امریکہ شمالی کوریا کے درمیان بے نتیجہ مذاکرات
ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اْن سے جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے میں ملاقات کر کے شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدر بن گئے۔ عالمی رہنماؤں کی گزشتہ ہفتے بھر سے جاری ان ملاقاتوں کو چین جاپان اور امریکہ، کوریا سیاست کے موضوع کا نام دیا جا رہا ہے۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جاپان میں جی-20 سربراہی اجلاس کے بعد سنیچر کو دو روزہ دورے پر جنوبی کوریا پہنچے تھے۔ اس دورے کا مقصد شمالی کوریا کے ساتھ ایٹمی پروگرام ختم کرنے کے مذاکرات کی بحالی ہے۔ امریکی صدر ہیلی کاپٹر کے ذریعے جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول سے صدر مون جے اِن کے ہمراہ شمالی کوریا پہنچے ۔جہاں دونوں ملکوںکے سربراہان نے کم جونگ سے ملاقات کی ۔ جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے میں پہنچنے پر اْن کا پْرتپاک استقبال کیا گیا۔
شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے امریکی صدر کو خوش آمدید کہا اور دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کے ساتھ گرم جوشی سے مصافحہ کیا اورتصاویر بھی بنوائیں۔ دونوں رہنماؤں نے 20 منٹ ون ٹو ون ملاقات بھی کی اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔کم جونگ اْن سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں صدر ٹرمپ نے دو طرفہ مذاکرات کے دوبارہ آغاز کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ امریکاکی مذاکراتی ٹیم اس بار بھی اسٹیفن بیگن کی سربراہی میں کام کرے گی۔
شمالی کوریا کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کا تاحال اعلان نہیں کیا گیا ہے، شمالی کوریا کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن کم یونگ کول کے سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں قتل کی خبریں گرم تھیں تاہم شمالی کوریا نے ان اطلاعات کو مسترد کردیا تھا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی اور جنوبی کوریا کے بارڈر پر سخت سکیورٹی والے علاقے میں شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان سے تاریخی مصافحہ کیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے پہلے صدر ہیں جنھوں نے شمالی کوریا کی سرحد عبور کر کے کم جونگ سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات کا دورانیہ ایک گھنٹے بتایا گیا ہے۔
دونوں رہنماؤوں نے جوہری مذاکرات شروع کرنے کے لیے ٹیم بنانے پر اتفاق کیا ہے۔سنہ 2018 میں دونوں رہنماؤں کے درمیان جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے لیے سنگاپور میں ہونے والے اجلاس کا دوسرا دور شمالی کوریا کی رضامندی کے بغیر ہی ختم ہو گیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اسے ایک ’برا معاہدہ‘ قرار دیا تھا۔ایک برس کے دوران دونوں رہنماؤں کی یہ تیسری ملاقات ہے۔
اس سے پہلے کئی امریکی صدور جنوبی کوریا کی سرحد پر جا چکے ہیں تاہم صدر ٹرمپ نے وہاں دورے کے سیاسی انداز کو بدل دیا انھوں نے دوربین کا استعمال نہیں کیا اور نہ ہی بم حملے سے حفاظت کے لیے جیکٹ یا سوٹ کا استعمال کیا۔دونوں رہنماؤوں نے سرحدی لائن پر مصافحہ کیا۔جسے بعد میںناقدین نے خالص سیاسی تھیٹر کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ جبکہ دیگر افراد کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات مستقبل میں ہونے والے مذاکرات کے لیے راستہ ہموار کر سکتی ہے۔اس ملاقات کیلئے بظاہر صدر ٹرمپ کی جانب سے ٹویٹر پر کم جانگ کو دعوت دی گئی تھی ۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان فروری میں ہنوئی میں ہونے والی ملاقات سے شمالی کوریا سے ’اقتصادی پابندیاں ہٹانے کے بدلے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے‘ کسی ٹھوس معاہدے کی امید کی جا رہی تھی۔لیکن یہ مذاکرت کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر ہی ختم ہو گئے کیونکہ دونوں ممالک اقتصادی پابندیوں میں نرمی پر اتفاق نہیں کر سکے۔ ٹی وی پر اس ملاقات کو براہ راست دکھایا گیا۔ مترجم نے مسٹر کم جانگ کے خیر مقدمی مسکراہٹ کے ساتھ ادا کیے جانے والے الفاظ کچھ یوں بیان کیے۔’آپ کو دوبارہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ میں نے کبھی آپ سے اس جگہ ملاقات کی توقع نہیں کی تھی۔اس بار مسٹر کم ریلیکس دکھائی دیے اور پھر صدر ٹرمپ کے ساتھ جنوبی کوریا میں داخل ہوئے۔مسٹر ٹرمپ نے کہا ’ایک بڑا لمحہ بہت بڑی پیش رفت۔میں سمجھتا ہوںکہ یہ ان کی جانب سے بدقسمت ماضی کو ختم کرنے کا اور نئے مستقبل کو شروع کرنے کی کوشش ہے۔وہ دونوں فریڈم ہاؤس نامی عمارت میں داخل ہوئے اور وہاں ملاقات کی۔صدر ٹرمپ کے ہمراہ غیر معمولی پریس بیان میں کم جانگ نے کہا کہ یہ ’بہترین‘ تعلقات کی علامت ہے۔
صدر ٹرمپ نے اس دوستی کو ’خاص طور پر عظیم‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ دنیا کے لیے ایک عظیم دن ہے اور وہ دونوں کوریائی خطوں میں قدم رکھنے پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔بعد میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے کم جانگ کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی ہے۔ پس پردہ سفارت کاری کے لیے وقت نہ ہونے کے باعث اسے صرف ایک تصویر بنوانے کا موقع سمجھا جا رہا ہے۔تاہم اس ملاقات کو ڈی نیوکلیر آئزیشن کے لیے دونوں رہنماؤں کے عزم کے طور پر دیکھا جائے گا۔
شمالی کوریا کے متنازع جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کے سلسلے میں مذاکرات، گزشتہ برس اس وقت عروج پر پہنچ گئے جب صدر ٹرمپ اور کم جونگ نے سنگاپور میں ایک تاریخی ملاقات کی تھی۔اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے کوریائی خطے میں جوہری ہتھیاروں کو تلف کرنے کا عزم کیا تھا۔ لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ صدر ٹرمپ اور کم جونگ میں دوروں کے تبادلے کے باوجود مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔یاد رہے کہ گذشتہ روز امریکی صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کو شمالی اور جنوبی کوریا کے بارڈر پر ملنے کی دعوت دی تھی۔ شمالی کوریا نے اسے ’بہت دلچسپ تجویز‘ قرار دیا تھا۔