ن لیگ سے نئی مسلم لیگ تک
دلچسپ بلکہ نہایت ہی دلچسپ کہ میاں نواز شریف کو ”خلائی“ مخلوق بہت مدت سے دکھائی دیتی رہی ہے جبکہ میاں شہباز شریف کسی ایسی خلائی مخلوق سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔ ن لیگ سے لاتعلق ہو کر بلکہ ٹکٹیں واپس کر کے آزاد امیدوار بننے کو ترجیح ملی ہے۔ الگ ہونے والوں نے تحریک انصاف میں شمولیت نہیں کی بلکہ اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہے۔ ”جیپ“ کا نشاں ان آزاد مگر سابق مسلم لیگی امیدواروں نے حاصل کیا ہے۔ کیا یہ مایوس کن ہے یا لوٹا ازم ہے؟ جی بالکل بھی نہیں۔ وہ شخصیات جو زور جاگیر، تھانے ، کچہری میں تعلقات کی بناءپر یا خاندانی طور پر اکثر الیکشن لڑتے اور جیتتے ہیں وہ شکست سے دوچار ہوتی، اقتدار سے محروم ہوتی قیادت اور پارٹی سے ہمیشہ ہی اکثر دوری اختیار کر کے متوقع اقتدار پارٹی میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ پی پی پی کی کئی شخصیات جنوبی پنجاب کی خاندانی سیاست کی مضبوط شخصیات نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے ان کو ٹکٹ بھی مل چکے۔ اس عمل کو خاکی مخلوق کی کارستانی کہنا ازراہ تفنن طبع تو ٹھیک ہے مگر جب اسد خان جونیجو اور مشاہد حسین سید (ن) لیگ میں شامل ہو کر دونوں ہی اسلام آباد سے سینیٹر بھی بن جائیں تو کیا یہ خلائی مخلوق کا کارنامہ نہیں کہلائے گا؟ اگر یہ دونوں حضرات جو ق لیگ میں تھے، ق لیگ کی اقتدار سے محرومی کی صورتحال ٹکٹ تلاش اقتدار میں ن لیگ میں شامل ہوئے، جاتی امراءمیں نواز شریف سے ملاقات کر کے تو ان دونوں کو ن لیگ میں قبول کر کے فوراً سینیٹر بنوانا کیا نواز شریف کا قابل تعریف کارنامہ تھا؟ اگر خود نواز شریف نے مشرف کی بنائی ہوئی ق لیگ سے وافر مقدار کو ن لیگ میں قبول کیا تھا، انہیں ٹکٹیں اور وزارتیں دیکر پارلیمانی طور پر استعمال کیا تو کیا یہ لوٹا ازم کا فروغ نہ تھا؟ اسلام آباد میں سچے اور مخلص لیگی دھکے کھاتے ہوئے رل گئے مگر انہیں کبھی کسی نے سینیٹر بنوایا نہ ایم این اے کا ٹکٹ دیا نہ میئر بنوایا....مگر دولت مندوں یا اقتدار کے لئے ہجرت کرنے والوں یا خوشامدیوں کو خود نواز شریف نے نوازا....کیا یہ عمل کہیں ”ردعمل“ کو جنم نہیں دیتا؟ دیتا ہے، چودھری نثار ، زعیم قادری، چودھری عبدالغفور کی بغاوتیں جائز اور فطری ردعمل ہی تو ہیں۔
کیا ان سب کو خلائی مخلوق نے صراط مستقیم سے ہٹا کر مخالفت پر آمادہ کیا ہے؟ ”ردعمل“ کیا بھارہ کہو کے لیگی ملک شجاع الیکشن کمشن میں ن لیگ کے صدارتی انتخاب کے غیر آئینی ہونے کی درخواست لے گئے ہیں تو یہ بھی ردعمل ہی ہے۔ جن لیگی شخصیات نے ن لیگ کے ٹکٹ واپس کر کے تحریک انصاف میں شمولیت کی یا آزاد امیدوار ہے بنے انہوں نے اپنا سیاسی استحقاق ذرا دانش مندی سے ا پنا لیا تو اس کا طعنہ خلائی مخلوق کو کیوں کر دیا جا سکتاہے؟ اگر ایک زمانے میں خود نواز شریف نے محمد خاں جونیجو صدر مسلم لیگ سے لاتعلق ہو کر خلائی مخلوق کے ذریعے دوبارہ نگران وزیر اعلیٰ بننا قبول کیا تھا۔ اس ”طاقت“ کو خلائی مخلوق کہا جائے گا یا جب وہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل جیلانی کے عہد گورنری میں وزیر بنے تھے تو آئی ایس آئی سے تعلق رکھنے والے میجر جنرل حیات (سابق صدر آزاد کشمیر) کی وساطت سے ان کا جنرل جیلانی گورنر کا وزیر بننا خلائی مخلوق کا کردار تھا۔ مگر آج مسلسل اور غلط دلائل کے ساتھ غلط ذاتی رویوں کی شکست فاش اور انہدام کو وہ خلائی مخلوق کے نام منسوب کرتے ہیں جبکہ مریم کے برقی پیغامات نے ”ردعمل“ میں کلثوم نواز شریف کی بیماری کے حوالے سے مخالفانہ اور منفی رحجانات کو پیدا اور فروغ دیا ہے....ن لیگ سے بغاوت کرتے افراد ”خیر“ اور ”زندگی“ کی علامت ہیں۔
