اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہبازشریف سے جب میری پہلی ملاقات ہو رہی تھی تو طے شدہ معاملات پربات کرنے کے بعد انہوں نے مجھے مسلم لیگ ن کیلئے اپنی خدمات مستعار دینے کیلئے کہا تو میں نے میاں صاحب کو برجستہ جواب دیا کہ میاں صاحب میں ہر محب وطن کے ساتھ کام کرنے کیلئے تیارہوں مگر میں کبھی بھی ملکی سلامتی کے اداروں اور سٹیٹ کےخلاف کام نہیں کروں گا جس پر میاں شہبازشریف صاحب نے پوچھا کہ کیا میں اور مسلم لیگ ن سٹیٹ کے خلاف ہیں؟ جس پر میں نے انہیں جواب دیا کہ بے شک ابھی تک میرے سامنے ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں اور یہ کہ میں آپ کو پیشگی مطلع کر رہا ہوں۔قارئین! بعدازاں پیش آنےوالے واقعات، شواہد اور حقائق بتاتے ہیں کہ کم از کم میاں شہباز شریف کی حد تک یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ وہ ملکی اسٹیبلشمنٹ کےخلاف کسی قسم کی سرگرمیوں میں ابھی تک ملوث نہیں ہیں۔ البتہ اس بات میں حقیقت ہے کہ بڑے میاں محمد نوازشریف اسی اسٹیبلشمنٹ کے جھگڑے کے باعث تین دفعہ اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے یہ میاں نوازشریف کے مزاج کی بات ہے کہ وہ منتخب وزیراعظم کی بجائے سپیئریر اور بااختیار فردِ واحد بننا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے ملک کی سپریم عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے انکی نہیں بنتی۔ جمہوریت کے سب سے بڑے نقاد ”میکاولی“ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اگر آپ کسی ملک پر لڑے بغیرغلبہ چاہتے ہیں تو اس ملک کی افواج اور قوم کو آپس میں لڑوا دو اور فوج کے متعلق اتنی بدگمانیاں پھیلا دو کہ قوم اپنے آپ کو فوج سے نفرت کرنے پر مجبور ہو جائے۔ قارئین! میں گڑھے مردے اکھاڑے کی بجائے صرف 2013ءکے الیکشن کے بعد میاں نوازشریف صاحب کی پالیسیوں ژ پر چند حرف لکھنا پسند کروں گا۔ میاں نوازشریف صاحب نے ابھی کابینہ بھی تشکیل نہیں دی تھی کہ ایک مصنوعی اپوزیشن تخلیق کرکے اپنی مرضی کا قائد حزب اختلاف لے آئے اور زرداری صاحب سے ڈیل کے ذریعے پارلیمنٹ میں اصل اپوزیشن کی سانسیں بند کر دیں اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ ا ور عوام میں یہ تاثر پھیلنے میں دیر نہ لگی کہ موجودہ حکومت دراصل چور سپاہی کا کھیل کھیل رہی ہے اور دوتہائی اکثریت کے نشے نے انکی نظریں چکاچوند کر دیں۔ پھر اسی نشے کے تسلسل نے سانحہ¿ ماڈل ٹاﺅن رونما ہوا اور میاں صاحب کے سب سے قریبی رفقاءوفاقی وزراءصاحبان بظاہر اس میں ملوث پائے گئے۔ بعدازاں دھرنوں کا موسم آیا جس کے دوران میاں صاحب کی دوتہائی اکثریت زمین بوس ہوتی نظر آئی مگر اسی مصنوعی اپوزیشن کے سرخیل آصف زرداری اور خورشید شاہ نے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی مرضی کے برعکس ن لیگ کی حکومت کو بیساکھیاں فراہم کیں۔ اس دوران ملک شدید بدامنی کے زیر اثر تھا۔ وطن عزیز کے گلی کوچوں، میدانوں،بازاروں، مسجدوں، مدرسوں اور سکولوں تک بارود کی زہریلی بُو پھیل چکی تھی اور پھر اسی دوران سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور رونما ہو گیا۔ یہ ایک ایسا ٹرن آﺅٹ تھا جس نے لوہے کے بنے ہوئے دلوں کو بھی پگھلا دیا اور اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے محسوس کر لیا کہ اب عوام کو یہ بتا دینا چاہیے کہ ان کا وطن ایک غیر اعلان شدہ حالاتِ جنگ میں ہے اور جب پاکستان کی مسلح افواج نے دہشت گردوں کیخلاف بھرپور جنگ کا اعلان گیا تو حکومتی ایوانوں میں موجود حکومتی مشیروں نے محسوس کیا کہ اب وہ اپنی دُہری پالیسی جاری نہیں رکھ سکیں گے اور دراصل یہیں سے میاں نوازشریف صاحب کو یہ بتایا گیا کہ ان کے اقتدار کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے خطرہ ہے اور یہ کہ فوج دہشت گردوں اور طالبان کی آڑ میں دراصل مسلم لیگ ن کا بوریا بستر گول کرنا چاہتی ہے اور اس احساس نے میاں صاحب اور انکے قربتداروں کو پریشان کر دیا۔ خاص طور پر میاں صاحب کی صاحبزادی مریم صفدر جو کہ اپنے آپ کو میاں صاحب کا سیاسی جانشین تصور کرتی تھیں ایوانِ وزیراعظم کے اندر اسٹیبلشمنٹ مخالف صحافیوں، قلم کاروں اور ٹی وی اینکرز کی فوج ظفر موج اکٹھی کر لی اور سرکاری خزانے کی بوریوں کے منہ کھول دیئے۔ اس سے سو ڈیڑھ سو سائیکل سوار نام نہاد صحافی مرسڈیز اور بی ایم ڈبلیو پر آ گئے لیکن مغلیہ دور کے ان بیربل اور مُلا دو پیادوں نے مسلم لیگ ن کے اقتدار کے تابو ت میں آخری کیل ٹھونکنا شروع کر دیئے اور اسی دوران ڈان لیکس جیسا بدنامِ زمانہ سکینڈل سامنے آیا، جس دوران ملکی سلامتی کے اداروں اور حکومتی ایوانوں کے درمیان رہا سہا تکلف اور بھرم ختم ہو گیا۔ اس دوران فوج کی بیرکوں میں کھلم کھلا حکومت کےخلاف نعرے بلند ہونا شروع ہو گئے اور پھر پاک فوج کے اندر پائے جانےوالے اس اشتعال کو کول ڈاﺅن کرنے کیلئے وزارتِ خارجہ کے مشیر طارق فاطمی اور وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کی قربانی دی گئی۔ خود حکومتی حلقے بھی اپنے اندر پائے جانے والے اشتعال کو نہ چھپاسکے اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کو اپنا ہی کیا ہوا ایک ٹویٹ واپس لینا پڑا۔ اس دوران جنرل قمر باوجوہ پاک فوج کی کمان سنبھال چکے تھے۔ جن کی تعیناتی پر ن لیگی ایوانوں میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے مگر ن لیگ کی قیادت یہ بھول گئی کہ جنرل قمر جاوید باوجوہ پاک فوج کے اندر پائے جانےوالے اشتعال اور نفرت کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔ اس دوران میاں نوازشریف صاحب جو کہ پانامہ سکینڈل اور اسکے آفٹرشاکس سے انتہائی لاغر ہو چکے تھے وہ عدلیہ ا ور نیب کے مزید جھٹکوں کو نہ سہہ پائے اور جولائی کے آخر میں اپنے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے ،جس کے بعد میاں صاحب اور انکے خاندان نے فوج کو اپنا تختہ مشق بنا لیا اور واضح طور پر فوج کےخلاف اعلانِ جنگ کر دیا گیا اور پھر میاں نوازشریف صاحب کی جانب سے فوج کےخلاف تقریریوں اور بیانات کا سلسلہ شروع ہوا اور مریم صفدر نے بھی ایسا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا حتی کہ اس دوران پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو بمبئی حملہ کیس میں حق بجانب قرار دیا گیا اور دوسری طرف اپنے ہی ملک کے اداروں کو اس سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرا یاگیا اور مریم بی بی نے متعدد مواقع پر حسینہ واجد کا رول پلے کرنے کی کوشش کی جبکہ میاں صاحب کے نااہل ٹھہرائے جانے کے بعد میاں شہبازشریف صاحب کی طرف سے اس جلتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی بہت کوشش کی گئی۔ پاکستان کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا گواہ ہے کہ آج بھی میاں صاحب کے بیانیے اور میاں شہبازشریف کے بیانئے میں ایک واضح فرق پایا جاتا ہے۔ شاید میاں شہبازشریف جنہوں نے پنجاب پر تیس سال حکومت کی ہے وہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی طاقت اور ان کے اثرات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔
قارئین! پاکستان کی مسلح افواج اور آئی ایس آئی ہمارافخر ہیں ہمیں فخر ہے کہ تیسری دنیا کا ایک رکن ہونے کے اور معاشی طور پر تنگ دسست ہونے کے باوجود یہ پاک فوج اور آئی ایس آئی ہی ہے جنہوں نے پاکستان کے نیوکلیئر سٹیٹ کا درجہ دلوایا اور خود امریکہ اور یورپین ممالک اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ آئی ایس آئی دنیا کی نمبرون خفیہ ایجنسی ہے اور پاک فوج اپنے محدود وسائل کے باوجود وطن عزیز کی سلامتی کی ضامن ہے جبکہ ہمارے تینوں اطراف یعنی بھارت، افغانستان اور ایران کی غیر محفوظ سرحدیں ہیں اور افغان پناہ گزینوں کی موجودگی میں ملک کے اندر امن و امان کا مسئلہ انتہائی تشویشناک ہے ۔ خود انڈیا نے اپنی آٹھ لاکھ افواج کو کشمیر میں تعینات کر رکھا ہے۔ تین ہزار کلومیٹر سے زائد لمبے افغانستان کے ساتھ بارڈر کو محفوظ بنایا جا رہا ہے۔ان حالات و واقعات کی روشنی میں پاک فوج اور ہمارے ملکی سلامتی کے ادارے اب تک دس ہزار اعلیٰ افسروں اور جوانوں کی قربانی دے کر ہماری راتوں کی نیند کو پُرسکون بناتے ہیں۔اسی لئے ہم کہتے ہیں۔
اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں
قارئین! راقم پینتیس سے انٹرنیشنل انٹیلی جنس اداروں سے منسلک رہا ہے اور میں نے یہ دیکھا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، یورپ ہو یا عرب وہاں یہ بات قابل فخر سمجھی جاتی ہے کہ کوئی شخص اپنی سلامتی کے اداروں کو عزت بخشتا ہے اوریہ باعثِ فخر ہوتاہے اگر پاک فوج کا وجود ہے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت شامل حال ہے تو میرا خاندان اور میر املک محفوظ ہے۔ ورنہ ہمارے دشمن مگرمچھ کی طرح منہ کھولے ہمیں للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ قارئین! اگر ملکی سلامتی اداروں کو پیار کرنا جرم ہے تو مجھے یہ فخر ہے کہ مطلوب وڑائچ پاک فوج اور آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہے۔