سید روح الامین ۔۔۔
قائداعظم حضور اکرمﷺ کو صرف عظیم ہستی ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک آپ دنیا کی تمام عظیم ہستیوں سے بھی عظیم تھے۔ آپ نے لوگوں کو صرف عبادت و ریاضت کا طریقہ نہیں بتایا بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی رہنمائی کی۔ اب بھی مسلمانوں کی نجات اور کامیابی حضور کی اتباع میں مضمر ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو مکمل طور پر حضور کی تعلیمات کے مطابق بنانے کی کوشش کریں اور پاکستان کے مسلم معاشرے کو اعلیٰ اقدار حیات کے اعتبار سے دنیا کے لئے مثال بنائیں۔ 25 جنوری 1948ءکو بار ایسوسی ایشن کراچی سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی انتہائی سادہ تھی۔ آپ نے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا کامیابی نے آپ کے ہاتھ چومے۔ تجارت سے لے کر حکمرانی تک، ہر شعبہ حیات میں آپ مکمل طور پر کامیاب رہے۔ رسالت مآب پوری دنیا کی عظیم ترین ہستی تھے۔ تیرہ سو سال قبل ہی آپ نے جمہوریت کی بنیاد رکھ دی تھی۔“لیکن یہ وہ جمہوریت نہیں جو یورپی ممالک میں رائج ہے جس میں فرد کو بے قید آ زادی حاصل ہے۔ حضور نے جس جمہوریت کی داغ بیل ڈالی اس میں فرد اور جماعت کے حقوق و فرائض میں اعتدال و توازن رکھا گیا ہے اور فرد اور جماعت دونوں کو قرآن و سنت کی پیروی کا پابند قرار دیا گیا ہے۔ قائداعظم کے نزدیک حضور پر ایمان اور آپ سے غایت درجے کی محبت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہم اس مشن کی تکمیل میں ہمہ تن کوشاں ہوں جس کے لئے حضور دنیا میں تشریف لائے تھے۔ پس پاکستان محض ایک خطہ ارض کا نام نہیں بلکہ اسے اس نظام حیات کا گہوارہ بنانا ہو گا جس کا نمونہ حضور نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ ہماری نظریں نہ تو اشتراکی نظام کی طرف اٹھیں اور نہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرف بلکہ ہم صرف حضور ہی سے رہنمائی حاصل کریں۔ قائداعظم نے دوٹوک لفظوں میں واضح کر دیا کہ پاکستان کا منتہائے مقصود ایسا نظام مملکت ہے جو اسلام کے روشن اصولوں پر مبنی ہو گا اور جس میں غیر مسلموں کے حقوق کا بھی پورا پورا تحفظ ہو گا۔ 25 جنوری 1948ءکراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا : ”میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا جو دیدہ دانستہ اور شرارت سے یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح سے قابل اطلاق ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔“ رسول کریم کو اللہ تعالیٰ نے رحمتہ للعالمین بنا کر بھیجا۔ اس کا مطلب ہے کہ حضور صرف مسلمانوں ہی کے لئے رحمت نہ تھے بلکہ پوری کائنات کے لئے سر چشمہ رحمت و شفقت تھے حتیٰ کہ اسلام اور آپ کے دشمن بھی آپ کے سایہ رحمت سے محروم نہ تھے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے ہر دور میں غیر مسلموں کے ساتھ انتہائی شریفانہ برتا¶ روا رکھا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہ پروپیگنڈا بڑی شدت سے اختیار کر گیا کہ پاکستان میں غیر مسلموں کو ظلم و تشدد کا شکار بنایا جائے گا اس دور میں قائداعظم نے اسلامی تعلیمات کے اس پہلو کو خاص طور پر اجاگر کیا۔ 14 اگست 1947ءکو پاکستان اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ”آج سے تیرہ سو سال پیشتر جب ہمارے پیغمبر نے یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح پائی تو آپ نے اپنے قول و فعل سے انتہائی رواداری کا ثبوت دیا۔ آپ نے ان کے مذہب اور عقائد کے معاملے میں لحاظ اور احترام کا رویہ اپنایا۔ مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ جہاں کہیں حکمران رہے انہوں نے ہمیشہ انسانی مروت اور حسن و سلوک کے ان عظیم اصولوں پر عمل کیا ہے جن کی پیروی اور جن پر عمل کیا جانا چاہیے۔“ قائداعظم کی تقاریر میں بار بار ”تیرہ سو سال پہلے“ کا تکرار یہ ظاہر کرتا ہے کہ ”خاک مدینہ“ ہمیشہ آپ کی آنکھوں کا سرمہ بنی رہی۔ قائداعظم کے دل میں حضور سرور کائنات کے عشق و محبت کا جو بحر بے کنار ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور جس کی بدولت آپ کو یقین محکم، عمل پیہم اور عزم مصمم کی نعمت ارزانی ہوئی تھی اس کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ 28 دسمبر 1947ءکو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے بارگاہ رسالت میں یوں خراج عقیدت پیش کیا : ”آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ آپ کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان بھی کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیتیں آپ کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ میں ایک عاجز، انتہائی خاکسار، بندہ ناچیز اتنی عظیم ہستی بلکہ ہستیوں سے بھی عظیم ہستی کو بھلا کیا اور کس طرح نذرانہ عقیدت پیش کر سکتا ہوں۔ رسول اکرم عظیم مصلح تھے، عظیم رہنما تھا، عظیم سیاستدان تھے، عظیم حکمران تھے۔“