اسی طرح پی پی پی کے وہ افراد اور شخصیات جنہوں نے آصف زرداری کے ٹکٹ واپس کئے انہوں نے بھی اپنا استحقاق درست استعمال کیا ہے اور ٹکٹ واپس کرکے عمل سے مستقبل کی نشاندہی کی ہے۔ تحریک انصاف میں الیکٹ ایبلز کی آمد سے نظریاتی تحریکی کارکنوں کا ٹکٹوں کے لئے استردار ہونا اور ان کا دھرنا احتجاج بالکل جائز راستہ ہے۔ مگر جہاں احتجاج اور دھرنا اپنی ہی پارٹی قیادت یا فیصلہ سازوں کے خلاف ”زندگی“ کی علامت ہے اور ”خیر“ کی بات ہے وہاں ایک معاملہ زیادہ تشویشناک اور مایوس کن یہ بھی ہے کہ اب اقتدارمیں آنے ، الیکشن کی ٹکٹ حاصل کرنے کا راستہ صرف بہت زیادہ مادی وسائل، دولت مندی، جاگیر، صنعت ہے، جو بہت زیادہ مالی تحائف پارٹی قیادت کو دیکر ٹکٹ خرید سکے یا جو بہت زیادہ خوشامد کر کے اپنی عزت نفس کو کچل سکے اسے ٹکٹ، منصب آسانی سے مل جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پارٹیوں کا انتخابی اور سیاسی عمل، عوام، پارٹی کے مخلص ، نظریاتی مگر جاگیر ، دولت، صنعت اور خوشامد کرنے سے محروم مگر نظریات کی خاطر بھوک، توہین برداشت کرنے والوں، اخلاقی اقدار اوراصولوںکے لئے زندگی وقف رکھنے والوں کے لئے منصب و اقتدار کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ”عذاب اہم“ جنرل ضیاءالحق سے شروع ہوا اور اب تک تو ”عذاب عظیم“ بھی بن چکا ہے۔ اس انداز سیاست جس کو خاکیوں نے فروغ دیا، سے کوئی مہاتیر محمد اور طیب اردوان پیدا نہیں ہوتا ۔ اس روش میں اسحاق ڈار بیمار ہو بھی تو سینیٹر بنتے ہیں۔ مالدار خاندان کا نوخیز امریکہ میں سفیر تو بنتاہے مگر ملکی اور عوامی مفاد قبرستان میں جا بستے ہیں۔ پاکستان کیااب قبرستان کے لئے ہمیشہ ہی وقف رہے گا؟
اگرچہ شہباز شریف سچ مچ کا صدر بنا کر اپنے نظریات کو کبھی قومی حکومت کبھی نئے عمرانی معاہدے کی صورت دیکر سامنے لا رہے ہیں۔
مگر افسوس وہ وقت گزر جانے کے بعد یہ ”کردار“ سامنے لائے ہیں۔ اب اس نئے کردار کے شہباز شریف کے لئے بھی وقت کی لوح پر اقتدار نام کی کوئی لکیر موجود نہیں جبکہ چودھری نثار علی موجود بھی ہیں اور نظر بھی آئیں گے۔ واضح طور پر تمام تر اندرونی خلفشار کے باوجود تحریک انصاف ہی اقتدار کے لب بام آتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ مرحلہ ن لیگ سے ہضم نہیں ہو رہا نہ ہی ہو گا۔ آخر 34 سالہ اقتدار ایک کھلاڑی کے ہاتھوں یوں اختتام پذیر ہو جو....بڑاجاگیردار ہو نہ صنعتکار نہ اس کے پاس قارونی خزانے نہ بیرون ملک جائیدادیں،محض قوت ارادی کے اسپ تازی کی سواری عملاً تحریک انصاف صرف پانی کا ایک بلبلہ ہے پارٹی نہیں ہے، جبکہ مسلم لیگ ایک تاریخ ایک روایت کا نام ہے۔ ممکن ہے ”چیپ“ گروپ آگے جا کر نئی لیگ کا راستہ بنے جس میں 1985ءمیں محمد خاں جونیجو کی زیر قیادت غیر پارٹی اراکین اسمبلی نے مسلم لیگی بنائی تھی تو کیا 1985ءواپس لوٹ آیا ہے نئی مسلم لیگ کے لئے؟
پس تحریر: اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، وزیراعظم ناصرالملک جو کہ سابق چیف جسٹس ہیں اور چیف الیکشن کمشنر جو کہ سابق سپریم کورٹ جج ہیں اور چیئرمین نیب جاوید اقبال، سابق جج سپریم کورٹ عوام، ملک، سرزمین کو کچھ نہ دے سکے تو پھر معاملات دوبارہ سے ازخود بسبب انتشار انارکی (عدم استحکام) خاکی ذہن کے پاس چلے جائیں گے....
یہ وجدان و تجزیہ ہے نجوم نہیں....اور بین الاقوامی قوتیں اس کا خیرمقدم کریں گی۔
نوٹ: عمران خان اپنی جان کی بہت زیادہ حفاظت کریں۔