کورونا کے مریضوں سے نہیں ‘کورونا سے لڑیں

آج یہ سوال شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان میںہم کورونا سے لڑ رہے ہیں یا کورونا کے مریضوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں پہلے دیکھ لیتے ہیں کہ پاکستان کی انتطامیہ ،اس کی مشینری اور محکمہ صحت کورونا کے حوالے سے کیا کر رہے ہیں؟ اگر ہم نے کورونا سے لڑائی لڑنی ہے تو معاشرے میں آگاہی مہم چالنے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جن کے نتیجے میں بیماری کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے اور جولوگ اس بیماری سے متاثر ہیں ان کو بیماری کی نوعیت کے مطابق علاج کی سہولتیں فراہم کی جائیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ نہ تو حکومتی سطح پر ہمیں کورونا کے حوالے سے کوئی کلیئر لیٹی یا واضح لائحہ عمل نظر آرہا ہے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ اپنا فرض ادا کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں خوف اور ڈر کا موحول ہے اور ظلم تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس خوف اور ڈر کو مزید بڑھاوا دیا جارہا ہے لوگ جانے انجانے میں سوشل میڈیا پر ایسی ایسی من گھڑت پوسٹیں لگا اور کہانیاں لکھ رہے ہیں جنہیں پڑھ کر پورا ملک سہما ہوا ہے ۔ لوگوں کو انوسٹی گیشن یا ٹیسٹ کروانے کی سہولتیںحاصل نہیں ہیں کیونکہ پرائیویٹ لیبارٹیوں میں ٹیسٹوں کی فیس بہت زیادہ ہے لیکن اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ ان ٹیسٹوں پر لوگوں کا اب اعتماد نہیں رہا کیونکہ اکثر کٹیں غلط نتیجے دے رہی ہیں اور یہ افواہیں بھی پھیلائی گئی ہیں کہ جو ٹیسٹ ہم کرواتے ہیں اس کا رزلٹ پہلے حکومت کو جاتا ہے اس کے بعد یہ رزلٹ ہمیں ملتا ہے اور اگر کسی کا رزلٹ پازیٹو ہے یعنی اس میں کورونا کا وائرس موجود ہے تو حکومت ا سے زبر دستی اٹھا کر لے جاتی ہے اور قرنطینہ میں ڈال دیتی ہے جہاں سے پھر اس مریض کی ڈیڈ باڈی یا لاش ہی واپس آتی ہے اسی طرح پولیس اور انتظامی مشینری کورونا کے مریضوں اور ان کے ورثاء کے ساتھ جس بے رحمی ،بے دردی اور غیر انسانی طریقے سے پیش آرہی ہے اس سے بھی خاص طور پر غریب لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔ لاک ڈائون کے دوران پاکستان کے بہت سارے شہروں میں پولیس نے عام لوگوں پر تشدد کیا ہے اسی طرح حکومت کی طرف سے مقرر کیے گئے اوقات کے بعد اگر کوئی شاپ کھلی ہوئی ہے تو اس شاپ کے مالک کو جس بے دردی سے اٹھایا ،مارا پیٹا اور تھانے میں بند کیا جاتا ہے وہ بھی انتہائی افسوسناک ہے ہسپتالوں میں اب بیڈز دستیاب نہیںہیں آئیسولیشن وارڈ ز بھر چکے ہیں حد تو یہ ہے کہ آکسیجن سلینڈر سمیت کورونا کی بیماری میں ممکنہ طور پر استعمال ہو سکنے والی سب چیزوں کے نرخ ہم پاکستانیوں نے بڑھا دیے ہیںیا پھر انہیں بلیک میں فروخت کر نے کے لیے کہیں چھپا دیا ہے۔پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں میں یہ تاثر عام ہے یا یہ تاثر پھیلا دیا گیا ہے کہ کورونا کے نام پر تندرست لوگوں کو سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں ٹیکے لگالگا کر مارا جا رہا ہے کیونکہ یہ حکومت کا حکم ہے جو عالمی طاقتوں کی خواہش پر ایسا کر رہی ہے اسی طرح جو بھی سیریس مریض کسی ہسپتال کے شعبہ حادثات میں جاتا ہے اسے نہ تو صحیح طور پر دیکھا جاتا ہے نہ ضروری ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں بلکہ اسے آئسو لیشن وارڈ میں مر نے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ڈیڈ باڈی یا مردے کو پولیس کی نگرانی میں ہسپتال سے بکس میں بند کر کے واپس قبرستان لایا جاتا ہے تو ورثاء کو ایک فاصلے پر رکھ کر پولیس اور انتظامیہ خوف کے ایک مصنوعی ماحول میں اسے دفنادیتے ہیں یہبھی کہہ رہے ہیں کہ فلاں جگہ پر دفنانے کے بعد ورثاء نے قبر کھود کراپنے پیارے کو دیکھنے کی کوشش کی تو بکس کے اندر مردہ نہیںبلکہ اینٹیںموجود تھیں کیونکہ لوگوں کے بقول کورونا کے مردے بیچے جا رہے ہیں کس قدر ظلم ،زیادتی اور بے وقوفی کی بات ہے کہ اب پڑھے لکھے لوگ بھی ان باتوں پر یقین کر نے لگ گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب کسی بھی بیماری میں مبتلا کوئی شخص سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتال جانے کی بجائے میڈیکل اسٹور سے دوائیاں خرید کر اپنے مریضوں کو دے رہا ہے۔
ایک ڈاکٹر جسے پچیس تیس سال کی عمر تک صرف یہ تربیت دی جاتی ہے کہ آپ نے انسان کی زندگی کس طرح بچانی ہے بڑھتی ہوئی بیماری کو کس طرح روکنا ہے مریضوں کی تکلیف کس طرح کم کر نی ہے کیونکہ لوگ تمہیں مسیحا سمجھتے ہیں اور تم نے مسیحاکا وقار اور بھرم قائم رکھنا ہے تو پھر آپ ہی بتائیے کہ ایک ڈاکٹر کس طرح ایک تندرست انسان کو ٹیکے لگا کر مار سکتا ہے یا حکومت کس طرح مردے بیچ سکتی ہے یا یہ کہنا کہ ہر سر کاری ہسپتال میں دس سے بارہ تک بکس بھیجے گئے ہیں تا کہ لوگوں کو مار کر ان بکسوں میں بند کر کے حکومت کو بھیجا جا ئے جو بعض عالمی طاقتوں کو بیچ کر ان مردوں کے پیسے وصول کرتی ہے یہ سب کیسے ممکن ہے یہ سب بے ہودہ ،بے بنیاد اور فضول باتیں ہیں جن کے باعث لوگوں کی پریشانیاں کورونا کے مقابلے میں زیادہ بڑھ گئی ہیں ۔ان حالات میں ریاست پاکستان اور حکومت پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم کے سامنے کورونا کے متعلق اٹھنے والے تمام سوالات اور افواہوں کے جوابات کھول کھول کر رکھے تا کہ ایک طرف کورونا کی بڑھتی ہوئی وبا کو کنٹرول کیا جاسکے اور دوسری طرف خوف ،ڈر اور افواہوں کے چنگل میں پھنس جانے والے ہمارے باقی ماندہ صحت مند معاشرے کو آزاد کرایا جاسکے اس سلسلے میں پولیس ،انتظامی مشینری اور دیگر اداروں کو بطور خاص پابند کیا جائے کہ وہ کورونا کی بیخ کنی کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور اس بیماری سے متاثر ہونے والے پاکستانیوں اور ان کے ورثاء کے لیے ایک شفیق اور مہربان سہولت کار کا کردار ادا کریں میں تو یہ بھی سمجھتا ہوں کہ حکومت اور اپوزیشن کے سبھی لیڈرز کو اپنی اپنی جگہ پر قوم کو کورونا کے حوالے سے اعتماد میں لیتے ہوئے انہیں یہ بتانا چاہیے کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں اور حفاظتی تدابیر کے ساتھ ساتھ ضرورت پڑ نے پر ہسپتالوں میں موجود سہولتوں سے بھی فائدہ اٹھائیں تا کہ کورونا کے خوف کے باعث علاج نہ کروانے پر کہیں اپنے پیاروں کونہ کھو بیٹھیں ۔