کالا باغ ڈیم : اب نہیں تو کبھی نہیں
کالا باغ ڈیم بن جاتا تو آج پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میںشامل ہوتا۔ ایوب خان نے پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو ضروری سمجھا مگر ایوب دور میں یہ کام صرف کاغذوں تک محدود رہا ۔جنرل ضیاءالحق کے دور میں کالا باغ ڈیم پر کچھ عملی کام ہوا۔ ڈیموں کے ماہر ڈاکٹر کنیڈی کمیٹی بنائی گئی۔ 1983میں ڈاکٹر کنیڈی کمیٹی نے رپورٹ مرتب کی کہ یہ ڈیم 120ایکڑ رقبے پر تعمیر ہو گا۔ 925فٹ اس کی اونچائی ہو گی 6.1ملین ایکڑ فٹ پانی سٹور کیا جاسکے گا ۔اس کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ 5سال اور کم سے کم 3سال کا عرصہ درکار ہو گا اور یہ پورے ملک کے 50لاکھ ایکڑ رقبے کو سیراب کریگا۔8بلین ڈالر اس کی تعمیر پر خرچ ہوں گے۔اس سے 5000میگا واٹ تک بجلی کی پیداوار حاصل کی جاسکے گی۔ضیا الحق نے اس کی تعمیر کیلئے سنجیدگی سے غور کیا ۔کالا باغ کی تعمیر کیلئے کالونی اوردفاتر تعمیر کئے گئے۔روڈ بنائے گئے۔ مشینری منگوائی گئی۔ جنرل فضل حق صوبہ سرحد کے گورنر تھے اور حاضر سروس جنرل بھی تھے ۔انہوںنے اعتراض اٹھایا کہ کالا باغ ڈیم کے موجودہ ڈیزائن سے نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا۔ اس عذر کو دور کرنے کیلئے ڈیزائن میں تبدیلی لائی گئی ،ڈیم کی اونچائی925سے915 فٹ کر دی گئی۔ سندھ سے سوال اٹھا کہ پنجاب سندھ کا پانی غصب کر لے گاچنانچہ یہ منصوبہ سندھ کے عوام کو منظور نہیں ہے۔ سندھ کے عوام کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے چاروں صوبوں کو پانی کی تقسیم کے ایک فارمولے پر راضی کیا گیا۔ اس معاہدے اور فارمولے کے مطابق پنجاب 37فیصد سندھ33فیصد سرحد14فیصد اور بلوچستان 12فیصد دریائی پانی لینے پر راضی ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی ضیاء الحق کی حکومت بھی ختم ہو گئی۔بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس منصوبے پر سنجیدگی سے غور بھی نہیں کیا تاہم میاں نواز شریف کے پہلے دور میں ایک قابل ستائش کاوش ضرور سامنے آئی۔کے پی کے سے تعلق رکھنے والے معروف سیاستدان ہمایوں سیف اللہ کالا باغ ڈیم کی بھرپور حامی ہیں،وہ اس کیس کو پوری قوت سے اٹھارہے ہیں،وہ اس کی افادیت کے بارے میں دلیل سے بات کرتے ہیں،انہوں نے اپنی ایک رپورٹ جو”کالابااغ ڈیم مسئلہ نہیں مسائل کا حل ہے“ کے عنوان کے تحت کتابچے کی صورت میں شائع ہوئی،اس میں لکھا:
نوازشریف حکومت میں چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ پانی کی تقسیم کے معاہدہ پر 16 مارچ 1991ءکو ایک فارمولے پر متفق ہو گئے اور کالا باغ ڈیم کے تعمیر کیلئے راہ ہموار ہو گئی۔ معاہدہ میں تمام وزراء اعلیٰ کو اپنی صوابدید پر نمائندہ وزیر کا انتخاب کرنے کا موقع دیا گیا۔پنجاب کے وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کے ساتھ شاہ محمود قریشی (حال مقیم پی ٹی آئی)، سندھ کے وزیراعلیٰ جام صادق علی کے ساتھ انکے وزیر قانون مظفر شاہ، سرحد کے وزیراعلیٰ میر افضل خان کے ساتھ انکے وزیر خزانہ نوابزادہ محسن علی خان اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ میر تاج محمد جمالی کے ساتھ انکے وزیر داخلہ ذوالفقار مگسی نے معاونت کے فرائض انجام دئیے۔ پانی کی تقسیم کے معاہدہ کو مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے 21 مارچ 1991ء کے اجلاس میں باقاعدہ منظور کیا۔ اس تاریخ سازمعاہدے میں چاروں صوبوں کے درمیان اعتماد کی بہترین فضا قائم ہوئی۔ دریائے سندھ اور دیگر دریاو¿ں پر تمام ممکنہ ڈیمز اور ابی ذخائر کی تعمیر کی اجازت دی گئی۔ مشترکہ مفادات کونسل نے آٹھ ارکان کی کمیٹی بنائی جس میں سے سات ارکان نے ڈیم کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اسے پاکستان کیلئے نہایت مفید قرار دیا۔ 1991ءمیں پانی کی تقسیم اور کالا باغ ڈیم منصوبے کی منظوری کے بعد وزیراعلیٰ صوبہ سرحد میر افضل خوش نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے صوبہ سرحد کی اٹھارہ لاکھ ایکڑ اراضی آبپاشی کے ذریعے کاشت ہوتی تھی۔ اس معاہدے کے تحت ہماری مزید نو لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہو گی جس سے گندم اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں زبردست اضافہ ہو گا۔ اے این پی کے قائد خان عبدالولی خان نے کہا تھا میں پانی کے معاہدے سے مکمل مطمئن ہوں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ صوبوں نے اپنے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا۔ صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ جام صادق علی کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی بدولت ہمیں ساڑھے چارملین ایکڑ مزید پانی ملے گا“۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر ایک سادہ معاملہ تھا جسے سیاسی مفاد کی بھینٹ چڑھا کر الجھا دیا گیا ۔ شروع میں کالا باغ ڈیم کی کوئی مخالفت اور مزاحمت نہیں تھی اس دور میں بن گیا ہوتا تو آج اس پر سیاست کی نوبت آتی اور نہ ہی ہم پانی و بجلی کی اس قدر قلت کا شکار ہوتے۔ ان سیاستدانوں کیلئے بھی کالا باغ کی تعمیر خوف کی علامت بن گئی ہے جو اس کے زبردست حامی ہیں مگر ووٹوں کے حصول کی خاطر ان علاقوں میں جا کر دُہرے معیار کا اظہار کرتے ہیں جن علاقوں میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کی جاتی ہے۔ عمران خان اور شہبازشریف کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جو پنجاب میں کھڑے ہو کر کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر زور دیتے ہیں سندھ میں یکجہتی کے نام پر سو کالا باغ ڈیم قربان کرنے کا نعرہ بلند کر دیتے ہیں۔ مشرف اپنے آخری دور میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے بڑے سرگرم نظر آئے۔ کالا باغ ڈیم کی اس حد تک مخالفت ہو رہی ہے کہ سیاسی حکومت غیر معمولی حالات کے سوا اس کی تعمیر پر آمادہ ہوتی نظر نہیں آتی۔ مشرف دور میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر ممکن تھی مگر بڑے بڑے دعوﺅں کے بعد کالا باغ ڈیم تعمیر کے حوالے سے ان کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی تھی ۔اب چیف جسٹس پاکستان کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے سرگرداں ہیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے قرض معافی کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے بتایا کہ گزشتہ روز ان کی ڈیمز کے ماہرین اور مختلف سٹیک ہولڈرز سے جو میٹنگ ہوئی تھی اس کے بعد ملک میں فوری طور پر دو ڈیمز کی تعمیر پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔چیف جسٹس کہتے ہیں کہ ہمارے ریکارڈ کے مطابق قرض معافی سے 54 ارب کی جو رقم ریکور ہورہی ہے۔ اس سے ہم ان ڈیموں کی تعمیر کریں گے۔اس پر کالا باغ ڈیم کے ازلی مخالف سید خورشید شاہ فرماتے ہیں کہ چیف جسٹس کو دوسروں کے پیسے سے کالا باغ ڈیم بنانے کا کوئی حق نہیں۔ایسا ہے تو پھرپیسے خورشید شاہ صاحب دے دیں۔ کسی بھی معاملے میں مخالفت کی کوئی حد ہوتی ہے۔ خورشید شاہ صاحب کی مخالفت کی بنا پر چیئرمین واپڈا ظفر اقبال کو کالا باغ ڈیم کی حمایت کی پاداش میں عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا تھا۔ موجودہ چیئرمین واپڈا مزمل حسین پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دینے گئے تو خورشید شاہ نے ان کی بات ہی سننے سے انکار کر دیا۔ اُدھر اسفند یار ولی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں اسے بم سے اڑانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ ڈوب جائیگا۔ نوشہرہ ہی کے رہائشی شمس الملک جو کے پی کے میں نگران وزیراعلیٰ اور واپڈا کے چیئرمین بھی رہے وہ کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم سے کوئی شہر نہیں ڈوبے گا اگر کسی شہر کے ڈوبنے کا خدشہ ہے تو تعمیر سے قبل اسے بہترین قومی مفاد کے منصوبے کے باعث خالی کرایا جا سکتا ہے۔ کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ جو آپ حاصل کر رہے ہیں وہ کھونے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے ۔ جمہوری لوگوں کی زبان سے غیر جمہوری باتیں افسوسناک ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ کالا باغ ڈیم پر ریفرنڈم کرا لیا جائے۔ جمہوریت اور جمہوری رویوں کی بات کرنے والے اس طرف بھی نہیں آتے۔ آخر اتفاق رائے کیلئے ریفرنڈم کے علاوہ کیا طریقہ کار ہے۔ اتمام حجت کیلئے نوائے وقت نے اپنے طور پر 2014ءمیں ریفرنڈم کرایا تھا جس میں پورے ملک سے لوگوں نے حصہ لیا اور 99 فیصد سے بھی زیادہ لوگوں نے کالا باغ ڈیم کی حمایت کی تھی۔ آج چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے امید بندھی ہے کہ وہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ ایسی ہی کوشش سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر ممکن ہے۔ اس کی تعمیر اب نہیں تو پھر کبھی نہیں ہو سکے گی۔چیف جسٹس کی ایک کال پر کالاباغ دیم کی تعمیر کے اخراجات قوم ایک دن میں جمع کرا دے گی۔ستاروں کی روشنی میں تخت لاہور مسلم لیگ (ن) کے ہی نصیب میں نظر آ رہا ہے۔