وفاقی اور صوبائی حکومتیں پانچ سال کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد سبکدوش ہو گئی ہیں اسی طرح قومی اور صوبائی اسمبلیاں بھی اپنی مدت ختم ہونے کے بعد تحلیل ہو گئی ہیں۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اپنی حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد 31 مئی 2018ء سبکدوش ہو گئے ہیں اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان ریٹائرڈ جسٹس ناصر الملک نے یکم جون کو نِگران وزیراعظم کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔
نگران وزیراعظم کے طور پر ان کے نام پر آئینی تقاضوں کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے مابین باہمی مشاورت کے بعد اتفاق رائے ہوا۔ فریقین کے مابین اس سلسلے میں چھ اجلاس ہوئے اور نوبت یہاں تک آ گئی کہ وزیراعظم عباسی اور قائد حزب اختلاف نے کہہ دیا کہ اب مزید مشاورت نہیں ہوگی اور معاملہ آئین کے آرٹیکل 224 اے (1) کے مطابق پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کیا جائے گا۔
مگر قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق جو اس سلسلے میں مسلسل وزیراعظم عباسی کے ساتھ رابطے میں تھے کی بروقت مداخلت کے باعث وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان باہمی مشاورت کے لئے ایک اور اجلاس 28 مئی کو ہوا جو خوش قسمتی سے فیصلہ کن ثابت ہوا اور فریقین ریٹائرڈ جسٹس ناصر الملک کے بطور نگران وزیراعظم کے نام پر متفق ہو گئے۔ اور اس طرح معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد ہونے سے بال بال بچ گیا۔ اور آئینی تقاضے بھی پورے ہو گئے۔
ریٹائرڈ جسٹس ناصرالملک تین ماہ کی عبوری مدت میں وفاقی حکومت کے روزمرہ امور چلائیں گے اور سب سے اہم ذمہ داری کے طور پر ملک میں صاف، شفاف، غیر جانبدار اور صاف ستھرے پر امن ماحول میں عام انتخابات کرائیں گے۔ صدر مملکت ممنون حسین پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخابات ایک ہی دن 25 جولائی 2018ء کو ہوں گے جن کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان ضروری انتظامات تسلسل کے ساتھ کر رہا ہے۔
ریٹائرڈ جسٹس ناصرالملک پاکستان کے ساتویں نِگران وزیراعظم ہیں قبل ازیں نگران وزیراعظم کے طور پر غلام مصطفیٰ جتوئی نے 6 اگست سے 6 نومبر 1996ء تک فرائض انجام دئیے جب محترمہ بینظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو صدر غلام اسحاق خان نے اقتدار میں آنے کے صرف ایک سال 8 مہینے اور چار دن بعد مختلف الزامات پر برطرف کر دیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔سردار بلخ شیر مزاری دوسرے نگران وزیراعظم اس وقت بنے جب ابتدائی طور پر اسلامی جمہوری اتحاد اور ازاں بعد پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی میاں نوازشریف کی حکومت بھی صدر غلام اسحاق خان نے صرف دو سال 5 مہینے اور 12 دن کے بعد برطرف کر دی۔
سردار بلخ شیر مزاری صرف ایک ماہ اور آٹھ دن اس عہدے پر رہے کیونکہ نوازشریف اپنی برطرفی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں لے گئے تھے اور اُن کی حکومت 26 مئی 1993ء کو بحال کر دی گئی مگر صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ شدید اختلافات کے باعث اور ذمہ دار حلقوں کی مداخلت کے بعد صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نوازشریف دونوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے اور نوازشریف ایک ماہ 22 دن تک عہدے پر رہے اور 18 جولائی 1993ء کو عہدے سے مستعفی ہو گئے۔اس صورتحال میں معین الدین احمد قریشی 18 جولائی 1993ء کو نِگران وزیراعظم مقرر ہوئے اور تین ماہ ایک دن تک اس عہدے پر فائز رہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو عام انتخابات میں کامیابی کے بعد 19 اکتوبر 1993ء کو دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ لیکن اُن کی حکومت 3 سال 17 دن کے بعد برطرف کر دی گئی، اس مرتبہ ان کی اپنی سابق پیپلزپارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل اور اُن کے اپنے نامزد کردہ صدر سردار فاروق احمد خان لغاری نے بعض الزامات پر اُن کی حکومت ختم کر دی اور یوں ملک معراج خالد 5 نومبر 1996ء کو ملک کے چوتھے نِگران وزیراعظم بنے اور 17 فروری 1997ء تک تین مہینے اور 12 دن تک اس عہدے پر فائز رہے۔محمد میاں سومرو 16 نومبر 2007ء سے 25 مارچ 2008ء تک 4 مہینے 9 دن کے لئے پانچویں نگران وزیراعظم بنے۔اور میر ہزار خان کھوسو 25 مارچ سے 4 جون 2013ء تک دو مہینے اور 10دن کے لئے چھٹے نِگران وزیراعظم بنے۔اور یہ چھ نگران وزراء اعظم مجموعی طور پر 17 مہینے10 دن کے لئے اس عہدے پر فائز رہے۔
یہ بات قابل اطمینان ہے کہ ڈھیلی ڈھالی جمہوریت کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے اپنی پانچ سال کی آئینی مدت پوری کی۔ نواز شریف تیسری مرتبہ 5 جون 2013ء کو وزیراعظم بنے اور 28 جولائی 2017ء کو پانامہ کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کونااہل قرار دیتے ہوئے عہدے سے الگ کر دیا۔ شاہد خاقان عباسی نے اُن کے جانشین کے طور پر یکم اگست 2017ء کووزیراعظم کا عہدہ سنبھالا اور 31 مئی 2018ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس طرح پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے پانچ سالہ دور میں دو وزیراعظم بنے۔ اس سے پہلے پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم) نے 2002ء سے 2007ء تک اپنی آئینی مدت پوری کی اور اس دوران میر ظفر اللہ خان جمالی، چودھری شجاعت حسین اور شوکت عزیز وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008ء سے 2013ء تک ا پنی 5 سال کی آئینی مدت پوری کی اور اس دوران سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف وزیراعظم کے عہدے پر رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی طویل ترین مدت تک 25 مارچ 2008ء سے 19 جون 2012ء تک چار سال دو مہینے اور 25 دن تک اس عہدے پر فائز رہے اور وہ سپریم کورٹ کی طرف سے توہین عدالت کے مرتکب ہونے پر نااہل قرار دئیے گئے اور اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔ اُن سے پہلے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان 14 اگست 1947ء سے 16 اکتوبر 1951 ء اس عہدے پر چار سال دو مہینے دو دن تک، اس عہدے پر فائز رہے جب 16 اکتوبر 1951ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ سے خطاب کے دوران ان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور اس طرح وہ غیر طبعی موت کے باعث اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔ خدائے بزرگ و برتر کی مسلسل مہربانی کے باعث جمہوری عمل پاکستان میں جاری و ساری ہے اور انشاء اللہ جاری رہے گا۔ آمین
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024