افسوس! پاکستان چین جیسی ترقی نہ کر سکا
چین جس کے کئی سالوں سے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں، 1949ء میںانقلاب چین کے بعد یہ ایک الگ قوم کے طور پر نمودار ہوا اور سب سے پہلے اس کو تسلیم کرنے والا ملک پاکستان ہی تھا۔ چین پاکستان کے دو سال بعدمعرضِ وجودمیں آیا۔ اگر تاریخ میں نظر ڈالے تو چین ایک پسی ہوئی قوم تھی۔ جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں چین کے دو کروڑ افراد قتل کر دئیے تھے۔ پہلا غیر ملکی طیارہ جو چین کی سرزمین پر اُترا وہ پاکستانی ائیر لائن پی آئی اے کا جہاز تھا۔ اگر ہم پاکستان کی ترقی اور چین کی ترقی پر غور کریں تو ہمیں اس بات پرافسوس ہو گا کہ ہم آج چین سے بہت پیچھے ہیں۔ چین کو بینکنگ نظام سے بھی پاکستان نے ہی روشناس کروایا۔ ہمارے دئیے ہوئے نظام کو لے کر آج چین کہاں پہنچ گیا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں جبکہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک بھی چین کی ترقی سے متاثر ہیں ۔ چائینہ کی ترقی کیوجہ یہ بھی ہے کہ چین کے باشندے ملک کے نقصان کو ذاتی نقصان سمجھتے ہیں جب کے پاکستان میں حکومتوں کی آئے دن کی اکھاڑ پچھاڑ ملک کے نقصان کا باعث بنی رہی۔ چین کو مائوزے تنگ جیسا لیڈر مل گیا اور ہمیں قائد اعظم کے بعد اب تک کوئی مخلص لیڈر نہ ملا۔ اس وقت چین عالمی معیشت پرتیزی سے چھایا ہوا ہے۔ شایدہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں چین کی مصنوعات استعمال نہیں ہو رہیں۔ چین کے رہنما کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے بہترین انگریزی جاننے کے باوجود زندگی بھر کبھی انگریزی نہیں بولی۔ یعنی اپنی زبان سے محبت بھی چین کی ترقی کی وجہ ہے جبکہ پاکستان میں قومی زبان اردو بولنے والے کو ان پڑھ جاہل اور انگریزی بولنے والے کو پڑھا لکھا تصور کیاجاتا ہے۔ اور تو اور چین کے افسران اور مزدور مل کر کام کرتے ہیں اور پاکستان کے افسران سے کام کروانا ان کی توہین سمجھا جاتا ہے۔ ہمارا ملک معیشت پر اس لیے ترقی نہیںکر پا رہا کیونکہ ہم دوسرے ممالک کی مصنوعات کا استعمال بہت زیادہ کر رہے ہیں جبکہ چین صرف اور صرف اپنی مصنوعات پر فوقیت دیتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ چائینہ میں ان کے رہنما اور لوگوں کی اپنے ملک سے محبت اور اخلاص کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ قوم آج دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میںشمار ہوتی ہے۔
(لاہور کالج فور ویمن یونیورسٹی رابعہ اشرف)