بدھ ‘11 ؍ شوال ‘ 1441 ھ‘ 3؍ جون 2020ء
میئر اسلام آباد کی سپریم کورٹ میں سرزنش، ساڑھے 4برس میں شہر کیلئے ایک بھی منصوبہ بنایا؟: چیف جسٹس گلزار احمد
اسے کہتے ہیں ’’سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے۔‘‘ بے چارے میئر اسلام آباد دو، تین روز قبل ہی عدالتی احکامات پر بحال ہوئے ہیں، بہرحال ان کی معطلی تو چند روزہ تھی جبکہ ان کی میئرشپ کو ساڑھے 4سال ہوچکے ہیں جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے دوران سماعت استفسار کیا کہ اتنے عرصے میں شہر کیلئے ایک بھی منصوبہ بنایا؟ فاضل چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’’کیا آپ کیلئے آسمان سے من و سلویٰ اترنا ہے، سنجیدہ آدمی نہیں لگ رہے، منتخب نمائندے کو اپنی طاقت دکھانی چاہئے۔‘‘ معزز چیف جسٹس کے ریمارکس واقعی منتخب نمائندوں کا قبلہ درست کرنے کیلئے کافی ہیں لیکن یہاں تو ’’آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔‘‘ بلدیاتی اداروں کے نمائندوں سے لیکر قومی اداروں کے نمائندوں اور ان کے سربراہان سمیت ہر شاخ پر ایسے ہی لوگ بیٹھے ہیں جن کو عوامی مفادات سے کم اور اپنی ذات سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ اب میئر اسلام آباد کو 18ارب روپے کے فنڈز ملے ہیں جو کوئی معمولی رقم نہیں، اتنی بھاری رقم میں سے ’’جائز‘‘ حد تک کمیشن بھی کھا لیا جائے تب بھی اتنی رقم بچ جاتی ہے کہ پورے اسلام آباد میں ترقیاتی کاموں کے جال بچھ سکتے ہیں کیونکہ بین الاقوامی سطح پر ’’جانے پہچانے‘‘ شہر اور پاکستان کے دارالحکومت میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے معمولی شکایت کی گنجائش بھی نہیں، اتنے فنڈز سے تو سڑکوں اور چوراہوں سے لیکر اہم ترین عمارتوں سمیت ہر جگہ کو اس طرح چمکایا اور ’’لشکایا‘‘ جاسکتا ہے کہ ’’نظر پڑتے ہی پھسل جائے۔‘‘ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب عوامی نمائندے اپنی فرائض منصبی کو کماحقہ ادا کریں اور اپنی طاقت دکھائیں لیکن بدقسمتی سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ عوامی نمائندے اپنی طاقت ضرور دکھاتے ہیں مگر ملک و قوم کیلئے نہیں‘ اپنے اپنے مفادات کیلئے کیونکہ پاکستان کے تمام اداروں سے تعلق رکھنے والے نمائندے اور حکام اس مشن پر گامزن ہیں کہ ’’بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔‘‘ جس کا پنجابی میں آسان ترین مفہوم یوں ہے کہ ’’اے جہان مٹھا تے اگلا کنّے ڈٹھا۔‘‘
٭…٭…٭
کرونا وائرس اب پہلے جیسا جان لیوا نہیں رہا: اطالوی ڈاکٹروں کا دعویٰ
دنیا بھر کے اطبائ‘ ماہرین صحت‘ ڈاکٹر‘ تنظیمیں اور ادارے کرونا کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ معیشت کا ’’کچومر‘‘ نکل گیا ہے۔ کرونا کے جان لیوا خوف کے باعث دنیا مقید ہوکر رہ گئی ہے۔اس متعدی مرض کی روک تھام کیلئے امریکہ اور برطانیہ سمیت کہیں سے بھی خیر کی خبر سننے کو نہیں مل رہی، تاہم اٹلی کے ڈاکٹروں کا اللہ بھلا کرے جنہوں نے یہ مژدہ سنایا ہے کہ ’’کرونا وائرس اب پہلے جیسا جان لیوا نہیں رہا۔‘‘ ہوسکتا ہے اٹلی کی حد تک ایسا ہی ہو کیونکہ اٹلی میں کرونا نے پہلے پہل جو تباہی ڈھائی، اب مریضوں اور مرنے والوں کی تعداد اس تناسب سے کم ہوگئی ہو لیکن ہمارے ہاں تو یہ اب رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ مریضوں کی تعداد میں ہر روز خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے، یہاں تو ابھی تک ’’دن رلاتا ہے خون کے آنسو‘ رات کی کوکھ ظلم جنتی ہے‘‘ والا معاملہ ہی ہے۔ ہمارے عوام بھی کرونا کے مقابلے کیلئے ہر وقت ’’آستینیں چڑھائے‘‘ رکھتے ہیں۔ کسی لاک ڈائون کی پرواہ‘ نہ حفاظتی تدابیر کا خیال۔ اللہ کرے ہمارے پاکستان میں بھی کرونا جان لیوا نہ ہو، بس ’’سوں ساں‘‘ کرے اور چلا جائے کیونکہ ہم نے بھی ’’سماجی دوریوں‘‘ کا جبر اپنے مزاجوں کے برعکس قبول کیا ہے۔
