پانی کا بحران
وہ ٹی وی پر خبریں سنتا یا اخبار پڑھتا یا whatsApp پر میسج دیکھتا توپانی بحران کی خبریں زیادہ نمایاں ہورہی تھیں اس نے سوچا سندھ اور خاص طور سے کراچی شہرکا زیادہ برا حال ہے۔ لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ دارالخلافہ بھی شدید پانی کے بحران کا شکار ہے۔ اسے خیال آیا یہ تو چند مہینے ہوئے ہیں کہ پانی کی قلت اس کے شہر کا مقدر بنی ہے ۔بلوچستان کا تو سالوں سے برا حال ہے ۔اس کے بعض علاقوں کے مکین تو جوہڑ کے پانی پر گزارہ کرتے ہیں جہاں انسان اور جانور ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں ۔تھر کا ذکر تو ہر اخبار کی زینت بنتا رہا ہے اس کے حال پر تو کسی نے توجہ دی ہی نہیں۔پاکستان میں پانی بتدریج کم ہوتا جارہا ہے۔بھارت پانی کے مسلٔہ پر پوری دشمنی پر اتر آیاہے۔پاکستان میں دریائوں میں پانی کی روانی کم ہے اور پھر دریائوں کا پانی بہائو کی صورت سمندر کی نظر ہوجاتا ہے اس کے سٹور کر نے کا خیال کسی کو نہیں آیا ۔دیکھا جائے تو پچھلے بیس سالوں میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ٹھوس قدم کیے ہی نہیں گئے۔ اب لوگ میٹرو بس ،اورنج ٹرین اور اس طرح کے میگا منصوبوں سے پانی تو حاصل کرنے سے رہے ۔سی پیک منصوبے سے معاشی ترقی تو ہوگی لیکن پانی کا حصول ممکن نہیں ہو سکتا اور نہ ہی موٹر وے پانی کی فراوانی کا سبب بن سکتی ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان منصوبوں کے ساتھ ساتھ پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبوں پر بھی کام کیا جاتا ۔جب پانی نہیں ہو گا فصلیں کیسے پیدا ہو گیں، لوگ کیا کھائیں گے، اناج امپورٹ کرنا پڑے گا، خزانے پر بوجھ پڑے گا تو حالات کیا ہونگے۔حکومتوں کو خیال ہو تا تو اس طرف توجہ دیتے اور چھوٹے ڈیم بناتے مگروہ ایسا کیوں کرتے ان کو دیگر مسائل سیاسی سے فرصت ہوتی تو ایسا کرتے۔
وہ آج کل سوشل میڈیا پر بہت سی پوسٹیں اور میسج دیکھ رہا تھا جس میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی تحریک زور پکڑ رہی ہے کچھ باشعور عوام اس کی تعمیر کو ووٹ سے منسلک کر ہے ہیں۔ شاید حکمرانوں کو پاکستان کا کچھ خیال آجائے اور اپنے ذاتی مفادات اور ذاتی ایجنڈے کو بھول کر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو ممکن بنا سکیں۔اس نے سوچا افسوس تو یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم پر مفادپرست سیاست دانوں کا اختلاف تھا تو بہت سے مقامات پر چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کیا جاسکتا تھالیکن جو بھی آیا وہ صرف اپنی کرسی بچانے اور اقتدار کے نشے لینے میں مگن رہا۔حکمرانوں نے صرف آج کا سوچا اور مستقبل کو نظر انداز کیا ۔اچھے حکمران کو آج کی نہیں بلکہ مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہے۔وہ سوچنے لگا اب بھی وقت ہے ۔پانچ سات سا ل میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں اگر آنے والی حکومت بجٹ کا ایک بڑا حصہ ڈیموں کی تعمیر کے لیے مختص کرے یا جہاں اپنے شو آف کے لیے قرضے لیے جاتے ہیں وہیں ڈیموں کی تعمیر کے لیے قرضے لیے جائیں۔ اس نے سوچا کہ قوم اتنی باشعور ہے کہ اگر اس سے ڈیموں کی تعمیر کے لیے چندے کی اپیل کی جائے تو یہ قوم اتنا پیسہ دے سکتی ہے کہ اس سے چار پانچ چھوٹے ڈیم تعمیر ہوسکتے ہیںلیکن ساری بات تو سوچنے اور کرنے کی ہے۔ ایسا کون سوچے اور کون کرے گا۔اقتدار کی ہوس اور کرپشن اس حد تک سرائیت کرگئی ہے کہ ایسے منصوبے ہی بنائے جاتے ہیںجن میں کم سے کم وقت زیادہ سے زیادہ مال پانی بنایا جاسکے۔وہ سوچنے لگا کالا باغ ڈیم کا مسلٔہ چند سیاست دانوں کا نہیں،کچھ علاقے کے لوگوں کا نہیں بلکہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور ملکی مفاد کے آگے کوئی چیز نہیں ،کڑے ہاتھوں اس کی تعمیر کا فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ اگلے چند سالوں میں پاکستان پانی کی بوند بوند کو ترسے گا۔بھارت نے تو پاکستان کو اس ہتھیارسے زیر کر نے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو ابھی بھی ہوش نہیں آیا۔
