ہم ان ملازمین کی بات کر رہے ہیں جو ملازمت برائے خدمت کرتے ہیں ان کی نہیں کرتے جو ملازمت برائے رشوت کرتے ہیں ملازم سرکاری ہوں یا پرائیویٹ مالکان پرائیویٹ ہوں یا حکمران انکے دکھڑوں کا علاج نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے احتجاج کو محرم کا جلوس سمجھتے ہیں جس نے بہرصورت نکلنا ہی ہوتا ہے۔ شائد اسی لئے کہ ملازمین کے جلوس کا گھوڑا بھی خالی ہوتا ہے گویا وہ بھی اچھی قیادت سے محروم ہے حلال خور ملازمین میں بھٹوں اور گھروں میں کام کرنے والے ملازمین سے لے کر سرکاری ملازمین تک شکوے ہی شکوے ہیں یوں بیورو کریٹس بھی سرکاری ملازم ہوتے ہیں مگر ان کا گوڈا چونکہ حکمرانوں سے جڑا ہوتا ہے اس لئے روز اخباروں میں ان کو نئی سے نئی مراعات ملنے کی خوش خبریاں سنائی جاتی ہیں۔ یہ بیورو کریٹس اگر چاہیں تو اپنے علاوہ سرکاری ملازمین کے دکھ درد دور کر سکتے ہیں مگر شاید ان کو بقول اجمل نیازی پھر ”برا کریسی“ کون کہے گا جو کلرک رزق حلال کماتے ہیں وہ سڑکوں پر دوسرے تیسرے دن محرم کا جلوس نکالتے ہیں ان کی ایک اپنی کربلا ہے جس کا واسطہ وقت کے یزیدوں سے ہے۔ مہنگائی کا بھوت پورے ملک میں دندنا رہا ہے ایک ریڑھی والے کو بھی یہ اختیار ہے کہ مہنگائی بڑھتے ہی وہ اپنا سودا بھی مہنگا کر دے مگر ایک ملازم کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں نا وہ خود اضافہ کر سکتا ہے نا حکومت اضافہ کرتی ہے کہ کم از کم وہ مہنگائی کے ساتھ ساتھ تو چل سکے۔ مہنگائی کے سینگوں پر چڑھے ہوئے مزدوروں کے مالکان ان کے معاوضے اس لئے نہیں بڑھاتے کہ وہ سر چڑھ جائیں گے۔ حکومت کو چاہئے کہ اے چارہ گرو کچھ اس کا بھی مداوا کرو اور مہنگائی گھٹا نہیں سکتے تو اپنے اخراجات گھٹا کر باہر سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لا کر ملازمین کی تنخواہیں تو بڑھا دو۔ وزیروں‘ امیروں‘ مشیروں کے محلات نما گھروں میں نوکروں کی فوج کام کرتی ہے اور پیسہ اس طرح بہایا جاتا ہے جیسے دریا میں پانی‘ کیا خلفائے راشدین کے وارث ان کے ورثے کے ایک فیصد پر بھی عمل نہیں کر سکتے۔ یہ پروٹوکول یہ وی آئی پی کلچر یہ عشایئے گنائیے کیوں نہیں بند کئے جاتے۔ پے اینڈ پینشن کمیٹی کو زیب داستاں کےلئے رکھا ہوا ہے وہ کب سے بیٹھی انڈے سینک رہی ہے مگر ان میں سے کوئی اب تک مرا ہوا چوزہ بھی نہیں نکلا حکومت اس کمشن کو فعال بنائے اور اس کی سفارشات پر فوری عمل کرے تاکہ اس ملک میں تنخواہوں کا نظام درست ہو کیا ہماری پارلیمنٹ ایسی قانون سازی نہیں کر سکتی کہ مہنگائی کے بڑھنے کے ساتھ اسی تناسب سے خودبخود ملازمین کی تنخواہیں بھی بڑھ جائیں ۔ ہم ایک امیر ملک ہیں مگر ہم نے اپنے اوپر غربت کو طاری کیا ہوا ہے ہم چاہیں تو ہماری یہ سرزمین ہمیں اتنا کچھ دے سکتی ہے کہ ہم قرضے لینے کے بجائے قرضے دینے کے قابل ہو جائیں۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024