منگل ‘ 18 شوال 1439 ھ ‘ 3 جولائی 2018ء
خلائی مخلوق کا عالمی دن منایا گیا‘ رانا ثناءاللہ بھی خلائی مخلوق سے پریشان
عالمی سطح پر خلائی مخلوق کا تصور اس قدر مستحکم ہے کہ سائنسدان کئی بار زمین سے دور دراز سیاروں تک طاقتور سگنل بھیج کر خلائی مخلوق سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حالانکہ اگر وہ ذرا سی زحمت گوارہ کر یں اور پاکستان آئیں تو یہاں انہیں ہر جگہ اس خلائی مخلوق سے براہ راست ملاقات کا شرف حاصل ہو سکتا ہے۔سب سے پہلے 1947ءمیں آسمان پر سے گرنے والے دھات کے ٹکڑوں نے اس تخیل کو مزید مضبوط کیا اور سائنسدان اس طرف متوجہ ہوئے کہ یہ ٹکڑے زمین کی کسی دھات کے نہیں کسی دوسرے سیارے سے آئے ہیں۔ اب 1947ءپاکستان کے قیام کا سال بھی ہے‘ شاید اس وجہ سے یہاں بھی خلائی مخلوق کا پراسرار کردار ہر کام میں لوگوں کو بنا کسی دوربین کے نظر آتا ہے۔ خاص طورپر الیکشن کے حوالے سے تو اس خلائی مخلوق کی دست درازیاں اتنی زیادہ ہیں کہ لوگوں نے اس مخلوق کو فرشتے قرار دیکر ان کے تقدس کو بھی تسلیم کر لیا ہے مگر جیسے جیسے شعور بیدار ہوتا جا رہا ہے‘ لوگوں کو اب الیکشن میں خاص طورپر اس مخلوق کی پراسرار مداخلت سے چڑ ہونے لگی ہے۔ پنجاب کے سابق وزیرقانون رانا ثناءاللہ بھی میاں نوازشریف کی طرح اس مخلوق کے ہاتھوں سخت پریشان اور خوفزدہ ہیں۔ وہ بھی اس مخلوق کو سیاسی عمل میں مداخلت سے باز رہنے کا کہہ رہے ہیں۔ مگر دل ہی دل میں وہ بھی جانتے ہیں کہ ایسا صرف کہا جا سکتا ہے ہو نہیں سکتا کیونکہ جس بلا کے منہ کوخون لگ جائے تو پھر اس کی پیاس صرف خون سے ہی بجھ سکتی ہے۔ پہلے سیاستدانوں نے خود اس مخلوق کو یہ راہ دکھائی‘ کام سکھایا سو یہ بلا اب زکوٹا جن کی طرح میں کیا کروں‘ میں کس کو کھاﺅں‘ مجھے کوئی کام بتاﺅ کہتے ہوئے ادھر ادھر بھاگتی دوڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
....٭٭........٭٭....
کرتب دکھانے والا ڈولفن فورس کا اہلکار معطل
کس نے کہا تھا حضرت کو کہ اپنی مہارت دنیا کو دکھانے کیلئے ویڈیو بنائے اور وائرل کرے۔ اب بھگتیں نتیجہ۔ جرم گرچہ اتنا سنگین نہیں کہ اس نادان ڈولفن اہلکار کو الٹا لٹکایا جائے‘ تاہم معطلی بھی کافی کڑی سزا ہے۔ یہ سزا توان اہلکاروں کیلئے ہونی چاہئے جو سرعام لوگوں کے ساتھ بدتمیزیاں کرتے ہیں‘ ہاتھا پائی پر اتر آتے ہیں یا مار پیٹ کر کسی کو انسان ہوتے ہوئے بھی دنبہ اور کسی کو مرغا بھی بناتے ہیں۔ جب ان سے رعایت برتی جا سکتی ہے تو یہ اہلکار بھی رعایت کا حقدار ہوسکتا ہے۔ سلفیوں کی بیماری نے ہر جگہ اندھیر مچا رکھا ہے۔ جہاں دیکھیں منہ بگاڑ بگاڑ کر لوگ چھتوں‘ سڑکوں‘ پلوں‘ پہاڑوں‘ ٹرینوں ‘ پٹڑیوں پر اور دریاﺅں میں سلفیاں بنا رہے ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں سلفیاں بناتے ہوئے اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ وہ ہوش تک میں نہیں رہتے‘ یہی وجہ ہے کہ آئے روز دریا میں ڈوب کر پہاڑوں‘ چھتوں‘ پلوں اور ٹرینوں سے گر کر مرنے والوں کی خبریں عام ملتی ہیں مگر لوگ باز نہیں آتے۔ اب اس ڈولفن اہلکار نے دوران ڈیوٹی اتنی مہارت دکھائی ہے جس کی عام لوگ تو داد ضرور دیں گے‘ مگر ادارہ چونکہ بے داد ہے‘ اس لئے وہ ٹھیک ٹھاک خبر لے چکا ہے۔ شکر کریں معطلی کی سزا ملی ہے۔ اگر نکال دیا جائے تو موصوف کو پھر صرف موت کے کنویں میں ہاتھ چھوڑ کر یا سرکس میں گول دائرے میں ہاتھ چھوڑ کر موٹرسائیکل چلانے کی ہی نوکری مل سکتی تھی۔
