حضرت شاہ شمس سبزواریؒ ۔عرس مبارک جاری ہے
حضرت شاہ شمس ؒ سبزواری تبریزی اپنے عہد کے عظیم روحانی پیشوا تھے ۔آپ کی ولادت باسعادت ۱۵ شعبان المعظم ۵۶۰ ہجری کو بمقام ایران کے شہر سبزوار میں ہوئی ۔آپ کا شجرہ مبارک حضرت امام جعفر صادق سے ہوتا ہوا ۱۹ویں پشت پر حضرت علیؓ سے ملتاہے ۔حضرت شاہ شمس ؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سید صلاح الدین محمد سے حاصل کی ۔۵۷۶ہجری ۱۶ سال کی زندگی میں آپ نے تمام دینی ودنیاوی تعلیم مکمل کرلی تھی ۔آپ اپنے والد محترم کے ساتھ ۵۷۹ ہجری میں سبزوار سے دنیا کے مختلف ملکوں میں تبلیغ کی خاطر تشریف لے گئے جہاں جاکر آپ نے اسلام کی شمع کو روشن کیا اور ہزاروں غیر مسلم لوگ آپ کے کرم وفیض سے مشرف بااسلام ہوئے۔۵۸۶ ہجری میں آپ اپنے والد محترم کے ساتھ اپنے آبائی وطن ایران سبزوار تشریف لائے اس طرح آپ کے والد سید صلاح الدین نے آپ کی شادی اپنے حقیقی بھائی حضرت سید جلال الدین کی دختر سے کردی ۔خداوندِ کریم نے آپ کودوفرزند عطا فرمائے۔ آپ کے پہلے فرزند سید نصیر الدین ۵۸۸ہجری میں پیدا ہوئے اور ۲سال بعد آپ کے دوسرے فرزند سید علائو الدین پیدا ہوئے ۔آپ کے دونوں فرزند علم وادب سے کامل ہوئے تو آپ نے اپنے والد سید صلاح الدین محمد سے شہر تبریز جانے کی اجازت طلب کی اور شہر تبریز تشریف لے گئے۔جہاں جاکر آپ ۱۲برس سکونت پذیر رہے۔۱۲برس کے بعد جب آپ حالت ِ سالک میں آئے توآپ شہر قونیہ تشریف لے گئے جہاں آپ کی ملاقات ایک عظیم بزرگ عالم ِ دین مولانا جلال الدین رومی سے ہوئی ۔پہلی ملاقات میں ایک مشہور ومعروف کرامت معرضِ وجود میں آئی ۔کہ مولانا جلال الدین رومی اپنے درس میں طالب علموں کو تعلیم دے رہے تھے کہ حضرت شاہ شمس ؒ سبزواری دورانِ تعلیم درس میں تشریف لے گئے جو کہ نہایت سادہ لباس میں تھے۔اور مولانا رومی کے قریب بیٹھ گئے مولانا رومی کے قریب چند کتابیں پڑی تھیں حضرت شاہ شمس ؒ مولانا جلال الدین رومی کی طرف مخاطب ہوئے اور کتابوں کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا یہ کیا ہے ؟ جواب ملا اسے علم کہتے ہیں جو کہ تم نہیں جانتے ۔آپ حضرت شاہ شمسؒ نے مولانا جلال الدین رومی کا یہ فقرہ سنا تو جلال میں آئے اور وہ تمام کتابیں جو مولانا جلال الدین رومی کے قریب پڑی تھیں اُٹھا کر پانی کے بھرے حوض کے اندر ڈا ل دیں۔ جب مولانا جلال الدین رومی نے آپ کایہ عمل دیکھا تو تڑپ کر اُٹھے اور غصہ وپریشانی کے عالم میں مولانا جلال الدین رومی روپڑے۔اور کہا اے درویش تم نے یہ کیا کردیا میری تمام روح کی غذا تم نے ایک لمحے میں ضائع کردی ہے کتابیں بڑی نایاب تھیں اب کہیں سے نہ ملیں گی۔