قائداعظم حضور اکرمﷺ کو صرف عظیم ہستی ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک آپ دنیا کی تمام عظیم ہستیوں سے بھی عظیم تھے۔ آپ نے لوگوں کو صرف عبادت و ریاضت کا طریقہ نہیں بتایا بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی رہنمائی کی۔ اب بھی مسلمانوں کی نجات اور کامیابی حضور کی اتباع میں مضمر ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو مکمل طور پر حضور کی تعلیمات کے مطابق بنانے کی کوشش کریں اور پاکستان کے مسلم معاشرے کو اعلیٰ اقدار حیات کے اعتبار سے دنیا کے لئے مثال بنائیں۔ 25 جنوری 1948ءکو بار ایسوسی ایشن کراچی سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی انتہائی سادہ تھی۔ آپ نے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا کامیابی نے آپ کے ہاتھ چومے۔ تجارت سے لے کر حکمرانی تک، ہر شعبہ حیات میں آپ مکمل طور پر کامیاب رہے۔ رسالت مآب پوری دنیا کی عظیم ترین ہستی تھے۔ تیرہ سو سال قبل ہی آپ نے جمہوریت کی بنیاد رکھ دی تھی۔“لیکن یہ وہ جمہوریت نہیں جو یورپی ممالک میں رائج ہے جس میں فرد کو بے قید آ زادی حاصل ہے۔ حضور نے جس جمہوریت کی داغ بیل ڈالی اس میں فرد اور جماعت کے حقوق و فرائض میں اعتدال و توازن رکھا گیا ہے اور فرد اور جماعت دونوں کو قرآن و سنت کی پیروی کا پابند قرار دیا گیا ہے۔ قائداعظم کے نزدیک حضور پر ایمان اور آپ سے غایت درجے کی محبت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہم اس مشن کی تکمیل میں ہمہ تن کوشاں ہوں جس کے لئے حضور دنیا میں تشریف لائے تھے۔ پس پاکستان محض ایک خطہ ارض کا نام نہیں بلکہ اسے اس نظام حیات کا گہوارہ بنانا ہو گا جس کا نمونہ حضور نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ ہماری نظریں نہ تو اشتراکی نظام کی طرف اٹھیں اور نہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرف بلکہ ہم صرف حضور ہی سے رہنمائی حاصل کریں۔ قائداعظم نے دوٹوک لفظوں میں واضح کر دیا کہ پاکستان کا منتہائے مقصود ایسا نظام مملکت ہے جو اسلام کے روشن اصولوں پر مبنی ہو گا اور جس میں غیر مسلموں کے حقوق کا بھی پورا پورا تحفظ ہو گا۔ 25 جنوری 1948ءکراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا : ”میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا جو دیدہ دانستہ اور شرارت سے یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح سے قابل اطلاق ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔“ رسول کریم کو اللہ تعالیٰ نے رحمتہ للعالمین بنا کر بھیجا۔ اس کا مطلب ہے کہ حضور صرف مسلمانوں ہی کے لئے رحمت نہ تھے بلکہ پوری کائنات کے لئے سر چشمہ رحمت و شفقت تھے حتیٰ کہ اسلام اور آپ کے دشمن بھی آپ کے سایہ رحمت سے محروم نہ تھے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے ہر دور میں غیر مسلموں کے ساتھ انتہائی شریفانہ برتا¶ روا رکھا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہ پروپیگنڈا بڑی شدت سے اختیار کر گیا کہ پاکستان میں غیر مسلموں کو ظلم و تشدد کا شکار بنایا جائے گا اس دور میں قائداعظم نے اسلامی تعلیمات کے اس پہلو کو خاص طور پر اجاگر کیا۔ 14 اگست 1947ءکو پاکستان اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ”آج سے تیرہ سو سال پیشتر جب ہمارے پیغمبر نے یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح پائی تو آپ نے اپنے قول و فعل سے انتہائی رواداری کا ثبوت دیا۔ آپ نے ان کے مذہب اور عقائد کے معاملے میں لحاظ اور احترام کا رویہ اپنایا۔ مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ جہاں کہیں حکمران رہے انہوں نے ہمیشہ انسانی مروت اور حسن و سلوک کے ان عظیم اصولوں پر عمل کیا ہے جن کی پیروی اور جن پر عمل کیا جانا چاہیے۔“ قائداعظم کی تقاریر میں بار بار ”تیرہ سو سال پہلے“ کا تکرار یہ ظاہر کرتا ہے کہ ”خاک مدینہ“ ہمیشہ آپ کی آنکھوں کا سرمہ بنی رہی۔ قائداعظم کے دل میں حضور سرور کائنات کے عشق و محبت کا جو بحر بے کنار ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور جس کی بدولت آپ کو یقین محکم، عمل پیہم اور عزم مصمم کی نعمت ارزانی ہوئی تھی اس کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ 28 دسمبر 1947ءکو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے بارگاہ رسالت میں یوں خراج عقیدت پیش کیا : ”آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ آپ کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان بھی کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیتیں آپ کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ میں ایک عاجز، انتہائی خاکسار، بندہ ناچیز اتنی عظیم ہستی بلکہ ہستیوں سے بھی عظیم ہستی کو بھلا کیا اور کس طرح نذرانہ عقیدت پیش کر سکتا ہوں۔ رسول اکرم عظیم مصلح تھے، عظیم رہنما تھا، عظیم سیاستدان تھے، عظیم حکمران تھے۔“