٭…٭…٭
دو دہائی میں پہلی بار ’’موڈیز‘‘نے بھارت کی ریٹنگ کم کردی
خدشہ ہے کہ بھارت اس کا ملبہ بھی سارا پاکستان پر ہی نہ ڈال دے کیونکہ جس طرح بھارت کے حکمران‘ سیاستدان، فوجی اور سول افسر‘ نیوز اینکر اور نام نہاد سماجی کارکن پاکستان دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، جیسے کبوتروں کے ذریعے جاسوسی اور ٹڈیوں کو دہشت گردی کے لئے بھارت بھیجنے جیسے معاملات بھارتیوں کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں، اسی طرح اب ’’موڈیز‘‘ نے بھارتی معیشت کے حوالے سے خبردار کیا ہے کہ مالی سال 2021ء میں بھارت کا جی ڈی پی 4فیصد کم ہو جائے گا جبکہ قرضوں کا حجم جی ڈی پی کا 84فیصد ہو جائے گا حالانکہ بھارتی عوام اور بھارت کی معیشت پر یہ ساری نحوست مودی کے منحوس سائے کی وجہ سے ہی ہے۔ چند روز قبل بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس نے وائٹ پیپر جاری کرکے علاقائی اور خطے میں امن سمیت تمام خرابیوں کی جڑ مودی جنونیت کو ہی قرار دیا ہے۔
٭…٭…٭
مہنگائی کیخلاف اب تک کریک ڈائون ہو جانا چاہئے تھا: وزیر پارلیمانی امور
مہنگائی کے خلاف کارروائی کیلئے وزیر پارلیمانی امور محمد علی نے جس طرح ’’حسرت‘‘ اور ’’یاس‘‘ کے ساتھ ’’آہ بھر‘‘ کر خواہش ظاہر کی ہے، اس سے تو لگتا ہے کہ یہ ’’بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے والا معاملہ ہے۔‘‘ اس سے مافیا کے انتہائی طاقتور ہونے کا بھی تاثر ملتا ہے حالانکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں جس طرح کم ہوئی ہیں، اس تناسب سے مہنگائی میں کمی ہونی چاہئے تھی لیکن یہاں تو حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے براہ راست منسلک پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے کم نہیں کرا سکی۔ باقی معاملات تو دور بات ہے اور مہنگائی مافیا نے جس طرح پورا رمضان المبارک اور عید کے ایام میں حکومتی اداروں کی گڈ گورننس‘ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے اختیارات کا منہ چڑایا ہے‘ اس کے بعد وزیر پارلیمانی امور کا تو یہی کہنا بنتا ہے کہ ’’مہنگائی کے خلاف کریک ڈائون ہو جانا چاہئے تھا۔‘‘ بھلا یہ کام بھی وزیراعظم نے ہی کرنا ہے اور اس کی منظوری کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ سیشن بلانا ہوگا یا ماضی کے حکمرانوں کی طرح ’’ڈرامے بازی‘‘ اور مختلف ’’کرتب‘‘ دکھا کر عوام کو مرعوب کرنا ہوگا کہ اذان فجر سے پہلے ہر ضلع کا ڈی سی‘ ڈی پی او سبزی منڈیوں میں پہنچ کر نیلامی کی نگرانی کر رہے ہیں اور ایک ’’پھڑیے‘‘ سے نرخ معلوم کر رہے ہوتے ہیں اور صوبائی دارالحکومت (لاہور) میں کمشنر‘ چیف سیکرٹری اور آئی جی بھی ’’گڈ گورننس‘‘ میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے ’’صبح خیزی‘‘ کے مزے لوٹتے ہیں اور شاید وزیر پارلیمانی امور بھی ایسی ہی گورننس چاہتے ہیں کیونکہ…؎
ہم نہ سمجھے تیری نظروں کا تقاضا کیا ہے
کبھی جلوہ‘ کبھی پردہ ‘یہ تماشا کیا ہے
٭…٭…٭