیں رکھ سکتا‘ وہ کسی دوسرے کی زندگی میں رنگ کیسے بھرے گا۔ زندگی میں کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی برا ہو جائے اپنے اندر کے مثبت احساس کو ختم نہ ہونے دیں اور اُس واقعہ سے مثبت پہلو نکالیں‘ سارا مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔
جب ہر طرف سے مایوسی ہو اور انسان ایسی تاریک ایک بند گلی میں کھڑا ہو جہاں سے کوئی رستہ نکلنے کے آثار نظر نہ آتے ہوں تو اپنے خدا کے حضور صرف ایک سجدے سے روح کو جو سکون اور لطف ملے گا وہ کائنات کی کسی اور چیز میں نہیں۔ روح کا سکون صرف ایک سجدے کی دوری پر ہے۔ پکارنے والا تو خود فلاح کی طرف پکارتا ہے مگر ہم اس وقت پتہ نہیں کس فلاح کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ اس کے دربار میں حاضر ہوں‘ پھر باقی سب کام اس پہ چھوڑ دیں وہ جانے اور اس کا کام جانے۔ وہ جو کرے گا بہت اچھا کرے گا اور آپ کے حق میں بہتر ہی ہو گا۔ ماضی میں بھی جو کچھ ہو چکا‘ وہ بھی آپ کے حق میں بہت بہتر تھا‘ پھر نہ جانے کہاں کہاں سے نئے نئے رستے کھلتے چلے جائیں گے جو شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں۔ اس کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ جیسے اگر کسی کی مدد کرنا اگر آپ کے اختیار میں ہے تو یہ نادر موقع کبھی ہاتھ سے مت جانے دیں۔ شاید اس کی دعا سے آپکی تقدیر میں حائل رکاوٹیں دور ہو جائیں۔ رستے میں آتے جاتے ہمیں بہت سے فقیر ملتے ہیں۔ آپ اس فقیر کو اپنی نگاہ سے دیکھتے ہی اندازہ لگا لیں گے کہ کیا وہ آپ کے 10 یا 20 روپے کا حق دار ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کا حق اس کو دو اور 10 یا 20 روپے کی بدلے ہیرے سے بھی قیمتی دعائیں اپنے مقدر کا حصہ بناﺅ۔ ان دعاﺅں سے آپکی روح کو جو سکون اس وقت ملے گا حقیقت میں وہی کامیابی ہے۔ شاید اسی سے روح کو سکون مل جائے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024