جمعۃ المبارک11؍ذیقعد 1441 ھ‘ 3؍جولائی 2020ء
سندھ حکومت نے وفاق کیلئے ٹیکس جمع نہ کرنے کا حکمنامہ جاری کر دیا
تو جناب اب ود ہولڈنگ ٹیکس جمع کرنے کا کام سندھ میں خود وفاقی حکومت کو کرنا پڑے گا۔ یوں اس کی ذمہ داریوں میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ ویسے تو گزشتہ 3 سال سے سندھ حکومت اور وفاقی حکومت میں ٹھنی ہوئی ہے۔ دونوں حسب المقدور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ مگر شکر ہے ابھی تک یہ جنگ ہم دشمنی نبھائیں گے مگر پیار کے ساتھ کے اصول پر جاری ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے سخت سیاسی و نظریاتی اختلاف ہے۔ وفاقی حکومت کا بس نہیں چل رہا کہ وہ جلداز جلد کسی طرح سندھ حکومت کو ہری جھنڈا دکھا کر رخصت کرے۔ نہ سندھ حکومت کے اختیار میں ہے کہ وہ وفاقی حکومت کو ہری جھنڈی دکھا کر چلتا کرے۔ اس لئے دونوں ایک دوسرے پر ہلکے پھلکے حملے کر کے دل ٹھنڈا کرتے ہیں مگر اس کی سزا عوام کو مل رہی ہے۔ سندھ میں وفاقی حکومت کے زیر اہتمام ہونے والے ترقیاتی کام سست روی کا شکار ہیں۔ لوگوں کو شکوہ ہے کہ وفاقی و سندھ حکومت کی اس چپقلش میں وہ رگڑے جا رہے ہیں۔ ترقیاتی کام ٹھپ ہیں۔ سندھ میںپیپلز پارٹی کی حکومت کو دس برس سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ مگر وہاں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ 3 سال سے پی ٹی آئی والے وہاں کی حالت بدلنے کے نام پر وہاں کی حکومت بدلنے کی کوشش میں ہیں۔ اب وہ ودہولڈنگ ٹیکس وصول نہ کرنے کے فیصلے سے ایک مرتبہ پھر دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔پہلے ہی بجٹ کی منظوری کے بعد اپوزیشن والے طوفان اُٹھانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ مگر وہاں بھان متی کے کنبے والی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان تلوں میں تیل باقی نہیں۔
٭٭٭٭٭٭
بھارت میں بنے وینٹی لیٹر فیل ہو گئے
اس کے باوجود اگر بھارت یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ چین کا مقابلہ کرے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔ جس دیش کے بنائے وینٹی لیٹر جو جان بچانے کے لئے ہوتے ہیں ناکام ہو جائیں اس دیش کی فوج بھلا اپنی سرحدوں کی حفاظت میں کامیاب کیسے ہو سکتی ہے۔ بھارت کے ایک آرمی چیف نے ہمیشہ بڑھک ماری ہے کہ وہ بیک وقت بیجنگ اور اسلام آبادکو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ مگر اصل صورتحال یہ ہے کہ وہ لداخ میں چین کے ہاتھوں چھینے گئے اپنے علاقے کو واپس لینے کی سکت نہیں رکھتے۔ ابھی تک بھارتی فوج لداخ میں لگے زخموں کو چاٹ رہی ہے۔ مودی تک کی بولتی بند ہے۔ فوجی خاموش ہیں۔ صرف اور صرف بھارتی میڈیا غلط ملط اور جھوٹی کہانیاں گھڑ کر قوم کا مورال بلند کرنے میںمصروف ہے۔ رائی کو پہاڑ بنا کر دکھا رہا ہے۔ ہاری ہوئی بازی کو جیتی بتا رہا ہے۔ کیا معلوم جلد ہی بھارتی فلم انڈسٹری کے کرتا دھرتا بھی اس مہم میں شامل ہو جائیں اور جلدہی بھارتی سنیما گھروں میں لداخ کی جیت کے نام سے ایسی فلمیں دکھائی جانے لگیں جن میں اکشے کمار، اجے دیوگن، سلمان خان ، شاہ رخ خان، کترینہ کپور، پریانیکا چوپڑا اور دیپکا پڈکون اپنے ساتھی فوجیوں کی کمان کرتے ہوئے لداخ سے اپنا علاقہ ہی نہیں چین سے اس کا تبت بھی چھین کر فتح کے ترانے ناچتے گاتے ہوئے نظر آئیں کیونکہ بھارتی فلموں میں ہر فاتح اور کامیاب ہیرو ہیروین کے ساتھ ہی نہیں بہت سارے لوگوں کے ساتھ کبھی کھلبلی اور کبھی اٹک مٹک اور نجانے کون کون سے خرافات پر وحشیانہ رقص کرتے پھرتے ہیں۔ ایسے دیش کو سوچنا چاہئے جس کے بنے وینٹی لیٹر نہیں چلے اس کے بنے ٹینک ، ہوائی جہاز، میزائل اور گنیں بھلا کیا چلیں گی۔ یہی بات فوجیوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ اگر بُرا نہ لگے تو۔
