3 جون 1947ءکے منصوبہ کے تحت پاکستان اور بھارت کی سرحدوں کے تعین کے لئے ایک باﺅنڈری کمشن تشکیل دیا جانا تھا۔ قائداعظم کی خواہش تھی کہ برطانوی ہاﺅس آف لارڈز کے لا ممبر کو کمشن کا سربراہ بنایا جائے۔ لیکن وائسرائے ماﺅنٹ بیٹن کی ایما پر برطانوی حکومت نے سیرل ریڈ کلف کو باﺅنڈری کمشن کا سربراہ بنایا۔ وہ برطانوی ہائی کورٹ کے جج تھے اور ایک عام تاثر یہ تھا کہ وہ ایک معزز اور قابل آدمی ہیں، ہر قسم کے تعصبات سے بالا ہیں اور انہیں حکومتِ ہند کے داخلی معاملات اور ہندوستانی جماعتوں سے کوئی سروکار نہیں لیکن قائداعظم کو پہنچاننے میں دیر نہ لگی اور وہی ریڈ کلف اپنے تاثر کو قائم نہ رکھ سکا۔ اس نے ماﺅنٹ بیٹن کے زیر اثر پنجاب کے بعض مسلم اکثریتی علاقے گورداسپور اور فیروز پور اضلاع کے اہم حصے بھارت کو دے کر اسے کشمیر تک رسائی کا موقع مہیا کیا جبکہ بھارتی حکومت براہ راست اس کی دعویدار نہ تھی اور یوں دونوں ممالک کے درمیان ایک مستقل تنازع شروع ہُوا جو آج تک حل نہ ہو سکا۔ پنجاب کے کمشن میں جسٹس دین محمد اور جسٹس محمد منیر جبکہ بھارتی نمائندگی کے لئے جسٹس مہاجن اور جسٹس تیجا سنگھ شامل کئے گئے۔ کمشن کا اہم کام ہندوستان کی تقسیم کے منصوبہ کے تحت ایسے مسلم اور غیر مسلم اکثریتی متصل علاقوں کا تعین کر کے پنجاب کی دونوں طرف کی سرحد کا تعین کرنا تھا۔ ماﺅنٹ بیٹن درپردہ بھارتی مفادات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں نہایت مستعد تھا لہٰذا اس کی زیر ہدایت ریڈ کلف نے کمشن کی کارروائی کو کمشن کے دوسرے دونوں اراکین سے اکثر و بیشتر مخفی رکھا اور ایوارڈ کی اشاعت مقررہ تاریخ کو نہ کی گئی جو کہ 8 اگست 1947ءکو متوقع تھی لیکن اس کا اعلان 17 اگست 1947ءکو بذریعہ ریڈیو کیا گیا۔ اس دوران جو بددیانتیاں کی گئیں ان کا اجمالاً ذکر کیا جاتا ہے کہ تاکہ انگریزوں کی روایتی عیاری اور بدعہدی کا جائزہ لیا جا سکے۔
٭ جسٹس منیر کے بقول کمشن کی تشکیل کی شرائط میں یہ درج تھا کہ کمشن باہم مربوط ہو کر کام کرے گا اور اس کی فائنل رپورٹ متفقہ طور پر گورنر جنرل کو بھیجی جائے گی مگر ریڈ کلف نے رپورٹ اپنے طور پر گورنر جنرل کو بھیجی اور چند روز بعد ہاﺅس آف کامنز کے بل میں ترمیم کر دی گئی اور صدر کی رپورٹ کو کمشن کی رپورٹ تصور کر لیا گیا اور اس طرح کمشن کے دیگر اراکین کو رائے دینے سے محروم کر دیا گیا۔
٭ گورداسپور کا ضلع مسلم اکثریت پر مبنی تھا لہٰذا اس بنیاد پر یہ ضلع پاکستان کو ملنا چاہئے تھا مگر ماﺅنٹ بیٹن نے اپنی 4 جون کی پریس کانفرنس میں اس ضلع کی تقسیم کو ضروری قرار دیا جو کمشن کی ورکنگ پر براہ راست اثر انداز ہونے کا واضح اشارہ تھا۔
٭کمشن کے ذمہ متصل اور متعلقہ مسلم اور غیر مسلم علاقوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا تھا مگر ریڈ کلف نے جائیدادوں اور تجارتی بنیادوں، سرمایہ کاری کے پیش نظر جائزہ لینا شروع کیا جو کمشن کی تشکیل کے اس کے فرائض کے منافی تھا۔ اب صاف ظاہر ہے کہ ہندو تقریباً ایک صدی سے معاشی طور پر مسلمانوں پر برتر تھے لہٰذا وہ کمشن کی کارکردگی سے مطمئن تھے مگر مسلمانوں کے لئے تشویشناک صورتحال تھی۔
