انتخابات کا بائیکاٹ مہلک غلطی ہوگی
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف نے الیکشن کے بائیکاٹ کی خبر کو شرانگیز قرار دیتے مسترد کر دیا۔ ٹوئٹر پر انہوں نے کہا مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے الیکشن میں حصہ لینے کےلئے مطالبات پیش کئے جانے کی خبر شرانگیز ہے۔
سوشل میڈیا پر فلوٹ ہونے والی خبر کچھ میڈیا اداروں کی طرف سے ذرائع کے حوالے سے نشر اور شائع کی گئی۔ اس خبر میں کہا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے تین شرائط رکھی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو عہدے سے ہٹایا جائے۔ فوج کو انتخابی عمل سے باہر کیا اور نااہل ہونے والوں کو اہل قرار دیکر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔ آخری مطالبہ تو کوئی فاترالعقل ہی کر سکتا ہے۔ ایسے موقع پر جب امیدواروں کی حتمی فہرست شائع ہونے والی ہے‘ نااہل ہونے والوں کو اہل قرار دیکر انتخابی شیڈول پر نظرثانی ممکن نہیں ہے۔ ایسی خبر واقعی شرانگیز ہے۔ مسلم لیگ (ن) جیسی بڑی اور میچور پارٹی کی طرف سے ایسی سوچ کا سامنے آنا ممکن نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ (ن) لیگ کے حامی حلقوں نے خبر چلائی ہے تو پارٹی کے ساتھ انکی طرف سے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کی بھی نادانی ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کی طرف سے انتخابات کا بائیکاٹ سرے سے کسی بھی صورت میں آپشن نہیں ہونا چاہئے۔ بائیکاٹ کسی بھی پارٹی کیلئے سرطان جیسے نقصان سے کم نہیں۔ پیپلزپارٹی نے 1986ءمیں کسی کے بہکاوے میں آکر بائیکاٹ کر دیا تھا جس کے منفی نتائج کا اسے آج تک سامنا ہے۔ یہی غلطی میاں نوازشریف کی سربراہی میں بننے والے اتحاد اے پی ڈی ایم دہرانے والا تھا۔اسکی طرف سے 2008ءکے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا گیا تھا‘ تاہم مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ہوش کے ناخن لیتے ہوئے بائیکاٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا جس پر اسے جماعت اسلامی‘ تحریک انصاف اور پختونخوا ملی پارٹی کی طرف سے شدید تنقید اور ملامت کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی بھی پارٹی خصوصی طورپر مسلم لیگ (ن) کو بندھے ہاتھ پاﺅں کے ساتھ بھی انتخابات میںجانا پڑے تو ضرور جائے۔ بائیکاٹ نو آپشن۔