٭٭٭٭٭٭
آزاد کشمیر میں بچوں سے زیادتی کرنے والوں کو سزائے موت کا قانون منظور
صرف آزادکشمیر ہی کیوں پورے پاکستان میں ایسا قانون منظور ہونا چاہئے جس کے تحت بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے وحشی درندوں کو سرعام سزائے موت دی جائے۔ ایسے درندے کسی رعایت کے مستحق نہیں انہیں بارونق چوک پر لٹکانا چاہئے تاکہ ان جیسے باقی درندوں کو بھی عبرت ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کچھ لبرل طبقے ویسے ہی مغرب کے خیالات سے متاثر ہو کر ایسی سزائوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ عجیب مصیبت ہے۔ اگر کوئی ایسا سانحہ ہو جائے کسی بچے یا بچی کے ساتھ زیادتی ہو یا انہیں بعد میں قتل کر دیا جائے تو یہی لبرل طبقے شمعیں روشن کر کے ان بچوں کی یاد میں احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔ حکومت پر زور ڈالتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو گرفتار کر کے سزا دی جائے۔ جب بات سزا کی ہو تو معلوم نہیں اس کا مطلب یہ لوگ کیا لیتے ہیں۔ 10 سال قید یا عمر قید ایسے وحشیانہ فعل کی سزا نہیں۔ زیادتی اور قتل کرنے کی سزا صرف اور صرف موت ہے۔ رہی بات مغربی ممالک کی تو ان کے شور کرنے سے کیا ہو گا۔ اگر ان کے شور میں اثر ہوتا تو آج کشمیر بھارت اور میانمار میںمسلمان خواتین اور بچوں کے ساتھ ایسے شرمناک واقعات رونما نہ ہوتے۔ سزا کا خوف ہی ایسے جرائم کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ آخر کب تک ہم اپنے بچوں کے اس وحشیانہ قتل اور بے حرمتی پر خاموش رہیں گے۔
٭٭٭٭٭٭
ملکی ائیر پورٹس پر مسافروں کے پروٹوکول پرپابندی لگ گئی
شکر ہے خدا کا کہ یہ بات بھی سول ایوی ایشن والوں کے دماغ میں آ گئی۔ ورنہ ہمارے ائیر پورٹس پر جانے والا ایک ہوتاہے اور دس افراد اسے چھوڑنے کے لئے آتے ہیں۔ یوں ائیر پورٹس پر کسی بس اڈے یا ریلوے سٹیشن کا گماں ہوتا ہے۔ نجانے یہ روایت کیوں ہمارے ملک میں ہے کہ مسافر کو یوں رخصت کیا جاتا ہے جیسے کسی دلہن کی ڈولی رخصت کی جاتی ہے۔ خوب تماشہ لگا رہتا ہے۔ بس اڈے ، ریلوے سٹیشن اور ہوائی اڈوں پر۔ رہی بات سیکورٹی کی تو بس اڈے اور ریلوے سٹیشن کی بات چھوڑیں وہاں کا تو خدا حافظ ہے ہی۔ ائیر پورٹس پر بھی جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے پروٹوکول کے نام پر گاڑیوں اور افرادکی چیکنگ تک نہیں ہوتی۔ سفارشی افراد لائونج تک دندناتے پھرتے ہیں۔ بات صرف یہاں تک رہتی تو بات اور تھی۔ یہی پروٹوکول سمگلنگ کی وجہ بھی ہے جس کی آئے روز کہیں نہ کہیں سے کوئی سنسنی خیز کہانی سننے کو ملتی ہے۔ کئی بار تو منشیات اسلحہ اور الیکٹرانک مصنوعات کی غیر ملکی کرنسی کی بھاری کھیپ بھی برآمد ہوتی ہے۔ مگر ان سب باتوں سے ابتر صورتحال یہ ہے کہ کئی مرتبہ لاہور جیسے ائیر پورٹ پر تمام سکیورٹی کے باوجود قتل کی وارداتیں ہو چکی ہیں۔
وی آئی پی پروٹوکول کے نام پر جو افراتفری مچی رہتی تھی اس سے بھی جان چھوٹ جائے گی اور مسافروں کو ہر قسم کی سہولت باآسانی دستیاب ہو گی۔
٭٭٭٭٭