صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ وہ شہید بینظیر بھٹو کے قتل کا بدلہ نہیں لیں گے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے قائد اور اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری سے منسوب یہ جملہ بھی دہرایا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔جمہوریت کے ذریعہ جس طرح انتقام لیا جارہا ہے وہ سب پر واضح ہے لیکن بین الاقوامی شہرت یافتہ اور پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیرکے قتل کا بدلہ نہ لینے سے کیا مراد ہے، بدلہ نہ لینے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ قاتلوں کو معاف کردیا گیا،اب ان کا سراغ لگایاجائے گا اور نہ انہیں سزا دی جائےگی۔ بدلہ نہ لینے کے اعلان کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تحقیقات نہیں ہوگی۔جب بدلہ لینا ہی نہیں تو پھر تحقیقات کی کیا ضرورت؟اور وزیراعظم گیلانی صاحب فرما رہے ہیں کہ قاتل بچ نہیں سکیں گے۔اڑھائی سال ہوگئے اب تک تو بچے ہوئے ہیں جب صدر صاحب بدلہ لینے پر تیار نہیں تو پکڑ کر کیا کریں گے؟
صدر صاحب نے کچھ عرصہ قبل دعویٰ کیا تھا کہ وہ قاتلوں سے واقف ہیں۔ پھر کہا گیا کہ بینظیر کا قاتل بیت اللہ محسود ہے۔وہ مارا گیا،قصہ ختم۔جن لوگوں کو گرفتارکرکے رکھا گیا ہے ۔ان کے خلاف اب تک کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا۔تحقیقات کا فریضہ بڑے زور وشور سے اقوام متحدہ کو سونپا گیا تھا۔اقوام متحدہ کمیشن نے پاکستان کے عوام کی خون پسینے کی کمائی سے رقم لے کر مہینوں تحقیقات کی اور رپورٹ پیش کردی۔پہلے تو اس رپورٹ کو قابل اطمینان قراردیا گیا اور کہا گیا کہ ہم نے خود تحقیقات اس لیے نہیں کی کہ جانبداری کا الزام نہ آجائے،چنانچہ ایک بین الاقوامی ادارے سے تحقیقات کروائی گئی۔اس کی رپورٹ آنے کے دو ماہ بعد یہ انکشاف ہوا کہ رپورٹ تو ناقابل اعتبار ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے پیپلز پارٹی کی شہید چیئر پرسن محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ کو ناقابل اعتبار دینے کے بعد دیگر اہم شخصیات کے قتل کی طرح شہید بی بی کے قتل کیس کا بھی معمہ بننے کا امکان بڑھ گیا ہے۔حکومت نے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پر سنگین نوعیت کے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کولکھے گئے 26 صفحات کے خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے کمیشن کی معیاد پوری ہونے کے باوجود کمیشن کی توسیع بلا جواز تھی اور جن شخصیات سے انٹرویو لیا گیا ان کا دستاویزی ثبوت بھی فراہم نہیں کیا گیا۔علاوہ ازیں حکومت پاکستان نے جن غیرملکی شخصیات کے انٹرویو کرنے کی سفارش کی تھی کمیشن نے ان کے انٹرویو بھی نہیں کئے۔ انہی کالموں میں بینظیر بھٹو قتل کیس کے مقدمے کی تفتیش اعلیٰ ملکی اداروں کی بجائے اقوام متحدہ کے کمیشن سے کرانے مخالفت کی گئی تھی۔صائب الرائے افراد کی بڑی تعداد کی جانب سے اس حکومتی فیصلے کولاحاصل اور ناموزوں قراردیا گیا تھا اس کے باوجود حکومت نے کروڑوں خرچ کرکے اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کو بینظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات کیلئے مامور کیا اور بالآخر جونتیجہ سامنے آیا وہ نہ صرف مبہم تھا بلکہ اس رپورٹ میں صراحت کے ساتھ کسی پر ذمہ داری بھی عائد نہیں کی گئی۔
ہم نہیں دنیا کہتی ہے کہ شہید بینظیر بھٹو صرف پی پی پی کی قائد نہیں تھیں بلکہ وہ اس خطے اور دنیا کی ممتاز رہنما تھیں۔ ان کاقتل کیس اس طرح شکوک و شبہات کی نذر نہیں ہوناچاہیے۔المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں اب تک جتنی بھی اہم شخصیات کا پراسرار قتل ہوا ہے ان پر سے اسرارکے پردے کبھی بھی ہٹائے نہ جاسکے۔قاتل اور منصوبہ ساز کبھی بے نقاب نہ ہوسکے اور شاید بینظیر بھٹو کے قاتل بھی بے نقاب نہ ہوسکیں۔