نگران وزرائے اعلیٰ نے بھی اثاثے ظاہر کر دیئے
ملک کے چار نگران وزرائے اعلیٰ نے اپنے اثاثے ظاہر کر دیئے ہیں جو ایک اچھا عمل ہے مگر یہاں بھی وہی صورتحال ہے جو سیاستدانوں کے اثاثوں کے حوالے سے سامنے آرہی ہے۔ میڈیا والے اور عوام اس پر چیں بجبیں ہیں۔ کہنے کو نگران حکومتوں کے نامزد افراد کو نہایت تقدس کا لبادہ پہنایا گیا‘ انہیں نیک لوگوں کے زمرے میں شامل سمجھا گیا مگر وہ بھی عام لوگوں جیسے نکلے۔ ان چاروں وزرائے اعلیٰ نے اپنے اثاثوں کی تفصیل میں کروڑوں کے بنگلوں اور اربوں کی اراضی کی قیمت سکہ رائج الوقت کے بجائے وہی برسوں پرانی درج کی ہے جو آج سے 50 برس پہلے کی تھی۔ ظاہر شدہ اثاثوں کی فہرست میں سندھ کے نگران وزیراعلیٰ امیر ترین جن کے پاس ساڑھے 13 کروڑ کے اثاثے ہیں۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ غریب ترین ہیں جن کے پاس صرف 48 لاکھ 90 ہزار روپے کے اثاثے ہیں۔ ان سب کی ایک بات ضرور مشترکہ ہے۔ ان کے گھرں میں صرف چند ہزار یا چند لاکھ کا فرنیچر ہے جبکہ ان کے گھر بمشکل 20 یا 30 لاکھ کے ہیں۔ یہی حال ان کے پلاٹوں کا بھی ہے جن کی قیمت مہنگے علاقوں میں ہونے کے باوجود صرف چند لاکھ ہے۔ سونا چند سو گرام سے زیادہ کسی کے پاس نہیں۔ مری‘ کراچی‘ گوادر‘ لاہور‘ پشاور میں کوئی مائی کا لال ہے جو صرف دس مرلے یا ایک کنال کا گھر 20 یا 30 لاکھ میں لیکر دکھائے۔ ان کے تو عالی شان ڈرائنگ روم کے صرف صوفے ہی لاکھوں کے ہوتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے ان لوگوں کی کروڑوں کی جائیدادیں صرف چند لاکھ کی کیسے ہو جاتی ہیں۔ یہ عجیب معمہ ہے۔ اثاثہ جات ظاہر کرنے کے فارموں میں سابقہ اور موجودہ قیمت دونوں لکھنا ہوتی ہیں۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ ڈنڈی ماری جا رہی ہے مگر روکتا کوئی نہیں۔ معلوم نہیں ان پر 62 اور 63 لاگو ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر ہوتا ہے تو کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔کیا 62‘ 63 صرف سیاستدانوں کیلئے ہے‘ دوسرے حکمرانوں کیلئے نہیں۔
....٭٭........٭٭....
الماس بوبی 11 کروڑ کے اثاثوں کی مالک نکلی
حیرت کی بات ہے جہاں بڑے بڑے لوگ سارے ملک میں ٹیکس چوری کو فن سمجھتے ہیں‘ وہاں اپنے فن سے روزی کمانے والی تیسری جنس کی نمائندہ رہنما الماس بوبی نے بھی اپنے اثاثے ایمنٹسی سکیم کے تحت ظاہر کر کے نئی مثال قائم کی ہے۔ الماس بوبی کی یہ مثال ہمارے بڑے بڑے سرمایہ داروں، جاگیرداروں‘ صنعتکاروں اور تاجروں کےلئے مشعل راہ ہے۔ جو کروڑوں روپے رشوت دے کر اربوں روپے ٹیکس چھپا کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بڑا تیر چلا لیا۔ ایمنسٹی سکیم کے تحت فارم جمع کرانے والے سے ذرائع آمدن پوچھا نہیں جاتا اور نہ ہی اس کا نام پتہ شائع کیا جاتا ہے مگر الماس بوبی کے ساتھ یہ زیادتی کی گئی کہ راولپنڈی ٹیکس آفس کے ایک اہلکار نے اس کی تصویر کے ساتھ یہ معلومات فیس بک پر ڈال دیں۔ امید ہے ادارے والے اس زیادتی کا سخت نوٹس لیں گے۔ جہاں ملک بھر میں خواجہ سراو¿ں کو تیسری جنس تسلیم کرتے ہوئے انہیں بے شمار حقوق اور سہولتیں دی جاری ہیں‘ اب وہ براہ راست الیکشن تک لڑ رہی ہیں تو وہاں یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ وہ ایمانداری سے ٹیکس بھی ادا کر رہے ہیں۔ ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے نہ کہ حوصلہ شکنی۔