کرونا اور انسانیت
2019 کے آخری دنوں میں چائنہ کے شہر ووہان سے پھوٹنے والی وبا،جسے کرونا اور (Covid19) کے ناموں سے پہچانا گیا۔۔اگر اس وبا کو موت کا نام دیا جائے تو غلط نا ہو گا،ایک اندازے کے مطابق ووہان کی ایک لیبارٹری(virology lab)جس میں مختلف(Viruses)ان کی اقسام،ویکسین اور (Anti-viruses)پہ تحقیق کی جاتی تھی،اس وائرس کی ابتداء وہاں سے ہوئی،لیکن یہ کوئی مصدقہ حقیقت نہیں۔اسی طرح ایک اور اندازے کے مطابق یہ وائرس کثیر مقدار میں مختلف جانوروں اور چرند پرند میں پایا جاتا ہے،جیسے کہ 'چمگاڈر' اور چائنیز لوگ ان جانوروں کا استعمال کثرت سے اپنی خوراک میں کرتے ہیں،اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس وبا کے پھیلاؤ کی ایک وجہ یہ بھی تھی،لیکن یہ دونوں مشتبہ اندازے ہیں،مصدقہ نہیں۔2019کے اختتام میں شروع ہونے والی یہ وبا دنوں میں عالمی وبا کا روپ دھار گئی،بات ایک گھر شہر یا ملک کی نہیں رہی،پوری دنیا اس موذی وبا کے خطرناک حصار میں آ چکی ہے،اس وبا کے پھیلنے کے بعد حقیقی معنوں میں موت کو دنیا پہ رقصاں پایا گیا،انسانی زندگی بے حد ارزاں ہو گئی،حقیقی معنوں میں زندگی موت کی آغوش میں منجمد لگنے لگی،چائنہ سے بے قابو ہوتی یہ وبا پوری دنیا پہ کسی عقاب کی طرح جھپٹی تھی،دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں نہیں،ہزاروں نہیں،لاکھوں زندگیاں اس وبا کے ہاتھوں درد ناک انجام کو پہنچیں،موت کی یہ صف ماتم کسی ایک گھر،کسی ایک شہر،کسی ایک ملک میں نہیں،دنیا میں بچھ چکی ہے،کچھ بے حد متاثرہ
ممالک امریکہ،اٹلی،چائنہ،اسپین،فرانس،جرمنی،
ترکی،ایران میں تو رضاکار فورسز اور مختلف (NGOs) میں کام کرنے والے ہمت ہارتے اور روتے ہوئے دکھائی دیئے،لاشیں اٹھاتے اٹھاتے محافظ تھک گئے،2020 کے ابتدائی تین سے چار مہینوں میں اس موذی وبا نے دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا،کیا امیر،کیا غریب،بوڑھا،جوان،بچہ،عورت،
مرد،ہر ایک اس کے شکنجے میں تھا اس وبا نے سب کو ایک قطار میں کھڑا کر دیا،وہ 'برطانیہ کا شہزادہ' ہو یا پاکستان کا کوئی مزدور،سب ہی لپیٹ میں ہیں، جہان اس وبا نے سب کو ایک ہی صف میں رکھتے ہوئے بنا کسی امتیازی پوٹوکول سب کو اپنے شکنجے میں وہیں،انسانیت کے کچھ انوکھے روپ بھی سامنے آئے،کہیں تو انسانیت سرخرو ٹھہری اور کہیں انسانیت کی روح مسخ شدہ چہرہ لیے کھڑی لرزتی رہی، جرمنی میں ایک نوے سالا خاتون جو کہ کرونا سے متاثرہ اور وینٹی لیٹر پہ تھیں، انہوںنے اس وقت اپنا وینٹی لیٹر ہٹانے کا کہا جب ایک پچیس سالہ نوجوان کو وینٹی لیٹر کی ضرورت تھی،لیکن وینٹی لیٹرز کی قلت کے باعث وہ تڑپ رہا تھا،خود کو موت کے حوالے کر کے خاتون نے لڑکے کے لیے زندگی کا در کھولا تھا،یہ ہے انسانیت‘کچھ ڈاکٹرز نے حقیقت میں مسیحائی کا حق ادا کیا،وہیں بہت سی جگہوں پر مسیحائی کے لبادوں میں شیطانوں کا بسیرا پایا گیا،انسانیت کبھی تو سر پہ معراج انسانیت سجائے