٭امرتسر، جالندھر، ہشیار پور، لدھیانہ اور انبالہ کی بعض مسلم اکثریتی تحصیلوں کے بارے میں بحث کے بعد فیروز پور، زیرہ، فاضلکا اور مکھتا سر تحصیلوں کے بارے میں ایک خوشگوار بات یہ تھی کہ دورانِ اجلاس ریڈ کلف نے جسٹس منیر کو بتایا کہ یہ علاقے جن میں فیروز پور ہیڈ ورکس شامل تھا پاکستان کو ملیں گے اور ان کے بارے میں آپ کو مزید کہنے سُننے کی ضرورت نہیں حتیٰ کہ انہوں نے مجھے ان کے علاقوں کے طبعی خدوخال سے بھی آگاہ کیا۔
٭ مسلم لیگ نے امرتسر کا بھی دعویٰ کیا تھا اور جسٹس منیر نے اپنی رپورٹ میں اس کی مدلل تائید بھی کی تھی۔ ریڈ کلف شاید میری بات سے متاثر بھی تھا لیکن مسٹر بومونٹ نے مسلم اور سکھ آبادی پر مشتمل اس ضلع کی پاکستان سے ملحق کرنے کی مخالفت کی۔
ایوارڈ کا اعلان 17 اگست 1947ءکو بذریعہ ریڈیو کیا گیا جس نے سب مسلمانوں کو ورطہ¿ حیرت میں ڈال دیا۔ شکرگڑھ تحصیل کے ایک حصہ کے سوا گورداسپور کا پورا ضلع ہندوستان کو مل گیا بعینہ امرتسر کا پورا ضلع، بیاس اور ستلج پار کے تمام مسلم اکثریتی علاقے جن میں فیروز پور، زیرہ، مکھتا سر اور فاضلکا کی تحصیلیں بھارت کو دے دی گئیں۔ کمشن کے فیصلہ سے مسلمانوں کو بے شمار جانی، مالی حتیٰ کہ عزت و آبرو کے لُٹ جانے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ پنجاب میں لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔ غلط علاقائی تقسیم سے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ بقول جسٹس منیر ”اگر یہ ایوارڈ قانونی تھا تو اس میں قانونی فیصلے کی ہر صفت مفقود تھی اور اگر یہ سیاسی تھا پھر انصاف حق پسندی اور غیر جانبداری کا دعویٰ کیسا؟ یہ کیوں نہ کہہ دیا جائے کہ ہندوستان انگریزوں کی ملکیت تھا اور ان کے وائسرائے نے اسے جسے چاہا دے دیا۔“ جن حالات میں ایوارڈ شائع ہوا اور جس سے ماﺅنٹ بیٹن اور بھارتی درپردہ سازش آشکار ہوتی ہے اس صورتحال میں تمام مسلمانوں کی طرح قائداعظم بھی مضمحل تھے۔ آپ نے فرمایا ”اگرچہ ہمارے پاکستان کو گھائل کر کے اس کی قطع و برید کر دی گئی ہے تاہم ہمارے لئے یہی بہتر ہے کہ جو علاقے ہمیں دئیے گئے ہیں ان میں رہ کر آزادی سے متمتع ہوں بہ نسبت اس کے کہ ایک متحد ہندوستان میں جہاں ہندوﺅں کی حکومت ہو اور ہم غلامی کے جوئے کے نیچے مصائب برداشت کریں“ اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اس وقت انگریزوں کی دماغی کیفیت اور رجحان طبع یہ تھا کہ انہیں متحد ہندوستان کو ہندو اکثریت کے ہاتھ میں دے کر رخصت ہونے کا بہانہ مل جائے۔ مسٹر ایٹلی کی حکومت کی آخری وقت تک یہ خواہش تھی کہ تقسیم نہ ہونے دی جائے۔ اس حقیقت کا اعتراف 3 جنوری 1959ءکو ایک انٹرویو میں مسٹر ایٹلی نے کیا ”ہم ایک ہندوستان کو ترجیح دیتے تھے لیکن یہ ہم سے نہ ہو سکا حالانکہ ہم نے بہت کوشش کی۔“
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38