پاکستان کو جمہوریت کبھی راس نہیں آئی
الیکشن ہونے میں صرف 22 دن باقی رہ گئے ہیں۔ سب کو نظر آرہا ہے کہ اس مرتبہ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے مقدر میں بری طرح شکست لکھی ہے۔ جو عامل‘ نجوبی‘ جوتشی اور نام نہاد پیر یہ کہتے ہیں کہ (ن) لیگ جیتے گی‘ وہ اندھیرے میں تیر مار رہے ہیں۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ (ن) لیگ اس مرتبہ کسی طورپر نہیں جیت سکتی‘ لیکن وہ (ن) لیگ کی قیادت کو خوش کرنے اور انعام و اکرام کا لالچ میں ایسا کہہ کر مال بٹور رہے ہیں۔ ملک کے چاروں اطراف سے پیپلزپارٹی کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ ابھی کل بلاول بھٹو کی ریلی کو روک لیا گیا اور شدید پتھراﺅ کیا گیا۔ خواتین پانی کے مٹکے اٹھا کر لے آئیں اور نعرے لگائے۔ تھوڑی ہی دیر میں علاقہ میدان جنگ بن گیا۔ بلاول بھٹو نے ریلی سے ایک دن پہلے کہا تھا کہ میں یا آصف زرداری وزیراعظم بنیں گے۔ اس جملے اور اس سادگی یا عیاری پر بندے کو ہنسی نہ آئے تو کیا کرے۔ آصف زرداری کی حکومت کے پانچ سال سب کو منہ زبانی یاد ہیں۔ پورے پانچ سال ملک میں مہنگائی اور بیکاری کے کچھ نہیں کیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے سیاہ دن تھے۔ آصف زرداری کو سیاست تو آتی ہے‘ لیکن حکومت کرنی نہیں آتی۔ بینظیر بھٹو شہید جو ناحق اپنی جان سے گئیں‘ ان کے سفاکانہ قتل کو یہ کہہ کر ٹھنڈا کر دیا گیا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ کیا آپ کے دور میں جمہوریت تھی۔ کیا جمہوریت یہی تھی کہ آپ صدر پاکستان بن جائیں اور ایوان صدر کو انجوائے کریں۔ غیرملکی دوے کریں۔ کیا قاتلوں کو گرفتار کرنا آپ کی ذمہ داری نہیں تھی۔ کیا مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کو پکڑنا جمہوریت نہیں تھی۔ پیپلزپارٹی کا موٹو ہے کہ بھٹو زندہ ہے۔ اگر بھٹو زندہ ہے تو اس کے تینوں بچوں کو غیرطبی موت کیوں دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو زندہ ہے تو اس کی عظیم بیوی نصرت بھٹو پر دن رات ظلم کیوں ہوئے۔ وہ آخری دنوں میں پاگل ہوکر کیوں مریں؟ بلاول بھٹو کی تقریر میں انتہا درجے کا بچپنا ہوتا ہے۔ بلاول بھٹو آج بھی اندر سے بچہ ہے۔ 1988ءمیں ہونے والا یہ بچہ اگرچہ اب تیس سال کا ہونے والا ہے‘ لیکن اس میں میچورٹی کا شدید فقدان ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ پر حکومت کر رہی ہے‘ لیکن افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ کراچی جیسا عظیم الشان شہر کچرے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ جس شہر سے صنعتی ترقی خزانے کا منہ بھرتی تھی‘ وہاں کے لوگ بوند بوند پانی کو ترستے ہیں۔ گندا‘ غلیظ پانی سندھ کا مقدر بنا دیا گیا ہے جبکہ کراچی ایک بہت بڑے سمندر کا مالک ہے۔ بلاول نے تو کبھی اٹھ کر ایک گلاس پانی نہیں پیا‘ کبھی نوکری یا بزنس نہیں کیا مگر بلاول اربوں کی جائیداد کا مالک ہے۔ آصف زرداری نے پوری زندگی میں کبھی نوکری نہیں کی‘ لیکن وہ کھربوں کے مالک ہیں۔ یہی حال خورشید شاہ‘ شیری رحمن‘ ڈاکٹر عاصم ملک‘ مراد شاہ‘ قائم علی شاہ کے ہیں۔ دوسری طرف (ن) لیگ ہے جس کا 35 سالہ ٹریک ریکارڈ انتہائی مسخ شدہ ہے۔ 1990ءسے (ن) لیگ ہیوی مینڈیٹ سے کامیاب ہوتی ہے اور تین سال بمشکل حکومت کر پاتی ہے۔ نوازشریف کے ججوں‘ جرنیلوں اور جرنلسٹسوں سے جھگڑے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی دیکھئے کہ دونوں بھائیوں کا مزاج سرے سے جمہوری نہیں ہے۔ دونوں میں بلا کی آمریت ہے اور مزاج غضب کا شاہانہ ہے۔ ایک بڑا ٹولہ خوشامدیوں ‘ چاپلوسوں‘ ابن الوقتوں‘ منافقوں اور چالبازیوں کا ان کے ساتھ رہا ہے ۔ ایک وزیر بھی جوکہ قابل نہیں تھا۔ سب کی ڈگریاں چیک کر لیں۔ زیادہ تر انڈر میٹرک ہیں چند انٹر پاس اور گریجوایشن کی جعلی ڈگریوں کے ساتھ ہیں۔ شہبازشریف نے تمام عرصے میں مڈل‘ میٹرک‘ انٹر کو پرموٹ کیا ہے۔ ان کی تمام دانش‘ ”دانش سکولوں“ آشانہ سکیم‘ سستے تندور‘ لیپ ٹاپ‘ میٹرو‘ اورنج ٹرین میں کھپ گئی۔ عوام کو پہلے بنیادی سہولتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ صاف پانی‘ سستا آٹا‘ روزگار‘ پکی سڑکیں‘ حقیقی تعلیم‘ بنیادی صحت‘ مراکز عوام کی اولین اور بنیادی ترجیحات ہیں۔ پورے پنجاب کی سڑکیں ٹوٹی پڑی ہیں۔ جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں۔ نلکوں میں گندا غلیظ پانی آرہا ہے۔ نہ فٹ پاتھ ہیں نہ سڑکیں نہ ریل گاڑیاں ہیں نہ سیدھی صحیح پٹڑیاں‘ نہ سکول ہیں نہ سکولوں‘ کالجوں میں ٹیچر آتے ہیں۔ بچوں کے پاس بستے‘ کاپیاں‘ کتابیں نہیں ہیں‘ لیکن بچوں کو لیپ ٹاپ ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے ہیں۔ مڈل اور میٹرک پاس بچوں کو کروڑوں روپے سے غیرملکی دورے اور شاپنگ کراکے خادم اعلیٰ نے تعلیمی معیار کو آسمان سے پرے لے جا کر پھنک دیا۔ پورے کیا آدھے لاہور کی سڑکیں بنانا تو دور کی بات‘ ان کی مرمت بھی نہیں کرائی جا سکی۔ پورے لاہور میں کہیں بھی صاف پانی میسر نہیں۔ ہر ہسپتال میں ایک بیڈ پر تین تین مریض ہیں۔ عوام اب بلا کی باشعور ہو گئی ہے اس لئے پیپلزپارٹی ہو یا (ن) لیگ‘ سب لیڈروں کی انتخابی مہم پر ان سے سوال کر رہی ہے اور انہیں ان کی اوقات یاد دلا رہی ہے۔ اس بار انتخابی مہم چلانا اور ووٹ لینا آسان نہیں۔ اب ووٹر ایک ایک بات کا حساب کر رہا ہے اور جانتا ہے کہ اسے کئی بار بے وقوف بنایا جا چکا ہے۔ اس صورتحال میں عمران خان کیلئے کامیابی کا بہت بڑا راستہ کھل گیا ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ہیوی مینڈیٹ کا ڈرامہ اب نہیں چلے گا کیونکہ بڑے پیمانے پر فوج تعینات ہوگی۔ بلاشبہ جیت عمران خان کی ہی لکھی جا چکی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عمران خان کے اندر بھی ایک بہت بڑ ڈکٹیٹر چھپا ہوا ہے۔ عمران خان نے عزت‘ دولت‘ شہرت سب کے زندگی بھر مزے لوٹے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود عمران خان میں دولت کی بھوک ہے۔ شہرت کا شدید خبط ہے اور پروٹوکول کیلئے وہ کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ سادگی‘ ایمانداری‘ ذہانت‘ بہادری اور غیرت کی کمی پاکستان کے ہر لیڈر میں رہی ہے۔ اگر عمران خان واقعی ایک بڑے لیڈر ہوتے تو وہ تمام نئے اور اچھے لوگوں کو ٹکٹ دیتے۔ پارٹی میں لوٹے اکٹھے نہ کرتے۔ تبدیلی کیلئے آزمودہ‘ گامڑ اور چتر چالاک بابوں یا ان سب کی بیویوں بہنوں‘ بیٹیوں‘ بھانجیوں‘ بھتیجوں اور من پسند عورتوں کی جگہ جینوئن لوگوں کا انتخاب کرتے۔ ٹکٹ کا کوئی Critaria رکھتے کہ جس میں حب الوطنی‘ لگن‘ محنت‘ جذبہ‘ ایمانداری‘ ذہانت‘ اعلیٰ تعلیم ہوگی‘ اسے ٹکٹ دیا جائے گا‘ لیکن‘ عمران خان نے جہاں الیکٹیربلز کو پذیرائی دی‘ وہیں پارٹی لیڈروں کے اقربا خاص کو ٹکٹ دیئے ۔خود کچھ بھی نہ ہوکر جہازوں اور لگژری گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ وزیراعظم بن کر کیا نہیں کریںگے۔ اس لئے پاکستان کی 71 سالہ تاریخ میں کبھی کوئی لیڈر پیدا نہیں ہو سکا۔ جمہوریت کے لبادے میں بڑے بڑے آمر اور بادشاہ سلامت آئے سب کے سب ڈکٹیٹر ہیں۔ کیونکہ پاکستان کو کبھی جمہوریت راس نہیں آئی۔ پاکستان صرف اس وقت صحیح چلتا ہے جب سر پر ڈنڈا چلتاہے۔ جمہوری ہونے کیلئے بہت بڑے دل کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی کے پاس نہیں۔