بجٹ 2013ء حکمران جماعت کی پالیسیوں کا امتحان
عنبرین فاطمہ ۔۔۔۔
5جون کو مسلم لیگ (ن) کے سربراہ” میاں محمد نواز شریف“ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے والے ہیں۔حلف اٹھاتے ہی بجٹ پیش کرنا حکمران جماعت کا پہلا امتحان ہوگا۔گو کہ حکمران جماعت کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ عوام کو 100فیصد ریلیف دینے والا بجٹ پیش کرسکے کیونکہ اس وقت ملکی خزانہ خالی،وسائل کی کمی ہے اورسرکلر ڈیٹ سر پر چڑھا ہوا ہے یوں ایک مشکل وقت میں پیش کئے جانے والے بجٹ سے ہمیں زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہیں ہاں اگلے برس کا بجٹ اصل میں حکمران جماعت کی پالیسیوں کا اصل امتحان ہوگا اس وقت ہم کچھ بھی کہنے اور توقعات رکھنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔لہذا اس بار پیش کئے جانے والے بجٹ پر ہمیں زیادہ واویلا نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ حکومت بجٹ میں اپنی ترجیحات کیا رکھتی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ جمہوری دور میں پیش کئے جانے والے ہر سال کے بجٹ میں عوام کو مایوسی کا سامنا رہاسوشل سیکٹر کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ۔ایک سے زائد مرتبہ ان کے وزیر خزانہ تبدیل ہوئے امید کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اس بات کا خاص خیال رکھے گی اور اپنے وزیر خزانہ کو بار بارتبدیل نہیں کرتی رہے گی۔اس وقت حکمران جماعت کے لئے انرجی سب سے بڑا مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کےلئے ٹھوس پالیسیاں ترتیب دینی ہوں گی۔کرپشن اور کنڈا لگانے کے عمل کو روک لیا جائے اور سرکاری اداروں میں بجلی کے بلوںکی ادائیگی کے معاملے کو یقینی بنایا جائے تو ہم تقریباً بیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔گزشتہ پانچ برسوں میں ہم پر تین گنا زیادہ قرضہ چڑھا ہے پیدا ہونے والا ہر بچہ 90ہزار کا مقروض ہے۔کرنسی کی ویلیو کم ہونے اور انویسٹمنٹ پاکستان میں نہ آنے کی وجہ سے مسائل مزید گھمبھیر ہوئے ہیں۔اس بجٹ میں جو چیز دیکھنے والی ہو گی وہ یہ کہ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں انہیں ٹیکس نیٹ بڑھانے،اخراجات کو کم کرنے اور Earningکے ذرائع بڑھانے ہوں گے۔کارخانے اور فیکٹریاں چلانے کےلئے تمام ترقیاتی منصوبے فی الحال روکنے ہوں گے۔جو ادارے (ریلوے،پی آئی اے) ڈیفالٹ ہوچکے ہیں ان کی بحالی کےلئے سنجیدہ اقدامات درکار ہیں۔اگر ہم نے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا تو پھر اسلامی ملکوں کے ساتھ تعلقات استوار کرکے اس نہج پر لانے چاہیں کہ وہ ہمیں آسان شرائط پر قرضے دیں۔اس کے علاوہ ڈیفنس پر بجٹ کا 50فیصد سے کم کرکے 20فیصداور Capasity buildingپر لگانے پر توجہ دیں تو شاید معاملات بہتری کی جانب آسکتے ہیں۔1973ءکاآئین ریاست کی یہ ذمہ داری متعین کرتا ہے کہ وہ تمام شہریوں کو مساوی طور پر ان کی اہلیت کے مطابق روزگار مہیا کرے اور دی گئی خدمات کی نوعیت کے مطابق ان کو معاوضہ ادا کرے۔آئین میں تعلیم،صحت ،روزگار کے مواقع اور دوسری بنیادی ضروریات مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے لیکن غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ریاست کا نظم و نسق چلانے والے اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ہر نیا آنے والا بجٹ ہندسوں کا ہیر پھیر ہوتا ہے آٹے اور دال کی قطار میں لگے عوام کے سر سے گزر جاتا ہے ۔