آرٹ اور کلچرسے معیشت کو مضبوط کیاجاسکتا ہے:جمال شاہ
صائمہ عمران
پاکستانی آرٹ لورز کے لئے جمال شاہ کا نام معتبر ہی نہیں قابل بھروسہ بھی ہے۔ جمال شاہ پر اللہ تعالی کی خاص عنایت ہے کہ یہ فن کے جس شعبہ میں بھی گئے وہاں اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑھے۔ ایکٹنگ کی دنیا ہو یا ڈائریکشن کا میدان‘ مجسمہ سازی ہو یا پیٹنگ جہاں بھی انہوں نے قدم رکھا وہاں انہی کا طوطی بولا۔ اپنی زندگی کی کم و بیش چار دہائیاں انہوں نے فن کے فروغ میں بسر کیں۔ ہمارے لئے جمال شاہ کو پیدائشی آرٹس کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں آرٹسٹ کو اپنا راستہ بنانے میں طویل اور کٹھن جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ جمال شاہ کو بھی کم و بیش ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ میٹرک کے بعد وہ آرٹ کی تعلیم کے لئے این سی اے کو جوائن کرنا چاہتے تھے مگر والد کی رائے میں وہ ڈاکٹر یا انجینئیر بن کر زیادہ کامیابیاں سمیٹ سکتے تھے۔ اس لئے چارہ و ناچار انہوں نے انگلش لٹریچر میں بلوچستان یونیورسٹی سے ماسٹر کیا شوق اور لگن کے اس سفر میں آرٹ اور موسیقی کو بھی پس پشت نہ ڈالا۔ 1975ء میں پی ٹی وی کوئٹہ سے بطور گلوکار اور کمپوزر اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور عملی طورپر اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے بالآخر 1983ء میں این سی اے کو جوائن کر ہی لیا ویژ وئل آرٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بلوچستان یونیورسٹی میں 1984ء میں فائن آ رٹ ڈیپارٹمنٹ قائم کیا اور 1985ء میں آرٹسٹ ایسوسی ایشن آف بلوچستان کے نام سے ادارہ قائم کیا۔ بعدازں سلیڈ سکول آف آرٹ (لندن) سے پرنٹ میکنگ میں ماسٹر کرنے کے بعد وطن واپس آ گئے اور اسلام آباد میں سکونت اختیار کر کے یہاں کے باسیوں کو بھی آرٹ سیکھنے کے لئے ایک ایسا ادارہ بنا کر دیا کہ جو بہت کم عرصے میں بین الاقوامی معیار کے آرٹسٹ طالب علم اور اساتذہ کی تربیت میں اپنی مثال آپ بن گیا۔ یہ ادارہ 1992ء میں ہنرکدہ آرٹ اکیڈمی کے نام سے بنایا گیا تھا جو تاحال فعال ہے۔ جمال شاہ کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ جس شعبہ اور ادارے میں گئے اسے اوج کمال تک پہنچا کر ہی دم لیا۔ اس وقت وہ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹ (پی این سی اے) کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ پی این سی اے جو آرٹ اور کلچر کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتا تھا غیر متعلقہ شعبوں کے ڈی جی تعینات ہونے کی وجہ سے یہ ادارہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا اس لئے اب جب آرٹ اور کلچر کے فروغ کے لئے بنائے گئے ادارے کا ڈی جی جب جمال شاہ کو چنا گیا تو فن و ثقافت کی دنیا سے منسلک افراد اور کلچر سے لگاؤ رکھنے والی سوچ کے حامل افراد کے اندر بھی امید کی کرن پیدا ہوئی کہ اب یہ ادارہ اپنے قیام کے مقاصد کی تکمیل کی طرف بڑھے گا اور ڈی جی جمال شاہ نے بھی ادارے کی کارکردگی کو بہتر سے بہترین کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے شروع کر دئیے ہیں۔ نوائے وقت کے ساتھ رکھی جانے والی خصوصی نشست میں ڈائریکٹر جنرل پی این سی اے جمال شاہ نے جو گفتگو کی وہ نذر قارئین کرتے ہیں۔
سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید کے زور دینے پر پی این سی اے کی ذمہ داریاں اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ خدا کے فضل سے مجھے ویژوئل آرٹ کے تمام شعبوں پر دسترس حاصل تھی۔ اس لئے ان کے خیال میں میں اس ادارے کو چلانے کیلئے موزوں ترین فرد تھا اور پھر میں نے بھی اپنے مختصر دور میں کوشش کی کہ پی این سی اے کی آرٹ اینڈ کلچر کی ایکٹیویٹز کو بام عروج تک پہنچا دوں۔ 13 سال بعد قومی نمائش کا انعقاد کیا۔ پرفارمنگ آرٹ کے حوالے سے تھیٹر فیسٹیول کروایا جس میں ملک بھر کے فنکاروں نے 45 ڈرامے سٹیج کئے۔ فلم فیسٹیول کروائے۔
اس کے علاوہ سی پیک جس سے روشن پاکستان کی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں اس کے حوالے سے بھی ہم نے پروگرام اناؤنس کئے ہیں کہ کس طرح سلک روٹ سے منسلک علاقوں کی ثقافت و فن پر یہ سی پیک اثر انداز ہو گا۔سی پیک کارواں میرا انوکھا اور کامیاب آئیڈیا تھا۔ اس کا خیال کچھ اس طرح آیا کہ چین کا ایک کلچرل وفد پی این سی میں پرفارم کر رہا تھا۔ سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید اور احسن اقبال بھی موجود تھے۔ ان سے میں نے سی پیک کلچرل کارواں کا آئیڈیا ڈسکس کیا۔ یوں وزیراعظم کے ساتھ جب اس موضوع پر تبادلہ خیال ہوا تو انہوں نے فوراً منظوری دے دی۔ یوں فنڈنگ کے بعد ہمارا پہلا سی پیک کاررواں کامیاب رہا۔ ہر سال سی پیک کلچرل کاررواں کا انعقاد کرنا مشکل ہے لاجسٹک چیلنجز بہت زیادہ ہیں۔ لیکن ہر دوسرے سال اس کا انعقاد ہو گا آرٹ اینڈ کلچر کی اہمیت کے حوالے سے ڈی جی پی این سی اے نے کہا کہ قومی سطح پر فن و ثقافت کے فروغ کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستانی عوام اپنے کلچر فن اور فنکار سے پیار کرتے ہیں مگر ہم ان تک اپنا پیغام پہنچانے میں ناکام رہے ہیں اور اس خلاء کو پر کرنے کے لئے ہمسایہ ممالک نے فائدہ اٹھایا۔ آج ہمارا بچہ اپنی تہذیب و ثقافت کی زبان کی بجائے ہمسایہ ممالک کی تہذیب و ثقافت سے زیادہ آشنا ہو چکا ہے۔ اس میں قصور کس کا ہے یقیناً ہماری ترجیحات کا‘ اپنے کلچر کو فروغ دے کر ہم ملی یگانگت بھی بڑھا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس صدیوں پرانی تہذیبیں‘ ست رنگی ثقافت‘ خوبصورت بولیاں اور خداداد صلاحیتوں کے حامل فنکار
