جب بھارت میں ایمرجنسی لگی !
بلرام جی ٹنڈن ‘‘ جو پرائم منسٹر ہائوس دہلی میں پروٹوکول افسر کے عہدے پر تعینات تھے اور وہیں سے سیدھے جیل بھجوا دیئے گئے تھے ۔ انھوں نے ان دنوں کی اندرونی کہانی کا تذکرہ کچھ یوں کیا ۔
’’ 12 جون 1975 کی صبح وزیر اعظم کے سینئر پرائیویٹ سیکرٹری کرشنا آئر سلیشن ، پرائم منسٹر ہائوس میں موجود تھے اور نروس انداز میں بار بار ٹیلی پرنٹرز کے گرد گھوم کر پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی ) اور یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا ( تب یہ دونوں ہی بھارت کی بڑی خبر رساں ایجنسیاں تھیں ) کی بھیجی ہوئی خبروں کی چھان پھٹک میں مصروف تھے ۔ باقی سبھی عملہ حیران تھا کہ ماجرا کیا ہے کیونکہ عام طور پر اتنے سینئر حکام کبھی ایسے رویے کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ مسٹر ’’سلیشن ‘‘ بار بار کمرے میں آتے اور موصول شدہ پیغامات کو الٹ پلٹ کر دیکھتے مگر انھیں جس شے کا انتظار تھا ‘ وہ غالباً ابھی تک نہیں پہنچی تھی ۔ دس بجنے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی اور ’’ الہٰ باد ‘‘ میں موجود انٹیلی جنس اداروں کا براہ راست رابطہ وزیر اعظم ہائوس سے تھا ۔ چند لمحے قبل وہاں سے پیغام وصول ہوا تھا کہ متعلقہ جج ابھی اپنے گھر سے عدالت کے لئے روانہ نہیں ہوئے ۔’’ سلیشن ‘‘ برآمدے میں ٹہلتا ہوا جسٹس ’’ جگ موہن لعل سنہا ‘‘ کے بارے ہی میں سوچ رہا تھا ۔ اسے حیرانی تھی کہ یہ شخص کس مٹی کا بنا ہوا ہے ۔ جس پر کوئی لالچ یا دھمکی اثر انداز نہیں ہوئی تھی ۔
حالانکہ آج تک یہی سنا گیا تھا کہ ہر شخص کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے جسے ادا کر کے خریدا جا سکتا ہے مگر اسی مفروضے کو سامنے رکھتے ہوئے گذشتہ چند ہفتوں میں جسٹس سنہا سے اعلیٰ سطح پر کئی رابطے کیے گئے تھے ۔ یو پی سے تعلق رکھنے والے ایک کانگرسی رکن لوک سبھا نے خود جا کر سنہا کو دس لاکھ کی آفر بھی دی تھی مگر وہ شخص ٹس سے مس نہ ہوا ۔ اس کے بعد متعلقہ جج کے ساتھی الہٰ باد ہائی کورٹ کے ایک سینئر جج سے کہلوایا گیا کہ اگر وہ فیصلے میں اپنا ہاتھ ’’ ہولا ‘‘ رکھے تو اسے یقینی طور پر سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیا جائے گا اور چند ماہ بعد چیف جسٹس آف انڈیا بنا دیا جائے گا مگر ’’ سنہا ‘‘ نجانے کس قماش کا شخص تھا ۔ یہاں تک بھی کوشش کی گئی کہ ’’جسٹس‘‘ فیصلے کے اعلان میں تاخیر پر ہی رضا مند ہو جائے ۔ اس سلسلے میں بھارتی وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکرٹری ’’ پریم پرکاش نائر ‘‘ یوپی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے خصوصی طور پر ’’ ڈیرہ دون ‘‘ جا کر ملے اور درخواست کی کہ وہ فیصلے کے اعلان میں تاخیر کیلئے اپنا اثر رسوخ استعمال کریں کیونکہ وزیر اعظم اندرا گاندھی ایک اہم غیر ملکی دورے پر روانہ ہونے والی ہیں اور اس موقع پر کسی بھی متنازعہ فیصلے کے اعلان سے بیرون دنیا میں وزیر اعظم بھارت کا امیج متاثر ہو سکتا ہے ۔
چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کی یہ درخواست جسٹس ’’ سنہا ‘‘ تک پہنچا دی ۔ مگر اس کا الٹا اثر ہوا ۔ سنہا نے اسی وقت ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو فون پر مطلع کیا کہ فیصلے کی تاریخ کے لئے 12 جون کا اعلان کر دیا جائے کیونکہ اس سے پہلے بھی ایک بار حکومت ہند کی درخواست پر فیصلے میں تاخیر کی جا چکی ہے ۔ تب حکومت نے کہا تھا کہ 8 جون 1975 کو صوبہ گجرات کی اسمبلی کے چنائو ہونے والے ہیں اور یہ فیصلہ انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے لہذا فیصلے کے اعلان کی تاریخ آگے بڑھا دی گئی تھی مگر اب روز روز کے حکومتی بہانوں پر توجہ نہیں دی جا سکتی ۔ اس واقعہ نے وفاقی حکومت کو متوقع فیصلے کے بارے میں کئی قسم کے خدشات میں مبتلا کر دیا ۔ انٹیلی جنس بیورو ‘ سی بی آئی اور را کے اہلکاروں نے فوری طور پر ’’الہٰ آباد ‘‘ میں ڈیرے ڈال لئے ۔ جسٹس ’سنہا‘‘ کی رہائش گاہ کے درو دیوار خفیہ اداروں نے چھان مارے ‘ ہر کمرے میں آواز سننے والے حساس آلات نصب کر دیئے تا کہ جج کے عزائم سے آگاہی حاصل ہو جائے ۔ اس سلسلے میں جسٹس کے سٹینو گرافر ’’ نیکی رام ‘‘ کو بھی ہر طرح ٹٹولا گیا مگر وہ بھی اپنے باس کا کچھ زیادہ ہی وفادار نکلا لہذا کسی دھمکی یا لالچ کے زیر اثر نہ آیا ۔ اس کی کوئی اولاد بھی نہ تھی اور شاید یہی بات اس کی اس قدر مضبوطی کا باعث ثابت ہوئی ۔ بہرحال آنے والے فیصلے کے مندرجات سے جج اور اس کے سٹینو گرافر کے علاوہ کسی کو بھی پیشگی آگاہی حاصل نہ ہو پائی ۔258 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس نے انتہائی راز داری سے ٹائپ کرایا اور کے بعد اپنے سٹینو گرافر ’’نیکی رام ‘‘ کو حکم دیا کہ بہتر ہے کہ تم دو روز کے لئے کہیں روپوش ہو جائو ورنہ شاید خفیہ اداروں کا دبائو برداشت نہ کر پائو ۔ یہ سن کر ’’ نیکی رام ‘‘ اپنی بیوی کو لے کر چپکے سے اپنے دور کے عزیزوں کے ہاں منتقل ہو گیا ۔ (جاری)