نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام نظریاتی سمر سکول کا 18واں تعلیمی سیشن زور و شور سے جاری ہے جس میں 6تا 13سال کی عمر کے طلباءو طالبات کی نظریاتی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مختلف تعلیمی اداروں اور طبقات سے تعلق رکھنے والے یہ بچے ایک ایسا قومی گل دستہ ہیں جس میں پاکستانیت کی خوشبو رچی بسی ہے۔ ان طلباءو طالبات کو مختلف النوع سرگرمیوں کے ذریعے پاکستان کی اسلامی نظریاتی اساس‘ دو قومی نظریے یا نظریہ¿ پاکستان اور وطن عزیز کے بارے امتیازی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ انہیں لاہور کے تاریخی مقامات اور قومی اہمیت کی حامل جگہوں کا بطور خاص مطالعاتی دورہ کرایا جاتا ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ روز انہیں گریٹر اقبال پارک کی سیر پر لے جایا گیا جس کے دوران انہوں نے نہ صرف مزارِ اقبالؒ پر حاضری دی بلکہ بادشاہی مسجد اور مینارِ پاکستان کا بھی دورہ کیا۔ اس مقصد کے لیے انہیں نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کی ٹرانسپورٹ میں پہلے قذافی سٹیڈیم لے جایا گیا جہاں سے ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب (TDCP) کی فراہم کردہ دو عدد نہایت دلکش رنگ و روپ کی حامل ایئرکنڈیشنڈ ڈبل ڈیکر بسوں میں سوار کیا گیا جو ملک و بیرونِ ملک سے آنے والے اُن سیاحوں کے لیے مخصوص ہیں جو لاہور جیسے تاریخی شہر کے خوبصورت مقامات دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔اس مطالعاتی دورہ کے لیے ٹی ڈی سی پی کے جنرل منیجر اسجد غنی کی ذاتی دلچسپی کا تذکرہ ضروری ہے۔ جب انہیں آگاہ کیا گیا کہ نظریاتی سمر سکول کے بچے مذکورہ بالا مقامات کا دورہ کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے فوراً تعاون کی حامی بھرلی اور بچوں اور اُن کے اساتذہ کرام کو مکمل سیکورٹی بھی مہیا کی۔ ان کا یہ تعاون ان کی نظریہ¿ پاکستان سے محبت کا غماز ہے۔ شدید گرمی اور حبس کے موسم میں بچوں کو ان انتہائی آرام دہ بسوں میں سفر کا جو لطف آیا، اسے الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ اس کرم فرمائی پر یہ معصوم بچے اسجد غنی اور اُن کے محکمہ کے متعلقہ اہلکاروں کے لیے ہمیشہ دعا گو رہیں گے۔
بچوں کے اس سفر کا آغاز قذافی سٹیڈیم سے ہوا اور فیروزپور روڈ سے نہر کنارے آگے بڑھتے گئے، حتیٰ کہ شاہراہِ قائداعظمؒ پر پہنچ گئے۔ شہر لاہور کی اس خوبصورت ترین شاہراہ پر واقع اہم عمارات کا نظارہ کرتے یہ نظریاتی قافلہ آزادی چوک تک جا پہنچا۔ دورانِ سفر بس میں ملی نغمے اور پنجاب کے لوک گیت گونجتے رہے جن سے بچے اور بڑے یکساں محظوظ ہوئے۔ وہاں سے انہیں مزارِاقبالؒ پر لے جایا گیا جہاں پاکستان رینجرز کے چاق چوبند افسروں اور جوانوں نے ان کا خیرمقدم کیا۔ بچوں نے حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے مزار پر حاضری دی، بلندی¿ درجات کے لیے فاتحہ خوانی کی اور ان کی مشہور و معروف نظم ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری“ پڑھی۔انہوں نے مفکرِ پاکستان کی ملّی و قومی خدمات پر انہیں خراجِ عقیدت بھی پیش کیا۔ پاکستان رینجرز کے اس تعاون پر نظریاتی سمر سکول کی انتظامیہ اور طلبہ تہہ دل سے اُن کے ممنون ہیں۔ مزارِاقبالؒ پر حاضری کے بعد بچوں نے تاریخی بادشاہی مسجد دیکھی اور اس کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر گروپ فوٹو بنوائی۔ بعدازاں برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے جاہ و جلال کے مظہر شاہی قلعہ کے صدر دروازے کے باہر اُن کا گروپ فوٹو بنایاگیا۔
طلبہ کو گریٹراقبالؒ پارک میں اس مقام پر بھی لے جایا گیا جہاں 23مارچ1940ءکو آل انڈیا مسلم لیگ کا 27واں سالانہ اجلاس منعقد ہوا تھا اور جس میں پورے ہندوستان سے آئے نمائندہ مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زیرِ صدارت قراردادِ پاکستان منظور کی تھی۔ تحریکِ پاکستان کے گولڈمیڈلسٹ کارکن صوفی اللہ دتہ نے طلبا و طالبات کو بتایاکہ یہ عظیم الشان مینارِ پاکستان عین اس جگہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں اس تاریخ ساز اجلاس کا سٹیج واقع تھا۔ انہوں نے بچوں کو اس اجلاس میں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے خطاب کی روشنی میں قراردادِ پاکستان کے پس منظر، اہمیت اور مطالبہ¿ پاکستان کے جواز کے بارے میں بھی اہم معلومات فراہم کیں۔ مینارِ پاکستان کے اس مطالعاتی دورے کے لیے پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی(PHA) نے بھرپور تعاون کیا جس کامستعد عملہ مینارِپاکستان کے اردگرد ہمہ وقت کام میں مصروف دکھائی دیا۔یقینا ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب، پاکستان رینجرز اور پی ایچ اے کا تعاون شاملِ حال نہ ہوتا تو یہ سفر اتنا خوبصورت اور من موہ لینے والا ہرگز نہ ہوتا۔ دورے کے اختتام پر بچوں کو انہی ڈبل ڈیکر بسوںمیں سوار کرکے واپس قذافی سٹیڈیم لے جایا گیا جہاں سے وہ ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان آگئے۔
نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کی زیادہ تر سرگرمیوں کا محورومرکز نسلِ نو ہے کیونکہ یہ اسے پاکستان کا مستقبل سمجھتا ہے۔ نظریاتی سمر سکول کے انعقاد کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ طلباءو طالبات کو پاکستان کی عظمت سے روشناس کرایا جائے، ان میں پاکستانیت کے جذبات پیدا کیے جائیں اور انہیں وطنِ عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کے لیے تیار کیاجائے۔ الحمدللہ! اپنے اغراض و مقاصد کے لحاظ سے یہ سکول اس قومی نظریاتی ادارہ کی Success Storyہے جس کی داغ بیل پاکستان کے ایک بطلِ جلیل محترم مجیدنظامی نے ڈالی تھی۔ پاکستان سے پیار کرنے والے والدین اپنے بچوں کو اس نظریاتی یونیورسٹی میں بھیجنے کے لیے سال بھر انتظار کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس سکول میں ایک مہینہ گزارنے کے بعد اُن کے بچوں کی پاکستان کے متعلق آﺅٹ لُک میں واضح تبدیلی آجاتی ہے اور وہ خود کو پاکستان کی خدمت اور حفاظت کے لیے وقف کردینے کے عزمِ صمیم سے مالامال ہوجاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024