اسے خیال آیا ملک میں ہر سال سیلاب آتا ہے اوراس سیلاب سے بڑی تباہی ہوتی ہے اگر پانی ذخیرہ کرنے کے مواقع موجود ہوں تو اس سیلاب کے زور کو بھی روکا جاسکتا ہے ۔اس نے سوچا کہ ڈیم کی تعمیرکے ذریعے پانی ذخیرہ کرنا بڑے منصوبے ہیں ۔اس ملک میں تو مقامی سطح پر بھی پانی ذخیرہ کرنے کے لیے حکومتوں نے کوئی انتظام نہیں کیا، کوئی پروگرام نہیں بنایا۔اس ملک میں لاقانونیت اتنی ہے، ہر شخص بورنگ کروا کر ٹیوب ویل لگا لیتا ہے اور اسے ذاتی استعمال میں لاتا ہے۔یہ کسی ایک شہر میں نہیں بلکہ پورے ملک میں یہی لاقانونیت ہے۔مقامی سطح پر ضلعی انتظامیہ اس پانی کے بحران کی خود بھی ذمہ دار ہے اگر وہ اپنے فنڈ میں سے کچھ حصہ مختص کر کے انڈر واٹر ٹینک بنالیتے تو پانی کا کچھ مسلٔہ حل ہوسکتا تھااور ذاتی سطح کی بنیاد پرگھر گھر میں ہونے والی بورنگ کو رکوا کر محلوں کے چھوٹے چھوٹے یونٹ بناکر ایک ٹیوب ویل کے ذریعے مسئلہ حل کیا جاسکتا تھا۔
اس نے سوچا دیگر شہروں کی ضلعی انتظامیہ اتنی مضبوط نہیں ہوتی جتنی میٹرو پولین شہروں کی ہوتی ہے لیکن ان کا بھی برا حال ہے۔اس نے سوچا وہ دیگر شہروں کو کیا دیکھے اس کا اپنا شہر دارلحکومت ہونے کے ناطے پچھلے چند مہینوں سے پانی کے شدید بحران کا شکار ہے اس کا کوئی حل نہیں نکالا جاسکا۔ حکومتی ادارے CDAکے پاس اتنے فنڈ ہیں کہ وہ اس مشکل کا ایک دو ماہ کے اندر ہی حل نکال سکتا تھا لیکن ایسا ممکن نہ ہوا ۔شہر کے میئر تفرویح کے لیے ملک سے باہر ہیں اور افسران کو کیا پڑی ہے، ان کو تنخوا ہ مل رہی ہے۔
وہ سوچنے لگا کہ اس کے شہر میں دو ڈیموں سے پانی کی سپلائی ہورہی ہے ۔ایک وقت تھا کہ جب ان ڈیموں میں پانی کی کمی نہیں ہوتی تھی یہ وہ وقت تھا جب اس کا شہر ہرا بھرا رہتا تھا۔ذرا گرمی کا زور بڑھا اور بارشیں ہوئیں، ان بارشوں سے ڈیم بھی بھرا رہتا تھا۔ ہرطرف درخت ہی درخت نظر آتے تھے لیکن شہر بڑھتا گیا اور درخت کٹتے گئے۔یہ سراسر CDAکی نااہلی اورغفلت ہے کہ نئے بننے والے سیکٹر زمیں درخت لگوانے کا کوئی انتظام نہیں کیا اگر ہر نئے سیکٹر میں جس کے لیے درخت کاٹے گئے ۔سیکٹر کی پلانگ کے ساتھ ہی نئے درخت لگا دیے جاتے تو یہ شہر سرسبز بھی رہتا اور اس میں موسمی تبدیلی بھی نہیں آتی ۔اس شہر کو دیکھا جائے تو اس کے مرکز زیرو پوانٹ سے لیکر پشاور روڈ تک تمام علاقہ درختوں سے بے نیاز ہو گیاہے اگر نئے بننے والے سیکٹرز میں درخت لگا دیے جاتے تو پہلے کی طرح بارشیں ہوتیں ۔ڈیم بھرے رہتے اور پانی کی قلت نہ ہوتی۔
وہ سوچنے لگا جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتیں پانی کی قلت کی ذمہ دار ہیں ۔وہیں ضلعی انتظامیہ اور کارپورشن پانی کا ذخیرہ نہ کرنے کی خطا وار ہیں۔اس جرم میں نہ کوئی حکومتوں کو پکڑ سکتا ہے نہ ضلعی انتظامیہ کو سزادے سکتا ہے۔اوپر سے نیچے تک مفادات کی سیاست سرگرم عمل ہے۔عوامی مفادکون سوچتا ہے۔
وہ بھی تو صرف سوچ سکتا ہے کہ اس ملک میں کالا باغ ڈیم بنے۔پانی کے ذخیرے کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنیں کہ آنے والی نسلیں پانی کی قلت کا سامنا نہ کریں۔ ضلعی انتظامیہ کو ہوش آئے اور وہ اپنے علاقوں میں انڈر واٹر ٹینک بنائیں اور گھر گھر ہونے والی بورنگ کو روک کر ایک محلے کے لیے ایک ٹیوب ویل کا انتظام کریں۔ حکومت ہر علاقے میں پانی کا ری سائیکل پلانٹ لگائے اور لوگ پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کا استعمال احتیاط سے کریں ۔وہ یہ سوچ سکتا ہے ، خواب دیکھ سکتا ہے لیکن عمل تو صاحب اقتدار ہی کرسکتے ہیں لیکن ان کو دوسری باتوں سے فرصت کہاں کہ اس طرف توجہ دیں۔وہ سوچنے لگا کہ وہ یہ باتیں سوچ سکتا ہے تو صاحب اقتدار کیوں نہیں۔