رتھ کے پہیئے چرچرا چرچرا کر گھوڑے سے رک جانے کی استدعا کر رہے تھے! گھوڑا رتھ بان کے اونگھ جانے کی دعا کر رہا تھا اور رتھ بان پیچھا کرتے گھڑ سواروں سے جان چھڑا لینے کے لئے گھوڑے پر چابک برسائے چلا جا رہا تھا!
گھوڑا بھاگ رہا ہے، رتھ کے پہئے چرچرا رہے ہیں، مگر چابک ہے کہ برسات کی جھڑی کی طرح رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا!
رتھ بان، گھوڑوں کی عمومی بھلائی کیلئے مشکل فیصلوں پر مشکل تر فیصلے لئے چلا جا رہا ہے! نہ اسے سڑک کی ناہمواری دکھائی دے رہی ہے، نہ منزل سجھائی دے رہی ہے، نہ گھڑ سواروں کی ٹاپیں سنائی دے رہی ہیں، صرف چابک کی لاسیں ڈالتی ’شڑاپ شڑاپ‘ سنائی دے رہی ہے، گھوڑے کے بدن پر ابھرتی ’لاس‘ رات کے اندھیارے میں کون دیکھے کہ اس تاریکی میں تو راستہ تک سجھائی نہیں دے رہا مگر گھوڑا ہے کہ بھاگے چلا جا رہا ہے!
یہ ’معاملہ‘ کب تک چلے گا؟ جب تک گھوڑے کے دم میں دم ہے؟ اگر گھوڑے کا دم دم میں آ گیا اور گھوڑا بدک گیا تو؟ خدا کا نام لو! کیا بات کر رہے ہو؟ ایسی باتیں زبان پر نہیں لاتے! کیا خبر کس گھڑی منہ کی بات افتاد بن کر سر پر آن گرے!
ہم جو کچھ کر رہے ہیں، خدا دیکھ رہا ہے! ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں، خدا سن رہا ہے! اور جو کچھ ہم دل میں چھپائے بیٹھے ہیں، خدا وہ جانتا ہے! ہم کس بات کی پردہ پوشی کر رہے ہیں؟ اور کس سے؟ وہ تو سب کچھ جانتا ہے! اگر ہم ایک دوسرے سے کوئی بات چھپا رہے ہیں، تو بھی کچھ اچھا نہیں کر رہے!
’امن کی آشا‘ تو ہر ’من‘ میں ہوتی ہے، لیکن یہ ’من‘ تو کئی کئی من کے ہیں بلکہ ایک من کئی کئی ٹن کا ہے!
’پانی کی پکار‘ پر ایک نل سے بہتا پانی دکھایا جاتا ہے، جب کہ ہاہا کار دریائی پانی پر کھڑی ہو رہی ہے! بات ’زرعی پانی‘ میں رونما ہوتی ’کمی‘ پر چل رہی ہے مگر ہم یہ بات بین الاقوامی دریاﺅں میں ’پاکستان کے حصے‘ کی جگہ صوبوں کے درمیان ’فراہم پانی پر ’جنگ‘ میں تبدیل کر دینے کے کام سے لگے ہیں! وہ ’جنگ‘ جسے ہمیں ’بھارتی مسکراہٹوں‘ اور ’پاکستانی مسکراہٹوں‘ کے تبادلے کے دوران جیتنا تھی، ہم اپنی سرحدوں کے اندر صوبوں کے درمیان ’تضادات اور مفادات‘ کی ’جنگ‘ بنانے پر ادھارے کھائے بیٹھے ہیں اور ’کبڈی کبڈی‘ کی گردان میں لگے ہیں!
ہم کس طرف لے جائے جا رہے ہیں؟ اور ہم بغیر سوچے سمجھے کدھر بھاگے چلے جا رہے ہیں، سندھ ’سرحد‘ میں ’اباسین‘ دریاﺅں کا باپ، کہلاتا ہے، ’پنجاب‘ میں اسے ’سندھ‘ یعنی ’دریا‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور ’سندھ‘ میں اسے ’مہران‘ یعنی ’محبت کا پھیلاﺅ‘ کہا جاتا ہے!
سید قائم علی شاہ ’سندھ‘ پر ’دیامیر بھاشا پاور پراجیکٹ‘ کی تعمیر پر تحفظات رکھتے ہیں! حالانکہ دیامیر بھاشا کی وسیع و عریض جھیل میں ذخیرہ شدہ پانی ہمیں سارا سال مستحکم بجلی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تربیلا میں پورا سال پانی کی آمد کا ذریعہ بھی بنے گا اور موسم سرما کے دوران بھی بجلی کے ساتھ زرعی پانی کی آمد کا ذریعہ بھی بنے گا! مگر سید قائم علی شاہ کے تحفظات ’لفظ کا پیراہن‘ پہن کر سامنے آنے سے پہلے ہی ’امن کی آشا‘ کے ساتھ لگ گئے ہیں! اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو! اگر سندھ کے جاگیردار یہ بات سمجھ گئے کہ ’بھاشا‘ اور ’کالا باغ‘ ڈیم پراجیکٹ ’سندھ‘ کے لئے کتنے ضروری ہیں تو راجا پرویز اشرف کا کیا بنے گا؟ اور وہ کس منہ سے ’عوام کی خدمت‘ کے گن گائیں گے؟
اسی منہ سے! انہیں گلے کا پھندا، فتح مندی کا ہار بنانے کا فن آتا ہے!‘ ان کا کیا ہے؟ وہ تو ہم سے بھی زیادہ بھدی آواز میں گانے لگیں گے! چلی ہے میری گھوڑا گاڑی! بندر روڈ سے کیماڑی! بابو! ہو جانا فٹ پاتھ پر۔
گھوڑا بھاگ رہا ہے، رتھ کے پہئے چرچرا رہے ہیں، مگر چابک ہے کہ برسات کی جھڑی کی طرح رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا!