موجود ہوں تو پھر ہم دنیا کو یہ پیغام کیوں نہ دیں کہ ہمارے ڈرامے‘ فلم‘ سٹیج شوز کے معیار کا کوئی ثانی نہیں۔ فن و ثقافت کے فروغ کے لئے پاکستان میں کام ہو رہا ہے مگر ضرورت ان پروگرام میں تسلسل لانے کی ہے۔ پی این سی اے کے قیام کا مقصد بھی آرٹ کی ترقی و ترویج کے ساتھ عام فرد کی آرٹ تک رسائی کو ممکن بنانا تھا اس مقصد کے حصول کے لئے ہم اپنے قومی مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے تمام ثقافتی اثاثوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے کلچر کو فروغ دے کر دنیا میں اپنا سافٹ امیج بھی اجاگر کر رہے ہیں اس کے لئے ہم نیشنل فلم فیسٹیول‘ نیشنل میوزک فیسٹیول‘ تھیٹر فیسٹیول اور چلڈرن آرٹ ورکشاپ جیسے کئی پروگرام کر رہے ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے تعاون سے ملک بھر سے ٹیلنٹ ہنٹ شو ’’شکار‘‘ کے نام سے شروع کیا گیا ہے۔ نسل نو کو آرٹ اور کلچر سے روشناس کرانا بہت ضروری ہے۔ قومیں اپنے بچوں کو زندگی کے ابتدائی مرحلوں سے ہی اپنی ثقافت کی اہمیت سے آگاہ کرتی ہیں اس مقصد کے لئے میں نے ہنرکدہ کے پلیٹ فارم سے آرٹ اینڈ کلچر کے عنوان سے نصاب ترتیب دیا ہے۔ اس نصاب کو خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں شامل نصاب میں کیا گیا اور یہ تجربہ کامیاب رہا کہ والدین اور بچوں نے اس تبدیلی کو پسند کیا اب ہم اس نصاب کو وفاقی تعلیمی اداروں میں بھی متعارف کروانے کے لئے فیڈرل بورڈ کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ ہمارے بچے اپنی صدیوں پرانی ثقافت کو سمجھیں سیکھیں۔ ہماری نوجوان نسل آرٹ و ثقافت سے لاعلم ہیں لیکن اس کلچرل پالیسی میں پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک نصاب میں آرٹ و ثقافت کا مضمون شامل کرنے کی بھی شق ہے۔ جب عوام میں آرٹ کی سمجھ بوجھ بڑھے گی تو آرٹ و کلچر کی وقعت میں بھی اضافہ ہو گا۔
پی این سی اے کے چلڈرن آرٹ ورکشاپ سیکشن کو بھی میں نے متحرک کر دیا ہے تاکہ وہ بچوں کو ٹیبلوز مائمی شوز اور آرٹ کی دیگر سرگرمیوں کے ذریعے آرٹ سکھا رہے ہیں۔ اکانومی کے لئے بھی کلچر ڈپلومیسی بہت اہم پہلو ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں آرٹ اور کلچر کے فروغ
کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ اب ہمیںکلچرل کی منسٹری کو فعال کرنا ہو گا۔ کئی ممالک ایسے ہیں جہاں آرٹ اور کلچرل زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح لازم و ملزوم ہیں۔ اٹلی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ اپنی ثقافت اور آرٹ کو استعمال کر کے ٹورازم سے اپنی معیشت کو بھاری زرمبادلہ دے رہا ہے۔ ہمارے پاس بھی آرٹ و ثقافت کے ساتھ ساتھ ہزاروں سال پرانی تہذیبوں کے پیش بہا خزانے موجود ہیں۔ ہم انہیں اگرسیاحوں کے سامنے پیش کریں تو ہماری معیشت مضبوط ہو سکتی ہے۔
