ایک سینہ گزٹ کہاوت ہے کہ کسی امیر آدمی کے ملازم کو چوری کی عادت تھی، ایک دفعہ شکایت پر اس نے ملازم سے سامان خریداری کی تفصیل پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ سامان کی قیمت دس روپے، دس روپے اس نے دکاندار کو دیے، دس روپے دکاندار نے اس سے لیے اور اس طرح سامان کی قیمت تیس روپے ثابت کر دی، یہی حال کچھ لیسکو کے بلوں کا ہے۔ لیسکو بل کا ملاحظہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بجلی کی قیمت اس پر عائد ٹیکسوں سے کہیں کم ہوتی ہے، حکومت اپنے طے شدہ ریٹ پر بجلی کی فراہمی کے بعد بجلی کے بل پر ٹیکس پھر اس پر ایڈاونس ٹیکس، پھر فیول ٹیکس، نیلم جہلم چشمہ پراجیکٹ ٹیکس،پی ٹی وی لائسنس ٹیکس ،،غرض کہ ٹیکس ہی ٹیکس نظر آتے ہیں لیکن عوام دوست حکومت،آزاد عدلیہ سمیت کوئی بھی ادارہ اس کا نوٹس لینے کیلئے تیار نظر نہیں آتا۔ عرصہ پہلے کہیں پڑھا تھا کہ حکومتوں سے سرزد ہونے والے جرائم، جرائم نہیں بلکہ حکمت عملی قراردیے جاتے ہیں لیکن آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ حکومتوں کے عوام سے کیے جانے والے مذاق کو کیا نام دیا جائے۔ آئے دن حکمران ٹی وی چینلز کے پروگرامز اور خبروں میں یہ دعوٰی کرتے نظر آتے ہیں کہ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے اثرات عام آدمی پر نہیں پڑیں گے۔ حکومت اب بھی عام آدمی کو مہنگی بجلی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے آٹھ سو ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے، تین سو یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو سبسڈی دینے کے دعوے کے بعد یہ تعداد کم کرکے دوسو،پھر سو یونٹ بتائی گئی لیکن حقیقت بالکل ہی مختلف لگ رہی ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے کم بجلی چوری پنجاب میں اور پنجاب میں سب سے کم بجلی چوری لاہور میں ہوتی ہے لیکن رواں مہینے لیسکو کی طرف سے اپنے صارفین کے بجھوائے جانے والے بلوں کا جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے زندہ دلان لاہور کو پورے ملک کے لائن لاسسز پورے کرنے کا فریضہ سونپ دیا گیا ہے۔ حکوتی دعوو¿ں کے برعکس جنوری کے بلوں میں صارفین کو بلا تمیز بائیس روپے سے ایک سو دس روپے تک فی یونٹ بل بجھوایا گیا ہے۔ مین بازار گلبہار کالونی کے رہائشی شیشہ فروش کو تین یونٹ بجلی استعمال کرنے کا بل سوا تین سو روپے کے قریب بجھوایا گیا جبکہ ایک گھریلو صارف کو چھیانوے یونٹ کا بل ڈھائی ہزار روپے کا بجھوایا گیا ،،اسی طرح اکرم آباد کے رہائشی ایک صارف کو ایک سو ستتر یونٹ کا بل ساڑھے تین ہزار روپے سے زائد کا بل بجھوایا گیا جبکہ اسی عرصے کے دوران ان صارفین کو موجودہ ریٹس سے بھی نصف سے کم ریٹ پر بجلی کے بل موصول ہوئے تھے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے پریشان حال عوام موجودہ بلوں کو دیکھ کر بجلی نہ آنے کی دعائیں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور کم سے کم بجلی استعمال کرنے فارمولے کی ناکامی بعد اس شعر کے مصداق ان کی حالت ہوگئی ہے ....
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024