کراچی میں ہوائی حادثے میں 100 جانیں چلی گئیں۔ یہ ایک گہرے دکھ اوررنج کی بات ہے مگر اس سے ساری دنیا کو پیغام چلا گیا کہ پاکستان میں زندگی معمول پر آ گئی ہے۔ لاک ڈائون کے دوران ہم اس اداسی کا شکار ہو گئے تھے کہ ہمیں مرنے مارنے کی کھلی چھٹی کیوں نہیں۔لوٹ مار اور منافع خوری کی کھلی چھٹی کیوں نہیں، اور کرونا کے علاوہ امراض میں مرنے کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا۔ اب یہ سب کچھ بتدریج بحال ہو رہا ہے۔ لاک ڈائون میں پہلی بار نرمی ہوئی تو پشاور کے ایک گھر میں ماں اوربچوں کی لاشیں ملیں۔ کل پنڈی میں اہل خانہ نے اپنی ملازمہ کو تشدد کرکے ہلاک کردیا ۔ لاک ڈائون میں نرمی سے دہشت گردوں کی رسی بھی ڈھیلی ہو گئی اور انہوں نے فاٹاا ور بلوچستان میں تخریبی کاروائیاں شروع کر دیں۔ لاک ڈائون کے دوران سڑکیں اور گلیاں سنسان رہیں اور ان کی خون آشامی کی ہوس پوری نہیں ہو رہی تھی، سو اب سڑکوں پر حادثات بھی بڑھ گئے ہیں، اور ان میں ضائع ہونے والی جانیں کچھ ہی عرصے میں کرونا کی اموات سے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ آپس کے لڑائی جھگڑے بھی معمول کے مطابق شروع ہو گئے ہیں خواتین بھی ایک دوسری پر چڑھائی کر رہی ہیں اوردرجنوں افراد باہمی لڑائیوں میں جاں بحق ہو رہے ہیں۔
لاک ڈائون میں منافع خوروں پر غشی کے دورے پڑ رہے تھے مگر اب ان کی پانچوں انگلیاںگھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ ایک چاند رات پر ان کی چاندی ہو گئی۔اور مہندی ا ور چوڑیوں نے ایسا ادھم مچایا کہ خدا کی پناہ۔ ہر طرف رش ہی رش تھا،بندے پہ بندہ چڑھا ہوا تھا ۔ خواتیں آپس میں گتھم گتھا ہو رہی تھیں۔ یہ وہ مناظر تھے جنہیں دیکھنے کو ہماری آنکھیں ترس گئی تھیں۔
ویسے تو بلیم گیم کے بغیر ہم ایک لمحہ بھی نہیں گزار سکتے لیکن لاک ڈائون کے بعد تو اس کا گراف بلند ترین سطح پر ہے۔ شیخ رشید کی پیش گوئی ہے کہ عید کے بعد جھاڑو پھرے گاا ور نظربھی یہ آتا ہے کہ نیب کے ہاتھوں بڑی بڑی گرفتاریاں ہوں گی چاہے اندر سے کچھ نکلے یا نہ نکلے لیکن بہر تماشہ کچھ تو ہونا چاہئے ۔ ہمارے عوام کو بیوقوف نہ بنایا جائے تو ان کو بد ہضمی لاحق ہو جاتی ہے۔ سو جو تحقیقاتی رپورٹیں آ چکیں ان پر کچھ تو ایکشن ہو گا، فلم میںایکشن نہ ہو، صرف اسٹوری ہو، وہ ڈبہ ثابت ہوتی ہے۔
وفاق اور صوبوں کی کشمکش میں بھی معمول اور دیرینہ روایات کے مطابق تیزی آتی جا رہی ہے۔ سندھ کو اٹھارویں ترمیم پر مان ہے اور وفاق کو شکائت ہے کہ ہ تو کنگلا ہے۔ سو اختیارات اور مال و اسباب کی چھینا جھپٹی کے مناظر بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ یہ بھی ہمارے معمولات کے مشاغل کا ایک حصہ ہے۔
پاک بھارت تعلقات بھی معمول کی طرف رواں دواں ہیں، بھارت نے چین سے پٹائی کا بدلہ پاکستانی سفارتی عملے سے لیا ہے اور انہیں ملک سے نکل جانے کو کہا ہے،اب جواب ا ٓں غزل بھی آ جائے گا۔ بھارت کو ہم کھلی چھٹی تو نہیں دے سکتے۔ ویسے بھارت کی درگت نیپال جیسا چھوٹا ملک بھی بنا رہا ہے۔ اب بھارت نے علاقے میں تھانیداری تو دکھانی ہے اس لئے پاکستان اس کا معمول کا ہدف ہے اور بڑا آسان ہدف۔ اس لئے کہ ہم میں سے اکثریت کے دل بھارت کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
لاک ڈائون میں نرمی سے کلرک بادشاہ کے منہ سے بھی رال ٹپک رہی ہے۔ اب ان کی کمائی کے دن آ گئے۔ وہ فائلوں کو پہئے لگوائے بغیر حرکت نہیں کرنے دیں گے۔ اور رہے بڑے افسر تو وہ فائل پر گھگھی مارنے سے پہلے کی طرح کترائیں گے کہ ایف آئی اے یا نیب گلے نہ پڑ جائے۔ یوں اعلی ترین سطح پر جمود ویسے کا ویسا ہی رہے گا۔ اس کے ہم عادی سے ہو گئے ہیں۔
ایک پاکستان پر کیامنحصر امریکہ بھی اپنے معمول کی طرف لوٹ چکا ہے۔ ایک ہفتے سے امریکہ جل رہا ہے۔ وائٹ ہائوس کی بتیاں گل ہو گئیں ۔ دنیا کے طاقتور حکمران ٹرمپ کو خوفزدہ ہو کر بنکر میں گھس کر جان بچانا پڑی۔باہر نکلا تو دارالحکومت واشنگٹن کی حفاظت کے لیے فوج طلب کر لی ہے۔ پولیس آنسو گیس کے گولے داغ کر تھک گئی ہے مگر احتجاجی مظاہرین چالیس ریاستوں میں کرفیو کی پابندیوں کو خاطر میں لانے کو تیار ہی نہیں۔ یہ امریکہ کا اصل چہرہ ہے جو لاک ڈائون کے بعد سا منے ا ٓ گیا ہے۔امریکہ کے یہ ہنگامے اب بیرون دنیا میں بھی پھیل گئے ہیں۔ آسٹریلیا، نیو زی لینڈ اور یورپ بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔
پاکستان کی طرف واپس آتے ہیں۔جہاں سڑکوں پر چہل پہل ہے۔ موٹر سائیکلیں کاریں ریڑھیاں شانہ بشانہ رواں دواں ہیں۔ احتیاطی تدابیر کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔بیس پچیس سے اسی نوے لوگ کرونا سے مرناشروع ہو گئے ہیں جس سے خدشہ ہے کہ نقاد عمران خان پر برسیں گے کہ اور کھولیں لاک ڈائون۔ وزیر اعظم کے پاس اس تنقید کا جواب ضرور ہو گا جو سامنے آ ہی جائے گا۔ مگر ہم اپنی ذمے داری پوری کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔بہر حال وزیر اعظم کو نشانے پر رکھنے کا شوق پورا کیا جائے گا۔ یہ ہمارا معاشرتی اور سیاسی معمول ہے کہ ہر حکومت کو برا کہیں اورا س میں کیڑے نکالیں۔اس لحاظ سے ہمارے معمولات کی بحالی میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024