’’ریاست طاقتور ؟‘‘
ذمہ دارباپ اولاد کی اصلاح خاموشی سے کرتا ہے ۔ سرعام تنقید اولاد کو نہ صرف خود سر بناتی ہے بلکہ بالآخرنقصان گھر کا ہوتا ہے۔ یہ آج کی کہانی تھوڑی ہے ۔ برسوں سے سب کے علم میں ہے ہر ادارے میں مافیا کی موجودگی ۔ یقین نہیں آیا "مافیا "کے آگے سرنگوں ہونے کا منظر دیکھ کر۔ کہیں ہمارا حال" میکسیکو" سے بدتر نہ ہو جائے ۔ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں۔ لکھیں تو ہر شخص کُھلی کتاب کی مانند ہے۔ پٹرول نایابی کا غم کرتی قوم اب مہنگا ہونے کے صدمہ میں ہے۔ جب سستا ہواتو مہینہ بھر کوئی چیز سستی نہیں ہوئی۔ ایک دوکاندار کی نشاندہی کر دیں جس نے سبزی ۔ فروٹ ۔ اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کی ہو؟ اب قیمت بڑھی تو اُسی رات مہنگائی آسمان پر چڑھ گئی۔ کیا ہم سب قصور وار نہیںکیا صرف ریاست ذمہ دارہے ؟
پاکستان کے ماتھے پر ایک عظیم فتح کا تمغہ سجانے والا شخص ۔ بے حد دشوار مراحل سے گزر کر سماج کی فلاح کا شاندار ادارہ بنانے کے بعد سیاست میں آگیا ۔22" سال "مسلسل جدوجہد کے بعد عنانِ حکومت سنبھالی ۔ حکومت محض سیاست کی وادی میں اُترنے سے نہیں ملی بلکہ دیمک کی طرح چاٹ جانے والی کرپشن کو ختم کرنے کے وعدے پر ملی۔ یہ محض ایک وعدہ نہیں بلکہ22سالہ سیاست سے بڑھ کر دشوار ترین گھاٹی ہے اور ثابت بھی ہو رہی ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں کے روز و شب کتنی گھٹنائیاں ۔ کدورتیں ۔ مشکلات تکالیف دیکھتے ہیں ۔ عام حوصلہ رکھنے والا شمار نہیں کر سکتا۔ بڑے محلات کے درودیوار لمحہ بھر میں بدلتے چہروں اور اپنوں کو دشمنوں میں تبدیل ہونے کے سچے گواہ ہیں ۔بحران در بحران شاید لمحہ موجود کی دنیا کا مقدر ٹھہر گئے ہیں تو پاکستان تو پہلے ہی ماہرین شوروشغب مافیا کارٹلز کا گڑھ ہے۔
کوئی بھی شخص جو انتہائی کلیدی پوزیشن پر ہو۔ تدارک ۔ بیخ کنی کی طاقت رکھتا ہو۔ وہ صرف بے بسی کا اعلان کر کے خود کو بری الذمہ نہیں قرار دے سکتا۔ رپورٹ چھپانے کا مشورہ درست نہیں تھا تو نقصان سے بچنے کے لیے خاموشی سے" پائلٹس" کو فارغ کر دیتے۔ بزور قوت پٹرول کو مارکیٹ میں لے آتے ۔ ریاست طاقتور ہے یا مافیا ؟چینی ۔ آٹا ۔ پٹرول اب جعلی ڈگری ۔ کہانیاں تو کچھ اور ہی بولتی ہیں ۔ اخبار میں پولیس بھرتی کا اشتہار دیکھا اِس کے باوجود کہ ہمیشہ سے چلا آرہا چلن اب بھی رواں ہے مگر یہاں تو خطاب ۔ اعزاز "تبدیلی" کا ہے۔ اہلیت برائے سول امیدوار صرف ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے قبائلی علاقہ جات ۔ یہ برائی نہیں ہے تو کیا انصاف کا تقاضا پورا ہوتا ہے جبکہ بھرتی پورے پنجاب کے لیے ہو رہی ہے۔ ترقی ہر علاقے کا حق ہے ہمیں خوشی ہے یہ علاقے ہمارے ملک کا حصہ ہیں ۔ ایسا کر دیں تو بہت ہی اچھا ہوگا کہ ہر ممبر اسمبلی کو ایک ایک ماہ کے لیے وزیر اعلیٰ لگا دیں۔ ناراضگیاں بھی دُور ہو جائیں گئی اور سب اضلاع ترقی بھی کر جائیں گے۔