حضرت شاہ شمس ؒ نے جب مولانا جلال الدین رومی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو فرمایا تمہاری روح کی غذا اگر تمہیں مل جائے تو ؟ مولانا جلال الدین رومی نے کہا یہ کیسے ممکن ہے آپ حضرت شاہ شمس ؒ دوبارہ پانی کے بھرے حوض کے قریب گئے اور سب سے پہلے پانی میں سے وہ کتاب نکالی جس کا مولانا جلال الدین رومی کو زیاد ہ صدمہ تھا۔جب حضرت شاہ شمس ؒ نے کتاب کو مولانا جلال الدین رومی کے ہاتھوں میں دیا تو کتاب کو پانی کے قطرے نے بھی نہ چھوا تھا۔مولانا جلال الدین رومی آپ حضرت شاہ شمس ؒ کا یہ کمال دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھا یہ کیا ہے ؟آپ نے مولانا جلال الدین رومی کو جواب دیا یہ وہ علم ہے جو تم نہیں جانتے۔اس دوران مولانا جلال الدین رومی پر ایک ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ آپ کے دست ِمبارک پر بیعت ہوگئے اور آپ نے اس کے بعد تمام کتابیں حوض سے نکال کر مولانا جلال الدین رومی کے حوالے کردیں جوکہ تمام خشک تھیں ۔آپ حضرت شاہ شمس ؒ نے مولانا جلال الدین رومی کو طریقت کے اسرار ورموز سے آگاہ کیا تو مولانا جلال الدین رومی نے اپنی پوری زندگی حضرت شاہ شمس ؒ کے نام وقف کردی ۔آپ طویل عرصہ مولانا جلال الدین رومی کی رفاقت میں سکونت پذیر رہے۔آپ قونیہ سے دمشق ،دمشق سے عراق ،عراق سے مشہد ،مشہد مقدس سے عراق اور پھر عراق سے مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔
آپ کی وفات ۲۸صفر المظفر ۶۷۵ہجری کو ملتان پاکستان میں ہوئی ۔آپ کے مزارمبارک کی اول تعمیر ۶۷۷ ہجری میں ہوئی ۔جبکہ دوئم تعمیر ۷۳۰ہجری میں کی گئی ۔اورموجودہ مزار مبارک کی تعمیر۱۱۹۴ ہجری میں نئے سرے سے کرائی گئی ۔آ پ کا مزارِ مبارک قلعہ نما ایک ٹیلے پر واقع ہے مزار کے گرد مسجد ،امام بارگاہ ،اور صاحب ِ مزار کی اولاد کی قدیمی رہائش گاہیں موجود ہیں ۔جس کا کل رقبہ 46کنال 10مرلے ہے ۔جبکہ مزارکا احاطہ تقریبا ً4کنال پرہے مزار حضرت شاہ شمس ؒ بین المسالک کا امین ہے ۔اس درگاہ پر سالانہ کئی مذہبی وثقافتی تقریبات کا انعقاد ہوتارہتا ہے۔مزار کے چاروں اطراف 518کنال 13مرلہ اراضی جس پر شاہ شمس پارک ومیلہ گرائونڈ وغیرہ تعمیر ہیں بمطابق مصدقہ ریونیو ریکارڈ محکمہ مال صاحب ِ مزار حضرت شاہ شمس ؒ کے خانوادہ کی خاندانی وموروثی ملکیت ہے ۔اراضی کی نشاندہی کے لیے 1854-55میں جب پہلا بندوبست ہوا تو اس وقت موجودہ خاندان کے وارثان مخدوم سید حاجی شاہ اور ان کے بڑے بھائی مخدو م سید لطف علی شاہ درگاہ حضرت شاہ شمس ؒ کے ۱۵ویں صاحب ِ دستار وسجادہ نشین اور دربار سے ملحقہ اراضی کے وارث تھے۔بندوبست دوئم 1879-80میں ان کی اولاد وارث بنے۔جن میں مخدوم سید عیسن شاہ درگاہ کے ۱۶ویں سجادہ نشین تھے۔ سید عیسن شاہ کی وفات کے بعد آپ کے جانشین مخدوم سید ضمیر حسین شاہ درگاہ حضرت شاہ شمس ؒ کے ۱۷ویں سجادہ نشین مقرر ہوئے۔مذکورہ اراضی جملہ انتقالات کے ذریعے جب مخدوم سید ضمیر حسین شاہ کے نام منتقل ہوئی تو آپ نے اپنے نام پر ہونے والی درگاہ حضرت شاہ شمس ؒ سے ملحقہ اراضی جس پر شاہ شمس ؒ پارک ومیلہ گرائونڈ وغیرہ تعمیر ہیں اپنے جدِ امجد حضرت شاہ شمس ؒ کے مزار کے نام منتقل کرکے زیر اہتمام اپنے رکھ لی ۔جو 43سال تک انہی کے زیر اہتمام وانتظام رہی ۔مقصد خاندانی موروثی اراضی کو ہمیشہ کیلئے محفوظ کرنا تھا۔43سال کے بعد1959میں سابقہ صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان کے دورحکومت میں محکمہ اوقاف بنایا گیا۔جس نے 1960ء میں درگاہ حضرت شاہ شمس ؒ کو اپنی تحویل میں لے لیا۔اور1961ء میں وقف سمجھ کر درگاہ حضرت شاہ شمس ؒ سے ملحقہ موجودہ خاندان کی موروثی اراضی ناجائز طور پر اپنے قبضہ میں لے لی۔ جن کے بعد آپ کے جانشین مخدوم سید اعجاز حسین شاہ درگاہ کے 18ویں سجادہ نشین مقررہوئے جو 27سال سجادہ نشین رہے۔جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کے جانشین آپکے بڑے فرزند مخدوم سید نیر عباس شاہ 19ویں سجادہ نشین مقرر ہوئے جو 21سال سجادہ نشین رہے۔سال 2015ء میںآپ کی وفات کے بعد آپ کے جانشین مخدوم زادہ سید علی مہدی شاہ 20ویں سجادہ نشین مقررہ ہوئے جو تاحال موجود ہیں ۔ خانوادہ کے جدِ امجد حضرت شاہ شمسؒ کی ولادت باسعادت ایران کے شہر سبزوار میں ہوئی اس لیے آپ کو سبزواری کہا جاتاہے۔اور کیونکہ آپ طویل عرصہ شہر تبریز میں رہائش پذیر رہے اس لیے آپ تبریزی مشہور ہوئے ۔آپ کا نامِ گرامی دنیا کے چند مشہور اولیا کرام میں شمار ہوتاہے ۔ آپ تبلیغ اسلام کی خاطر مختلف ملکوں میں جاکر لوگوں کی اصلاح کیا کرتے تھے جب وہاں کے لوگ درس اخلاق پا لیتے یا پھر آپ اللہ کے حکم سے کرامت دکھا کر وہاں سے کوچ کر جایا کرتے تھے تو وہاں کے لوگ آپ کو ڈھونڈتے رہتے تھے۔ جب آپ نہ ملتے تو وہاں کے لوگ اُس جگہ جہاں آپ تشریف فرما ہوا کرتے تھے اسے محفوظ کر لیا کرتے تھے ۔اور جب انہیں یقین ہو جایا کرتا تھا کہ آپ اب دنیا میں نہیں رہے تو وہاں کے لوگ آپ کا اُس جگہ پر مقبرہ بنا دیا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں آپ کی اعزازی قبریں موجود ہیں شاید اسی وجہ سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت شاہ شمس ؒ کے مزار اور بھی کئی ملکوں میں موجود ہیں جبکہ ایسی کوئی تاریخ نہیں ملتی آپ کی ولادت 560ہجری 15 شعبان المعظم ایران کے شہر سبزوار میں ہوئی اور آپ کی وفات 675 ہجری 28 صفر المظفر کو بلاد ہند ملتان میں ہوئی جہاں پر آپ کا مزار مبارک ہے۔