جمال شاہ کہتے ہیں کہ میری زندگی فن کی خدمت میں گزر رہی ہے میں جانتا ہوں کہ فن اور فنکار کن مسائل سے دوچار ہیں اسی لئے میں نے نیشنل آر ٹسٹ کنونشن منعقد کیا ۔ اس میں ملک بھر سے 350 آرٹسٹ شریک ہوئے تھے اور سب آرٹسٹوں کی تجاویز پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ ہم نے حکومت کو بھیج دیا ہے۔ ۔ کلچرل پالیسی کا اعلان ہونا ہماری ایک بڑی کامیابی تھی۔ فیض احمد فیض اور فخر زمان نے جو کام شروع کیا تھا ہم نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ اس پالیسی کا ڈرافٹ ملک بھر کے فنکاروں سے مشاورت کے بعد بنا اور سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس کی منظوری میں کلیدی کردارادا کیا۔ اب ہماری کوشش ہو گی کہ آنے والی حکومت اس پالیسی پر عملدرآمد کروائے اگر کلچرل پالیسی پر من وعن عمل ہو گیا تو پاکستان میں کلچرل انفراسٹرکچر بن جائے گا اور یہ وقت کا تقاضا بھی ہے۔پی این سی اے کا کم بجٹ بڑا مسئلہ ہے۔ اس وقت ہمیں جو حکومت کی طرف سے فنڈ مل رہا ہے اس میں سے 94 فیصد تو ادارے کے عملہ کی تنخواہوں کے لئے مخصوص ہے باقی 6 فیصد سے آرٹ کی ترویج کرنا ناممکن ہے ہمیں آرٹ اور کلچر کی تمام ایکٹیویٹیز کو ڈاکومنٹ کرنا ہوتا ہے۔ نمائشوں اور پروگراموں کے حوالے سے بجٹ ناکافی ہے۔ میں نے اپنے دور کے شروع سے ہی اس ایشو پر کام کیا اور پھر سینیٹ اور قومی اسمبلی کی کمیٹیوں نے ہمارے مسائل و ضرورتوں کودیکھتے ہوئے پی این سی اے کیلئے ایک ارب کا بجٹ تجویز کیا۔ اب ہم پرامید ہیں کہ آنے والی حکومت پر بجٹ جاری کر کے ہمیں اس قابل بنا دے گی کہ ہم نیشنل فلم اکیڈمی ‘ نیشنل سنٹر فار پرفارمنگ آرٹ کے شعبے قائم کر سکیں پی این سی اے کے پلیٹ فارم سے آرٹ اور کلچر کی ایکٹیویٹی بڑھانے کے لئے سب سے اہم چیز جو ہمیں درکار ہے وہ وسائل ہیں۔ میرا فوکس ہے کہ دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر فنڈز بڑھانے کی زیادہ سے زیادہ کوششیں کی جائیں۔ ۔ پی این سی اے میں منعقد ہونے والے پروگراموں کو ملک کے کونے کونے تک پہنچانے کے لئے ہم نے پی ٹی وی کو کہا ہے کہ وہ پی این سی اے کے پروگراموں کی ریکارڈنگ کر کے انہیں ترتیب دے تاکہ لوگوں کو گھروں میں بیٹھ کر بھی اپنی ثقافت سے جوڑا جائے ’’قائد کا پاکستان‘‘ اس حوالے سے اہم مثال ہے۔ پی ٹی وی سے نشر ہونے والے اس پروگرام میں‘ میں نے عوام کے اندر بابائے قوم کے مشن سے محبت و عمل کی لگن پیدا کرنے کی کوشش کی۔
اب اگلے سال مارچ اپریل میں اسلام آباد میں انٹرنیشنل آرٹ بنالے منعقد کرنے جا رہے ہیں یہ بین الاقوامی آرٹ ایونٹ پورے اسلام آباد حتیٰ کہ ٹیکسلا تک پھیلا ہوا ہو گا۔ پی این سی اے کی وجہ سے میری تمام مصروفیات پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ ہنر کدہ بھی نظر انداز ہو رہا ہے۔ میری ماہانہ آمدنی بھی ماضی کے مقابلے میں کئی گنا گم ہو گئی ہے۔ لیکن فنکار اور آرٹ کے فروغ کیلئے اس سیٹ پر بیٹھ کر جو میں کام کر رہا ہوں اس سے بہت خوش ہوں۔ کافی عرصہ سے اپنی فلم ’’کٹ‘‘ پر کام کرنا چاہ رہا ہوں انشاء اﷲ اسکرپٹ پاکستانی فلم انڈسٹری کے عروج و زوال اور پھر اس کے احیا( بحالی) پر مبنی ہے۔ اب میری کوشش ہو گی کہ دو مہینوں کی چھٹی لے کر اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچاؤں