چند الفاظ میں کی گئی یہ نشاندہی یقیناً قابل غور ہے کہ ’’یہ معاملہ صرف جعلی ڈگریوں کا نہیں، اصل کہانی کچھ اور ہے۔‘‘ ذہن میں اس سوال کا کلبلانا فطری امر ہے کہ ’’اصل کہانی کیا ہے‘‘ جہاں تک یہ سوال کہ ایگزیکٹ سکینڈل کیا ہے، شعیب شیخ کتنا بڑا فراڈ ہے مجھے اس سے دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی یہ میرا مسئلہ ہے کہ ’’بول‘‘ نے آن ایئر ہونے سے پہلے ہی کس کس کی نیندیں حرام کی ہیں۔ البتہ ایک ادنیٰ پاکستانی شہری کی حیثیت سے یہ میرا استحقاق ہے کہ ملکی اداروں کے کردار کا جائزہ لوں اور کوئی رائے قائم کروں جو حرفِ آخر بہرحال نہیں ہے۔ امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے ایگزیٹ کے حوالے سے جعلی ڈگریوں کے کاروبار کی خبر بریک کی مگر یہ انہونی نہیں ہے۔ وہ کون سا ملک ہے جہاں جعلی ڈگریوں سمیت مختلف جعلسازیوں پر مبنی کاروبار نہیں ہوتا۔ پاکستان میں برسوں پہلے جعلی ڈگریوں کے حوالے سے ’’بلڑ یونیورسٹی‘‘ نے شہرت پائی تھی۔ اس کے بعد سے بھی یہ کاروبار رکا نہیں ہے مگر ایف آئی اے جس برق رفتاری کے ساتھ ایگزیکٹ کے خلاف سرگرم ہوئی اور ’’جنگی بنیادوں‘‘ پر کارروائی کی گئی۔ اُدھر نیویارک ٹائمز نے خبر دی اِدھر ایف آئی اے کے حکام ’’برقی گھوڑوں‘‘ پر سوار ہو کر تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ ماضی اور حال میں مستعدی کی ایسی مثال نہیں ملتی، اس پر وہ ’’حُسنِ کارکردگی‘‘ کے اعلیٰ ترین ایوارڈ کے مستحق ہیں۔ مگر ایف آئی اے کے ارباب بست و کشاد سے یہ بھی پوچھ لیا جائے کہ حضور، کتنے ایم این اے، ایم پی اے اور سرکاری و نجی اداروں میں مناصب حاصل کرنے و الے جعلی ڈگریوں سے فیضیاب ہوئے صرف نااہلی کی ’’معصوم‘‘ سی سزا اور پھر اسی نشست پر دوبارہ ایوان میں براجمان، ان لوگوں نے جن اداروں سے جعلی ڈگریاں لیں ایف آئی اے ان کے خلاف ایسی مستعدی کا مظاہرہ کرنے سے کیوں معذور رہی شاید امریکی حکمرانوں کے احکامات ہمارے لئے ایمان کا درجہ رکھنے کے ساتھ ساتھ امریکی اخبار کی خبر بھی ایسا ہی درجہ رکھتی ہے ورنہ ایسی ہی خبر تو عامر لیاقت کی جعلی ڈگری کے حوالے سے پورے ثبوت کے ساتھ ایک پاکستانی اخبار ’’اُمت‘‘ نے بھی شائع کی۔ دوسرے اخبار نے بابر اعوان کی جعلی ڈگری کی خبر شائع کی لیکن دونوں نے ان دونوں اخبارات کے خلاف قانونی کارروائی کی نہ ایف آئی اے نے ان دونوں شخصیات کے خلاف ایسی مستعدی سے تفتیش و تحقیق کی۔
ایک میڈیا گروپ کے کالم میں سوال اٹھایا گیا ہے ’’ہو سکتا ہے شعیب شیخ اپنے اصل سرپرستوں اور شریک کاروں کے نام بھی بتا دے‘ پھر کیا ہو گا؟ پاکستانی ریاست کیلئے قانون کی بالادستی کو ممکن بنانا ایک بہت بڑا چیلنج تو نہیں بن جائے گا۔‘‘ بین السطور یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ شعیب شیخ کے اصل سرپرست اور شریک کار اتنے طاقتور ہیں کہ ان کے خلاف قانون کی بالادستی ریاست پاکستان کے لئے بھی بڑا چیلنج ہے‘ یہ طاقتور کون ہیں، اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اس کے پسِ پشت عزائم کو بھی پرکھا جا سکتا ہے۔ لاہور پریس کلب کے دو ہزار کے لگ بھگ ممبران میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو اس حقیقت کا شناور نہ ہو کہ اس ملک میں ایک ایسا میڈیا گروپ بھی ہے جس کے وابستگان ہر نئے ادارے میں جاتے ہیں اور ’’خانہ خراب‘‘ کر کے واپس اپنی جگہوں پر آ جاتے ہیں‘ حاشا وکلا مَیں اس میڈیا گروپ کے بھی مزید پھلنے پھولنے کا آرزومند ہوں کہ میرے ہزاروں ساتھیوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔
گذشتہ چند برسوں میں بہت سے چینلز آئے‘ کچھ نے اپنی جگہ بنا لی اور بیشتر ڈمی اخباروں کی طرح چلائے جا رہے ہیں ان سے وابستہ کارکن جس ناگفتہ بہ صورتحال کا شکار ہیں صحافی برادری میں کون ہے جو واقف نہیں ہے۔
’’بول‘‘ ایک چینل کے طور پر آ رہا ہے تو اس سے خوف کیسا؟ جن اداروں سے لوگ اس میں گئے ہیں ان کی عدم موجودگی میں ان اداروں کی ریٹنگ پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس لئے ایگزیکٹ کے خلاف جو بھی ’’قانونی سلوک ہو‘ ہوتا رہے مگر ’’بول‘‘ کے ’’بولنے‘‘ میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
عامر لیاقت جس میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں تعجب ہونا چاہئے اس کے کرتا دھرتا ان کی جعلی ڈگری کے حوالے سے شائع شدہ رپورٹ سے آج تک ایف آئی اے کی طرح بے خبر رہے ہیں اب جبکہ ایف آئی اے نے بھی ان کی جعلی ڈگری کی تصدیق کر دی ہے اور ’’ہر معاملے میں شفافیت اور قانون کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے‘‘ کی تلقین کرنے والا میڈیا گروپ پر عام لوگوں کی نہ سہی اہلِ صحافت کی نظریں ضرور گڑی ہیں کہ وہ خود اپنے اداروں میں جعلی ڈگری رکھنے والوں سے کیا سلوک کرتا ہے۔آج ایف آئی اے کے حکام بڑے ہیرو بن کر کارکردگی دکھا رہے ہیں ان سے پوچھا جائے پاکستان میں ہونے والے جرم سے وہ کیوں بے خبر رہے۔ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کا نمائندہ ان سے زیادہ باخبر کیسے ہو گیا کیا ’’بول‘‘ کیلئے مشینری ’’سلیمانی ٹوپی‘‘ پہن کر پاکستان پہنچی تھی۔ کیا وفاقی وزیر داخلہ میں یہ ہمت ہے کہ وہ ایف آئی اے اور کسٹمز حکام سے یہ پوچھ سکیں کہ ان کے اہلکاروں کی ائرپورٹوں اور بندرگاہوں پر موجودگی کے باوجود قانونی دستاویزات کے بغیر یہ مشینری کیسے ملک میں داخل ہوئی اگر قانونی دستاویزات کے بغیر بول کی مشینری لائی جا سکتی ہے تو پھر اس ملک میں قانونی دستاویزات کے بغیر کیا کچھ نہیں لایا جا سکتا پھر ایف آئی اے اور کسٹمز کے اہلکاروں کا مصرف کیا ہے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ نیویارک ٹائمز نے ایگزیکٹ کو تو بے نقاب کردیا لیکن وہ ان جعلی یونیورسٹیوں پر پردہ کیوں ڈالے ہوئے ہے جن کی ڈگریاں ایگزیکٹ نے جاری کی ہیں۔ خلیج کے ایک انگریزی اخبار میں 1994ء میں یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ امریکہ میں ایک ایک کمرے میں قائم یونیورسٹیاں ہزاروں ڈالرز میں اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں عربوں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹ رہی ہیں۔ دو عشرے سے زائد ہوئے ان کے خلاف کوئی کارروائی سننے میں نہیں آئی نہ جانے ایگزیکٹ جیسے کتنے ادارے دنیا بھر میں ان کے ایجنٹ ہیں۔ اس لیے نیویارک ٹائمز کا اصل ہدف ایگزیکٹ نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ ایک کالم نگار کے ان الفاظ پر دوبارہ غور کرلیا جائے۔ ’’یہ معاملہ صرف جعلی ڈگریوں کا نہیں، اصل کہانی کچھ اور ہے‘‘ کیا واقعی اصل کہانی کچھ اور ہے؟؟؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024