سپریم کورٹ میں اٹھارہویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی ہے، جسٹس شاکراللہ جان نے ریمارکس دئیے ہیں کہ صدر گریجوایٹ نہیں لیکن وہ ججوں کی تقرری کی منظوری دیتے ہیں۔
اٹھارہویں ترمیم سے متعلق پندرہ آئینی درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کا سترہ رکنی بینچ کررہا ہے جس کے سربراہ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری ہیں۔ جمعرات کے روزاکرم شیخ ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل سمیٹتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمشن کے قیام سے متعلق آئین کے آرٹیکل ایک سو پچھہتر، ایک سو ستتر اورایک سو ترانوے کو کالعدم قرادیا جائے کیونکہ یہ عدلیہ کی آزادی کے منافی ہیں۔ سپریم کورٹ آئین کا محافظ ادارہ ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں ججوں کی تقرری کا آختیارعدلیہ ہی کے پاس ہے۔ وزیر قانون جوڈیشل کمیشن میں کابینہ جبکہ اٹارنی جنرل وفاق کا نمائندہ ہے۔ کمیشن کے قیام سے مشاورت کی شق ختم ہو گئی اور چیف جسٹس کو دیگر ممبران کی طرح صرف ایک ووٹ کا حق حاصل ہے۔ ججوں کی تقرری کا موجودہ طریقہ کار تسلیم کیا گیا تو جمشید دستی جیسے لوگ ججوں کا تقررکریں گے۔ یہ طریقہ کارصرف ایسے ممالک کے لئے ہے جہاں دو جماعتی نظام ہو لیکن ہماری پارلیمنٹ میں اس وقت آزاد ارکان کے علاوہ چودہ سیاسی جماعتیں ہیں۔ اس موقع پرجسٹس شاکراللہ جان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے قیام سے پہلے صدرمملکت گریجوایٹ نہ ہونے کے باوجود ججوں کا تقررکرتے تھے، اس پر اعتراض کیوں نہیں کیا گیا جبکہ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے کہا کہ جوڈیشل کمشن میں ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری کے لئے صوبوں میں موجود اپوزیشن کے نمائندوں کا کوئی واضح کردارنہیں۔