معزز قارئین! ’’ڈی ۔جی ۔آئی ۔ ایس ۔ پی۔ آر‘‘ میجر جنرل بابر افتخار کے ٹویٹ کے مطابق۔ ’’ پاکستان آرمی میڈیکل کور‘‘کی میجر جنرل نگار جوہر صاحبہ کو ترقی دے کر ، (سرجن جنرل ) لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر تعینات کردِیا گیا ہے ۔ اِس عہدے پر کسی خاتون کی پہلی تقرری ہے۔ اُن سے پہلے میجر جنرل کے عہدے پر پہنچنے والی دو خواتین میجر جنرلز محترمہ شاہدہ بادشاہ اور محترمہ شاہدہ ملک کا تعلق بھی ’’ آرمی میڈیکل کور ‘‘ سے ہے۔
"Surgeon" (سند یافتہ معالجِ عملِ جراہی "Doctor" ) کو کہتے ہیں اور "General" ( عسکری مہارت رکھنے والے فوج کے سالار اور کمان دار کو) ۔کسی عالم ، قانون دان یا قومی خدمات انجام دینے والی کسی شخصیت کو بھی "Doctreat"کی اعزازی ڈگری سے نوازا جائے تو، وہ بھی ڈاکٹر ؔہی کہلاتے ہیں ۔ ’’ مصّورِ پاکستان‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے 1908 ء میں جرمنی کی ایک یونیورسٹی سے فلسفہ کی ڈگری حاصل کی تو، وہ ڈاکٹر ؔمحمد اقبالؒ کہلائے۔
’’دُخترانِ ملّت!‘‘
’’دُخترانِ ملّت ‘‘ کے عنوان سے اپنے فارسی کلام میں علاّمہ اقبالؒ نے ہر مسلمان خاتون سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ …
’’نگاہِ تُست ، شمشیرِ خداداد!
برخمشِ جانِ ، مارا ، حق بما داد!
…O…
دِل کامل عیار، آں پاک جاں برُ!
کہ تیغِ خویش را ، آب از ، حیاد اد!‘‘
…O…
یعنی۔(1) ’’ تیری نگاہ شمشیر خداداد ہے ، اسی کے زخم سے حق تعالیٰ نے ہمیں ہماری جان عطا کی ہے ۔ (2) صرف وہی عفت مآب(خاتون ) قلبِ کامل شکار کرتی ہے ، جو اپنی تیغ ( نگاہ) کو حیا سے آبدار بناتی ہے ‘‘۔
معزز قارئین! ولایت جانے سے قبل علاّمہ اقبالؒ نے دہلی میں ’’ نظامِ اولیائ‘‘ ، حضرت شیخ نظا م اُلدّین محبوب الٰہی کے مزار پر ’’ التجائے مسافر‘‘ کے عنوان سے نظم پڑھی تھی، جس کے دو شعر پیش خدمت ہیں …
’’ چلی ہے لے کے ، وطن کے نگار خانے سے!
شرابِ علم کی لذّت ، کشاں کشاں مجھ کو!
…O…
نظر ہے ابرِ کرم پر ، درخت ِصحراہُوں!