’’کرونا‘‘ کی سنگینی کم نہیں ہوئی کہ زمینی آفت سر پکڑنے لگی ۔ عیار دشمن کی پُرانی دشمنی ۔ دہشت گردی کی بڑھتی وارداتیں ۔ کراچی میں تازہ حملہ ۔ بروقت کاروائی نے بڑے نقصان سے بچا لیا۔ دہشت گرد مارے گئے ۔ سرپرستوں کی لسٹ سبھی جانتے ہیں ۔ ہماری پولیس کارکردگی میں کم نہیں بس سمت درست کرنے کی ضرورت ہے کافی سال پہلے لکھا تھا پھر دہرا دیتے ہیں کہ پولیس تربیت فوجی انداز میں ہونی چاہیے اب تو بے حد ضروری ہوچکا ہے۔ اداروں کی پھرتی ۔ مستعدی سے کئی مرتبہ جانی نقصان کم رہا ۔ احتیاطی تدبیر کے تحت قبل از وقت سکیورٹی الرٹس خطوط جاری ہونا معمول کا حصہ ہیں ۔ کیا شک ہے اِس بات میں کہ حملہ ہمیشہ "دشمن" ہی کرتا ہے۔ 8" منٹ" کی کاروائی تھی یا چند گھنٹوں کی ۔ یہ اہمیت نہیں رکھتا بہرحال چوکسی کو ضرور اجاگر کرتا ہے جو کہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ کہیں نہ کہیںسقم رہ جاتا ہے ۔ اِس پہلو پر ضرور توجہ دیں۔ "مخبر "کے بغیر واردات ممکن نہیں ۔ جس طرح اندرونی معاونت کے بغیر کِسی گھر ۔ ادارے میں چوری ممکن نہیں ۔ نمبر پلیٹ جعلی ۔ گاڑی لیز پر اتنی عمریں ۔ تعلق فلاں علاقے سے۔ ایسی معلومات ہر گھناؤنی سازش کے وقوع پذیر ہونے کے بعد مل جاتی ہیں جو کہ مزید تفتیش ۔ مزید براں چُھپے ہوئے دہشت گردوں کو پکڑنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں ۔ یہ لوگ خونی مافیا ہیں ۔ ہمارا جوابی حملہ بہت ضروری ہے۔ حملہ بھی ایسا کہ معاونت کرنے والے ۔ پُشت پناہ قوتیں ۔ گروہ ملیامیٹ ہو جائیں ۔ نوٹس اور مذمت کی تاریخ ربع دہائی سے زائد عرصہ پر محیط ہے اب مرمت اور جوابی عمل وقت کا تقاضا ہے۔
’’وزیر اعظم صاحب‘‘۔ ریاستی طاقت۔ قانون کے آگے سب زیرو ہیں اگر آج انسداد کا سوچ لیں ۔ وہ تمام عناصر ۔ گروہ چاہے تعلق سیاست سے ہے یا تجارت سے ۔ اُن کی سرگرمیوں کی میڈیا پر کوریج بند کردیں جن کی وطن دشمنی ثابت ہوچکی ہے۔اِن کے تمام اثاثے ضبط کریں اور اِن کوپکڑ کر جیلوں میں ڈالنے کا مطلب ہے ریاست پر معاشی بوجھ ۔"وزیر اعظم صاحب" آپ پاکستان کو ریاست مدینہ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو ریاست مدینہ والی سزائیں نافذ کردیں ۔ ذخیرہ اندوزی ۔ ملاوٹ ۔ چوری۔ کرپشن سمیت جو بھی جرائم ہیں اُن کی جو سزا ئیں تھیں وہ جب یہاں نافذ ہونگی مجرموں کو سزا ملے گی تو پھر پاکستان میں امن ۔ سکون ہوگا۔نظام عدل منصفانہ ہوگا عام آدمی اور اشرافیہ کے مابین تفریق نہیں ہوگی سب کو یکساں انصاف ملے گا ۔ یکساں معاشی مواقع ملیں گے۔ریاست سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے گی تو پھر کوئی جرم بھی نہیں کرے گا۔جب مجرم بننے کے راستے بند ہو جائیں گئے تو ہر طرف سکھ ہوگا۔وہ امن ۔اطمینان جو ریاست مدینہ کی خصوصیت تھی یہاں بھی وہی ماحول بن جائیگا۔