پوری آب و تاب سے چمکتی ہوئی ملی اور کہیں بے وجہ انسانیت کی روح مسخ شدہ ملی،لاشوں کو ڈھوتے ڈھوتے تھکنے والے کتنے ہی لوگ خود اس مرض کا شکار ہوئے اور کب موت کی آغوش میں جا سوئے پتا ہی نا چلا،قومیں متحد ہو گئیں،لیکن کچھ قومیں ہمیشہ کی طرح اپنی جاہلیت اور خود غرضی دکھانے سے بعض نا آئیں،یہاں اگر ذکر کیا جائے ہمارے ملک پاکستان کا تو پچھلے کچھ عرصے میں جب لوگ اس وبا کی زد میں آ کر گھروں میں مقید تھے تو چند ایسے دلخراش منظر و واقعات سامنے آئے کہ روح تک لرز جائے،پاکستان میں کرونا وائرس کی ابتداء ہوتے ہی،منافع خور حضرات نے خود کو انسان سمجھنے کا تکلف نا کرتے ہوئے ہر چیز کو دو گنی قیمت سے فروخت کرنا شروع کر دیا،دوسری کیٹیگری ذخیرہ اندوزوں کی ہے،بھلا وہ کیونکر پیچھے رہتے کرونا کا سنتے ہی بھرے گودام کیسے خالی ہو گئے کیا معجزہ یا جادو ہوا یہ سمجھ سے باہر ہے،جس کے پاس جو تھا وہ اس پہ کسی سانپ کی طرح پھن پھیلا کے قابض ہوا،انسانیت کہیں دور کھڑی قہقہے لگاتی رہی،مناسب داموں پہ لی گئی چیزوں کو کرونا کے زمرے میں دگنے داموں بیچا گیا،انسانیت خود کی تلاش میں رسوا ٹھہری،یہ سب انہوں نے کیا جن کہ پاس اﷲ کا دیا سب کچھ تھا ماسوائے انسانیت کے۔جہان با اختیار حضرات یہ مار دھاڑ کرنے میں مصروف تھے وہیں،غریب،مزدور اور سفید پوش اس وبا کے ہاتھوں نہیں بھوک کے ہاتھوں مرنے پہ مجبور ہو گئے،ایک دہاڑی دار مزدور جو یومیہ سات،آٹھ سو کماتا ہے اس کا نظام زندگی ایک دن کی دہاڑی نا ملنے سے بھی رک جاتا ہے،ہفتوں گھر میں رہ کر اس مزدور کو کرونا نہیں بھوک اور فاقوں کی موت کا ڈر لاحق ہو گیا،ہم نے ٹیلیویژن،ریڈیو،اخبارات اور سوشل میڈیا پہ 'کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے' کا سلوگن تو لگا دیا لیکن ہم یہ بھول گئے کہ موت سے بڑی اذیت بھوک ہے،اس لاک ڈاؤن نے امیروں کو نئے چونچلے بخشے،کہ اکثر امراء کہتے ہوئے پائے گئے کہ وہ مینٹلی ڈسٹرب ہیں جب کہ وہیں دوسری طرف غریب اور سفید پوش اپنی ساری دماغی حسیات کا استعمال کر کے صرف یہ سوچتے کہ دو وقت کی روٹی کیسے ملے گی؟؟؟غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والی پاکستان کی چالیس فیصد آبادی کو موت بھوک سے آسان لگی،جہاں ہمارے مسیحا بھی خدمات سر انجام دیتے ہوئے اس مرض کا شکار ہوئے،وہیںگھروں میں کام کرنے والے مالکوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے رہے گڑگڑاتے رہے کچھ ماہانہ یا روزانہ دوائی کھانے والوں نے ہرلمحہ موت کو سامنے پایا کیونکہ دوائی کہ پیسے نہیں تھے،،کہاں تھی انسانیت؟؟؟انسانیت حقیقت میں کہیں نہیں رہی نا ہی نظر آئی،ہاں البتہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پہ انسانیت کی لمبی لائن دکھاوے کی صورت پائی گئی،،،اس وبا نے بہت کچھ سکھایا ہے،،کہ کہیں نا کہیں انسانیت موجود ہے کیمروں کی حد تک،،،،اور انسانوں میں ہر چیز صرف ایک چیز کا فقدان ہے وہ ہے انسانیت۔۔۔۔