کیا خُدا نے ، نہ محتاجِ باغباں مجھ کو!‘‘
…O…
یعنی۔ ’’ یا محبوبِ الٰہی ! ۔ مَیں وطن کے باغ کو پھول کی خُوشبو کی طرح چھوڑ کر نکلا ہُوں ۔ مَیں اپنے صبر کا امتحان کرنا چاہتا ہُوں ۔ علم کی شراب کی لذّت مجھے کھینچتی ہوئی وطن کے نگار خانے سے باہر لے چلی ہے ۔ میری نظر رحمت کے بادل پر ہے۔ مَیں بیابان کا درخت ہُوں اور خُدا نے مجھے باغبان کا محتاج نہیں کِیا‘‘۔
لفظ ’’ جوہر ‘‘ کے بھی کئی معنی ہیں لیکن، عام طور پر قیمتی پتھر اور ’’روح ‘‘ کو جوہر کہتے ہیں ۔ علاّمہ اقبالؒ نے ہر مسلمان مرد اور عورت سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ
’’چشم ِ باطل پہ ، عیاں ،جوہرِ ؔایماں کردے!‘‘
…O…
’’فاطمہؒ بنت ِ عبداللہ !‘‘
معزز قارئین! مَیں خاتونِ پاکستان ’’سرجن جنرل ، لیفٹیننٹ جنرل محترمہ ڈاکٹر نگار جوہر کو ،1911ء میں اٹلی کے طرابلس پر حملے کی یاد دِلا رہا ہُوں جب، ایک عرب لڑکی فاطمہ ؒبنت ِ عبداللہ ، غازیوں اور شہیدوں کو پانی پلاتی ہُوئی خُود بھی شہید ہوگئی تھی ۔ اُسے خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے علاّمہ اقبالؒ نے کہا کہ …
’’فاطمہ تُو آبروئے اُمتِ مرحوم ہے!
ذرّہ ذرّہ تیری مُشتِ خاک کا معصوم ہے!
یہ کلی بھی اِس گلستانِ خزاں منظر میں تھی!
ایسی چنگاری بھی یا رب !اپنی خاکستر میں تھی!‘‘
…O…
’’ محترمہ فاطمہ جناحؒ!‘‘
معزز قارئین! قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ ’’ خاتونِ پاکستان‘‘ کہلاتی تھیں اور 2 جنوری 1965ء کو صدارتی انتخاب میں جب، محترمہ فاطمہ جناحؒ ، فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی امیدوار بن گئیں تو، جنابِ مجید نظامی نے اُنہیں ’’مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا ۔ مَیں سرگودھا میں ’’ نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار تھا ۔ میری خُوش قسمتی تھی / ہے کہ ’’ ضلع سرگودھا میں ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کی انتخابی مہم کے انچارج ، تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن ، قاضی مُرید احمد کے ہمراہ مَیں نے اور سرگودھا کے میرے مرحوم صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقت ؔ امرتسری نے ستمبر 1964ء میں لاہور میں مادرِ ملّت ؒ سے ملاقات کی ۔ اُسی وقت لاہور اور پاکپتن شریف میں تحریک پاکستان کے دو کارکنان ، مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری (چیئرمین پیمرا ، پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ کے والد صاحب ) اور اردو ، پنجابی کے نامور شاعر ’’ نوائے وقت ‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن برادرِ عزیز سعید آسیؔ کے والد صاحب میاں محمد اکرم نے بھی مادرِ ملّتؒ سے ملاقات کی تھی۔
سرجن جنرل لیفٹیننٹ نگار جوہر صاحبہ کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ’’ پنچ پیر ‘‘ کی تحصیل صوابی سے ہے لیکن، وہ محض صوبہ خیبر پختونخوا ہی کے لئے نہیں بلکہ پورے پاکستان کی ’’ دُخترانِ ملّت ‘‘ اور ’’برادرانِ ملّت ‘‘ کے لئے قابلِ فخر ہیں ۔ یکم اکتوبر 2012ء کو پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی کو اُن کی قومی خدمات کے پیش نظر ڈاکٹریٹؔ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ 20فروری کو ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں چھٹی سہ روزہ ’’نظریہ ٔ پاکستان کانفرنس‘‘ کے لئے ’’ نظریہ ٔپاکستان ٹرسٹ ‘‘ کے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید کی فرمائش پر مَیں نے ملّی ترانہ لکھا، جس پر ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے مجھے ’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا۔ میرے لکھے ہُوئے ترانے کے دو شعر یوں تھے / ہیں …
’’پیارا پاکستان ہمارا ، پیارے پاکستان کی خیر!
پاکستان میں رہنے والے ، ہر مخلص انسان کی خیر!
…O…
خِطّہ پنجاب ؔسلامت ، خیبر ؔپختونخوا ، آباد!
قائم رہے ہمیشہ ، میرا سِندھ ؔ، بلوچستان ؔکی خیر!‘‘
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024