وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا ہے اور ہر اجلاس کی طرح اس مرتبہ بھی وزیراعظم مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے برہم ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ سب سے بڑا مسئلہ ہے اور وزیراعظم کی ٹیم میں شامل اس شعبے سے جڑے افراد کی کارکردگی صفر ہے۔ وزیراعظم مہنگائی کی وجہ سے پریشان بھی رہتے ہیں۔ ہر اجلاس میں یہ مسئلہ زیر بحث آتا ہے۔ ہم مسلسل اس حوالے سے انہی صفحات پر حقیقت حکومت اور عوام کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آٹا، چینی پر جتنا ہم نے لکھا ہے شاید ہی کسی اور نے لکھا ہو اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ کھانے پینے کی بنیادی اشیاء کی ضرورٹ ہر کسی کو ہے۔ یہ بات ہم پہلے دن سے لکھتے آئے ہیں کہ حکومتی اداروں اور وزراء کی عدم دلچسپی، کم علمی یا مصلحت کی وجہ سے ہمیں بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان بحرانوں میں نقصان صرف عوام کا ہوا ہے۔ چینی اور آٹے کے ساتھ، ادویات، پھل، سبزیاں، مرغی کا گوشت ان تمام چیزوں کی قیمتوں اور دستیابی کے حوالے سے اہم مسائل کی نشاندھی بھی کی گئی ہے اور ان کا حل بھی پیش کیا گیا ہے۔ کہیں کہیں حکومت بھی توجہ دیتی ہے اور سائرن بجنے کے بعد ٹیلیویژن چینلز پر بھی ان مسائل کو نمایاں انداز میں نشر کیا جا رہا ہوتا ہے۔ ہمارا مقصد ہی یہ ہے کہ عوامی مسائل کو اجاگر کیا جائے۔ عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا کی جائے اور اس آسانی کا سب سے اہم، موثر اور تیز تر ذریعہ کھانے پینے اور ادویات کی قیمتوں میں کمی کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ ایسی قیمتوں پر ان اشیاء کا بازار میں ہونا یقینی بنایا جائے کہ کم سے کم تنخواہ یا آمدن والے افراد بھی کم از کم اچھا کھانا کھا سکیں اور بوقت ضرورت دوائی خدید سکیں۔ گوکہ ہمیں اس سلسلے میں عملی طور پر کامیابی نہیں ملی لیکن ایک بحث ضرور شروع ہوتی ہے۔ پردے چاک ہوتے ہیں اور عوام کے مسائلِ زیر بحث آتے ہیں۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر کھجوروں کے ٹینڈر کی بات ہو یا آٹے کی قلت کی ہر جگہ ہم نے حکومت کو خبردار کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے۔ حالیہ دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد مہنگائی برقرار رہنے پر مسلسل حکومت کو بتاتے رہے خوشی ہے کہ اب ٹیلیویژن چینلز بھی آواز بلند کر رہے ہیں چینی اسکینڈل کی تحقیقات کے بعد بھی چینی کی قیمتوں میں کمی نہ ہونے پر اب پروگرامز ہو رہے ہیں۔ دیگر مسائل کی طرح اگر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو مرکز بنا کر قومی سطح کی بحث کا آغاز کیا جائے اور اس حوالے سے بہتر طریقہ کار کی طرف بڑھا جائے تو کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ہمیں عوامی مسائل کو ترجیح دیتے ہوئے اس شعبے کو ہدف بنانا ہو گا۔ ذرا سی کوشش، دلجمعی، لگن اور توجہ سے حکومت یہ کام کر سکتی ہے۔ وزرائ اگر اس شعبے کے حقیقی مسائل کو سمجھ جائیں اور ذاتی تعلقات نبھانے یا بنانے کے بجائے اصل کام پر توجہ دیں تو یقیناً کروڑوں لوگوں کی زندگی میں آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اب دیکھیں انتہائی سادہ بات ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باوجود اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں کمی نہ ہونا کسی اور کی ناکامی تو نہیں ہے یہ انتظامیہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس حوالے جامع منصوبہ بندی کرتی اور عوام کو فائدہ پہنچتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اس حوالے ناراضی کا اظہار بھی کیا ہے۔ اب تو انہوں نے اس حوالے سے مشیر خزانہ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ہے۔عبدالحفیظ شیخ مہنگائی میں کمی کیلئے صوبوں سے مشاورت کریں گے۔ اس کمیٹی کے قیام کے بعد بھی کچھ نہ ہو سکا تو پھر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
واقفان حال بتاتے ہیں کہ کابینہ کے اجلاس میں انیس سو پچاسی سے اب تک تمام شوگر ملز کے آڈٹ کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے اس حوالے سے بدعنوانی کے کیسز قومی احتساب بیورو اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کو بھیجے جائیں گے۔ یہ بھی ایک اچھا فیصلہ ہے۔ احتساب سب کا ہونا چاہیے اور بے رحمانہ ہونا چاہیے اس اہم اور نیک کام میں کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہیے اور چہروں کو دیکھ کر فیصلے بھی تبدیل نہیں ہونے چاہییں اگر تو ہم چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے مستقبل محفوظ ہو تو ہمیں بے رحمانہ فیصلے کرنا ہوں گے اس میں کوئی اپنی جماعت کا شامل ہے یا کسی بھی ادارے سے تعلق رکھتا ہے جس نے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے اور ملک میں بددیانتی کو فروغ دینے اور بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے اس عبرت ناک انجام تک پہنچانا چاہیے۔
احتساب کے معاملے میں شفافیت کو برقرار تکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے احتساب ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے اور بلا امتیاز ہونا چاہیے تاکہ کوئی حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں اسے چاہتے نا چاہتے ہوئے بھی اسے تسلیم کرنا پڑے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ریکوری کی جائے اور سیاست کو داغدار کرنے والوں کو ان کی اصل جگہ پہنچا دیا جائے۔ قوم کا وقت اور پیسہ ضائع کرنے والوں سے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے اور یہ سلسلہ تیز تر ہونا چاہیے۔ برسوں کیسوں کا لٹکا رہنا نا صرف احتسابی عمل کو مشکوک بناتا ہے بلکہ اس صورت حال میں عوامی سطح پر بھی بے چینی بڑھتی ہے اور احتسابی عمل مشکوک ہو جاتا ہے۔ اب یہ طے کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ احتسابی عمل کو صاف شفاف اور تیز تر کیسے بنانا ہے۔ یہ درست ہے کہ جنہوں نے بدیانتی کی ہے وہ چیخ و پکار کریں گے اور معصوم لوگوں کو ساتھ ملائیں گے لیکن شفافیت برقرار رکھی جائے تو راستے آسان ہو جائیں گے۔
در حقیقت انیس سو پچاسی یعنی جب سے میاں نواز شریف نے سیاسی زندگی کا آغاز کیا ہے اس وقت سے لے کر اب تک پاکستان کی سیاست میں کرپشن کی ایسی فصل بوئی گئی ہے کہ اس نے پورے ملک کی سیاست کو ہی کرپشن زدہ کر دیا ہے۔ ان پینتس برسوں میں جو کچھ حکمرانوں نے اس ملک کے ساتھ کیا ہے اور حکومت و سیاست و جمہوریت کے نام پر جو تباہی ہوئی ہے اس کے سب سے بڑے ذمہ دار بھی سابق حکمران ہی ہیں۔ آج وہ خود کو معصوم سمجھتے ہیں اور سادہ لوح عوام کی معصومیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ ان پینتیس برسوں میں ملک کو قرضوں کے جال میں پھنسا دیا گیا ہے، کنگال کر دیا ہے، ادارے تباہ کر دیئے ہیں اور پھر بھی معصوم بنے پھر رہے ہیں۔ یہ تباہی کسی ایک شخص یا ایک حکمران یا ایک ادارے کی وجہ سے نہیں ہوئی یہ مافیا نے مل جل کر ملک کو کنگال کیا ہے اپنے خزانے بھر لیے ہیں اور ملک کا بچہ بچہ مقروض کر دیا ہے۔ کبھی نہ کبھی تو اس تباہی کی ذمہ داروں کا پکڑنا ہے تو پھر اس نیک کام میں دیر کیوں کی جائے۔ یہ نیک کام جتنا جلدی شروع ہو اتنا ہی اچھا ہے تاکہ ملک مسائل سے نکلے اور ترقی کا سفر شروع کرے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024