رتھ بان، گھوڑوں کی عمومی بھلائی کیلئے مشکل فیصلوں پر مشکل تر فیصلے لئے چلا جا رہا ہے! نہ اسے سڑک کی ناہمواری دکھائی دے رہی ہے، نہ منزل سجھائی دے رہی ہے، نہ گھڑ سواروں کی ٹاپیں سنائی دے رہی ہیں، صرف چابک کی لاسیں ڈالتی ’شڑاپ شڑاپ‘ سنائی دے رہی ہے، گھوڑے کے بدن پر ابھرتی ’لاس‘ رات کے اندھیارے میں کون دیکھے کہ اس تاریکی میں تو راستہ تک سجھائی نہیں دے رہا مگر گھوڑا ہے کہ بھاگے چلا جا رہا ہے!
یہ ’معاملہ‘ کب تک چلے گا؟ جب تک گھوڑے کے دم میں دم ہے؟ اگر گھوڑے کا دم دم میں آ گیا اور گھوڑا بدک گیا تو؟ خدا کا نام لو! کیا بات کر رہے ہو؟ ایسی باتیں زبان پر نہیں لاتے! کیا خبر کس گھڑی منہ کی بات افتاد بن کر سر پر آن گرے!
ہم جو کچھ کر رہے ہیں، خدا دیکھ رہا ہے! ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں، خدا سن رہا ہے! اور جو کچھ ہم دل میں چھپائے بیٹھے ہیں، خدا وہ جانتا ہے! ہم کس بات کی پردہ پوشی کر رہے ہیں؟ اور کس سے؟ وہ تو سب کچھ جانتا ہے! اگر ہم ایک دوسرے سے کوئی بات چھپا رہے ہیں، تو بھی کچھ اچھا نہیں کر رہے!
’امن کی آشا‘ تو ہر ’من‘ میں ہوتی ہے، لیکن یہ ’من‘ تو کئی کئی من کے ہیں بلکہ ایک من کئی کئی ٹن کا ہے!
’پانی کی پکار‘ پر ایک نل سے بہتا پانی دکھایا جاتا ہے، جب کہ ہاہا کار دریائی پانی پر کھڑی ہو رہی ہے! بات ’زرعی پانی‘ میں رونما ہوتی ’کمی‘ پر چل رہی ہے مگر ہم یہ بات بین الاقوامی دریاﺅں میں ’پاکستان کے حصے‘ کی جگہ صوبوں کے درمیان ’فراہم پانی پر ’جنگ‘ میں تبدیل کر دینے کے کام سے لگے ہیں! وہ ’جنگ‘ جسے ہمیں ’بھارتی مسکراہٹوں‘ اور ’پاکستانی مسکراہٹوں‘ کے تبادلے کے دوران جیتنا تھی، ہم اپنی سرحدوں کے اندر صوبوں کے درمیان ’تضادات اور مفادات‘ کی ’جنگ‘ بنانے پر ادھارے کھائے بیٹھے ہیں اور ’کبڈی کبڈی‘ کی گردان میں لگے ہیں!
ہم کس طرف لے جائے جا رہے ہیں؟ اور ہم بغیر سوچے سمجھے کدھر بھاگے چلے جا رہے ہیں، سندھ ’سرحد‘ میں ’اباسین‘ دریاﺅں کا باپ، کہلاتا ہے، ’پنجاب‘ میں اسے ’سندھ‘ یعنی ’دریا‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور ’سندھ‘ میں اسے ’مہران‘ یعنی ’محبت کا پھیلاﺅ‘ کہا جاتا ہے!
سید قائم علی شاہ ’سندھ‘ پر ’دیامیر بھاشا پاور پراجیکٹ‘ کی تعمیر پر تحفظات رکھتے ہیں! حالانکہ دیامیر بھاشا کی وسیع و عریض جھیل میں ذخیرہ شدہ پانی ہمیں سارا سال مستحکم بجلی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تربیلا میں پورا سال پانی کی آمد کا ذریعہ بھی بنے گا اور موسم سرما کے دوران بھی بجلی کے ساتھ زرعی پانی کی آمد کا ذریعہ بھی بنے گا! مگر سید قائم علی شاہ کے تحفظات ’لفظ کا پیراہن‘ پہن کر سامنے آنے سے پہلے ہی ’امن کی آشا‘ کے ساتھ لگ گئے ہیں! اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو! اگر سندھ کے جاگیردار یہ بات سمجھ گئے کہ ’بھاشا‘ اور ’کالا باغ‘ ڈیم پراجیکٹ ’سندھ‘ کے لئے کتنے ضروری ہیں تو راجا پرویز اشرف کا کیا بنے گا؟ اور وہ کس منہ سے ’عوام کی خدمت‘ کے گن گائیں گے؟
اسی منہ سے! انہیں گلے کا پھندا، فتح مندی کا ہار بنانے کا فن آتا ہے!‘ ان کا کیا ہے؟ وہ تو ہم سے بھی زیادہ بھدی آواز میں گانے لگیں گے! چلی ہے میری گھوڑا گاڑی! بندر روڈ سے کیماڑی! بابو! ہو جانا فٹ پاتھ پر۔