بجٹ میں محض لفظوں کی لیپا پوتی کر کے معیشت کو نہ تو مضبوط کیاجا سکتا ہے اور نہ ہی عوام کو کسی قسم کی سہولت دی جا سکتی ہے۔ہمارے ہاں بننے والا بجٹ عوام دوست نہیں خواص دوست بجٹ ہوتا ہے کیونکہ یہ بجٹ ڈکٹیشن سے بنتا ہے بھلا قرضوں کے بوجھ تلے دبا کوئی ملک عوامی بجٹ کیسے بناسکتا ہے۔ہمارے معاشی مسائل کا حل صرف اور صرف اپنے وسائل پر انحصارکرنے میں ہی مضمر ہے۔پاکستان کو بنے 65 سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے ہم پہلے دن سے ہی ملک کو قرضوں پر چلا رہے ہیں جب تک قرضوں کی لعنت سے نجات حاصل نہیں کرتے تب تک عوام کو سکھ کا سانس نہیں ملے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ ایمانداری سے ٹیکس ادا کریں جیسا کہ مہذب معاشروں میں ہوتا ہے ۔اس وقت پاکستان کو ہماری غلط پالیسیاں جس موڑ پر لے آئی ہیں اس میں جو بھی بجٹ بنایا جائے گا وہ سخت ہی ہو گا اور عوام پر بجلی بن کر گرے گا۔ہمارے حکمرانوں پر ایک ہی بھوت سوار رہا ہے اور وہ ہے قرضے لینے کا ان قرضوں نے ملک کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے ۔آخر کیوں ہم خود پر انحصار نہیں کرتے آخر ہم ایک زرعی ملک ہیں خدا نے ہمیں جن وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے ان کو بروئے کا ر لائیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہمیں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے۔اگر ہم ٹیکس سے رقم اکٹھی کرنی شروع کر دیں اور لوگ ایمانداری سے ٹیکس کی ادائیگی کریں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ پاکستان کا بجٹ خسارے میں جائے۔آئی ایم ایف کے معاہدے تو لوگوں سے روٹی چھیننے کا نظام ہے ۔جب ہم ایٹمی قوت بنے تھے تو دنیا نے ہم پر پابندیاں عائد کر دی تھیں اور کئی سال ہم نے بغیر قرضوں کے گزارے تھے اگر اس وقت ایسا کیا تو اب کیوں نہیں۔قرضوں اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے عوام پریشانی کا شکار ہیں جن کے لئے ایک وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن ہو گیا ہے امید ہے کہ آنے والے بجٹ میں غریبوں کو ریلیف دیا جائے گا۔عوامی بجٹ وہ ہوتا ہے جس میں عوام کو ریلیف ملے ضرورت کی بنیادی اشیاءکو سستا کرنے کی ضرورت ہے ۔آنے والا بجٹ کیسا ہو گا اس بارے میں ان دنوں بحث و تمحیص جاری ہے۔اس حوالے سے ہم نے پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما ”مہرین انور راجہ“ سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے نامساعد حالات میں حکومت سمبھالی اس کے باوجود ہم نے پانچ سال تک عوام کو ریلیف دینے والا بجٹ پیش کیا۔ہر وہ ممکن اقدامات کئے جو عوام کو ریلیف پہنچائیں۔اوراب نئی بننے والی حکومت پر ایک بھاری ذمہ داری ہے کیونکہ عوام نے ان کو مینڈیٹ دیا ہے اور بہت ساری امیدیں وابستہ کی ہیں۔اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے جلسے جلوسوں میں عوام سے جو وعدے کئے تھے ان کو پورا کرنے کےلئے کس قدر سنجیدہ اقدامات کرتے ہیں۔اس بجٹ سے حکومت کی ترجیحات کا پتہ چل جائے گا۔مسلم لیگ (ن) کی رہنما ”ماروی میمن“ نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) عوام کو ریلیف دینے والا بجٹ پیش کرے گی ہماری حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ عوام کی بہتری کےلئے ہی ہوگا۔سابقہ حکومت نے کھوکھلے بجٹ پیش کئے اور عوام کا خون نچوڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔عوام کے مینڈیٹ کا خیال رکھتے ہوئے ہم مسائل کے حل کےلئے دن رات کوشش کر رہے ہیں۔اینکر پرسن ”عاصمہ چوہدری“ نے کہا کہ ہمارے ہاں جون میں سالانہ بجٹ آنے کے بعد سارا سال منی بجٹ نازل ہوتے رہتے ہیں نتیجتاً چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور مہنگائی کی ماری ہوئی عوام سڑکوں پر احتجاج کرتی نظر آتی ہے ۔معاشی سال کے آخر میں وزیر خزانہ اپنی بجٹ سپیچ میں یہ کہتے ہیں کہ ہم بجٹ کے اہداف نہیں پورے کر سکے سوال یہ ہے کہ کیوں اہداف پورے نہیں ہو سکے ہمارے ہاں اس حوالے سے بھی کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔جہاں تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بات ہے تو ان کے پاس اچھی معاشی ٹیم ہے امید ہے کہ عوامی اور ملکی مسائل میں کمی لائی جائے گی لیکن اس برس معاشی بحران کا شکار خواتین اور مرد حضرات کو اس بجٹ سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہیے۔اینکر پرسن ”عاصمہ شیرازی“ نے کہا کہ عوام کو ”میاں محمد نواز شریف“ سے توقعات بہت زیادہ ہیں اس لئے سوچ سمجھ کر پالیسیاں ترتیب دینی ہوںگی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے بجٹ کی جو اچھی بات رہی انہوںنے سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافہ کیا اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ان کی تنخواہوں میں کس حساب سے اضافہ کرے گی۔مسلم لیگ (ن) کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تاجروں کے حق میں زیادہ بہتر ہیں سرکاری ملازموں کے نہیں۔اس کے علاوہ یہ حکومت پراپرٹی،ویلتھ اور جنرل ٹیکس لگاتی ہے یا نہیں اگر تو یہ لگاتے ہیں تو اکانمی کو کافی حد تک سمبھالا دیا جا سکتا ہے۔عالمی برادری پاکستان کے ساتھ چلنے کو تیارنہیں ہے ایسی صورتحال میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا۔ساری دنیا جانتی ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکسز نہ ہونے کے برابر ہیں اگر ہیں بھی تو ان کی ریکوری نہیں ہے۔سرکاری ملازم جیسے دیگر طبقے تو ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ بڑی بڑی مچھلیوں سے کس طرح ٹیکس کی ادائیگی کروائی جائے یہ بھی حکمران جماعت کے لئے چیلنج ہوگا۔مجموعی صورتحال دیکھی جائے تو ملک مسائل کی لپیٹ میں ہے اس لئے ہمیں بھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے دیکھنا چاہیے کہ حکومت کس سمت میں جا رہی ہے اور اس کی ترجیحات کیا ہیں۔اینکر پرسن ”فریحہ ادریس “نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا شروع سے ایک ہی نعرہ رہا ہے کہ معیشت کو اٹھایا جائے آج جب میاں محمد نواز شریف پارلیمنٹ میں حلف لینے آئے تو دوبارہ انہوںنے ایک مضبوط معیشت پر زور دیا بلکہ انہوں نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ ایک آزاد معیشت کے بغیر ایک خود مختار ریاست کا تصور ممکن ہی نہیں ہے۔اس سے ہم امید کرتے ہیں کہ پی ایم ایل این کا فوکس معیشت کی بحالی کی طرف ہو گا۔ملک کے جو حالات ہو چکے ہیں ہونا بھی یہی چاہیے مگر چیلجنز بہت زیادہ ہیں ایک ایمرجنسی نافذ کرنا ہوگی ۔اگر پی ایم ایل این اپنے منشور 2013ءپر عمل کر لے جس میں ٹیکسیشن پر بہت زور دیا گیا ہے معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