بی بی سی کا کہنا ہے کہ زرداری بینظیر بھٹو کے قاتل پکڑنے سے خوف زدہ ہیں کیوں خوف زدہ ہیں اس پر بھی بی بی سی کو روشنی ڈالنی چاہیے تھی۔ بینظیر بھٹو کے قاتلوں کا سراغ لگانا صرف ان کے ورثاءاور پارٹی کارکنوں ہی کیلئے اہم نہیں بلکہ اس ملک کی سیاست اور جمہوریت کے استحکام کیلئے بھی لازمی ہے۔
شہید محترمہ بینظیر بھٹو نہ صرف عالمی لیڈر بلکہ قومی قائد تھیں۔اس لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض لیڈروں یا حکومتی شخصیات کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی مصلحت یا کسی کے ساتھ نام نہاد مصالحت اور مفاہمت کی آڑ میں ان کے خون ناحق کوفراموش کرنے کی کوشش کریں۔یہ پوری قوم کا مطالبہ ہے کہ جن عناصر نے بھی قوم کو اس عظیم قائد سے محروم کیا ہے۔انہیں بے نقاب کیاجائے اور انصاف کے کٹہرے میں لایاجائے۔
صدر صاحب نے کچھ عرصہ قبل دعویٰ کیا تھا کہ وہ قاتلوں سے واقف ہیں۔ پھر کہا گیا کہ بینظیر کا قاتل بیت اللہ محسود ہے۔وہ مارا گیا،قصہ ختم۔جن لوگوں کو گرفتارکرکے رکھا گیا ہے ۔ان کے خلاف اب تک کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا۔تحقیقات کا فریضہ بڑے زور وشور سے اقوام متحدہ کو سونپا گیا تھا۔اقوام متحدہ کمیشن نے پاکستان کے عوام کی خون پسینے کی کمائی سے رقم لے کر مہینوں تحقیقات کی اور رپورٹ پیش کردی۔پہلے تو اس رپورٹ کو قابل اطمینان قراردیا گیا اور کہا گیا کہ ہم نے خود تحقیقات اس لیے نہیں کی کہ جانبداری کا الزام نہ آجائے،چنانچہ ایک بین الاقوامی ادارے سے تحقیقات کروائی گئی۔اس کی رپورٹ آنے کے دو ماہ بعد یہ انکشاف ہوا کہ رپورٹ تو ناقابل اعتبار ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے پیپلز پارٹی کی شہید چیئر پرسن محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ کو ناقابل اعتبار دینے کے بعد دیگر اہم شخصیات کے قتل کی طرح شہید بی بی کے قتل کیس کا بھی معمہ بننے کا امکان بڑھ گیا ہے۔حکومت نے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پر سنگین نوعیت کے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کولکھے گئے 26 صفحات کے خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے کمیشن کی معیاد پوری ہونے کے باوجود کمیشن کی توسیع بلا جواز تھی اور جن شخصیات سے انٹرویو لیا گیا ان کا دستاویزی ثبوت بھی فراہم نہیں کیا گیا۔علاوہ ازیں حکومت پاکستان نے جن غیرملکی شخصیات کے انٹرویو کرنے کی سفارش کی تھی کمیشن نے ان کے انٹرویو بھی نہیں کئے۔ انہی کالموں میں بینظیر بھٹو قتل کیس کے مقدمے کی تفتیش اعلیٰ ملکی اداروں کی بجائے اقوام متحدہ کے کمیشن سے کرانے مخالفت کی گئی تھی۔صائب الرائے افراد کی بڑی تعداد کی جانب سے اس حکومتی فیصلے کولاحاصل اور ناموزوں قراردیا گیا تھا اس کے باوجود حکومت نے کروڑوں خرچ کرکے اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کو بینظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات کیلئے مامور کیا اور بالآخر جونتیجہ سامنے آیا وہ نہ صرف مبہم تھا بلکہ اس رپورٹ میں صراحت کے ساتھ کسی پر ذمہ داری بھی عائد نہیں کی گئی۔
ہم نہیں دنیا کہتی ہے کہ شہید بینظیر بھٹو صرف پی پی پی کی قائد نہیں تھیں بلکہ وہ اس خطے اور دنیا کی ممتاز رہنما تھیں۔ ان کاقتل کیس اس طرح شکوک و شبہات کی نذر نہیں ہوناچاہیے۔المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں اب تک جتنی بھی اہم شخصیات کا پراسرار قتل ہوا ہے ان پر سے اسرارکے پردے کبھی بھی ہٹائے نہ جاسکے۔قاتل اور منصوبہ ساز کبھی بے نقاب نہ ہوسکے اور شاید بینظیر بھٹو کے قاتل بھی بے نقاب نہ ہوسکیں۔
بی بی سی کا کہنا ہے کہ زرداری بینظیر بھٹو کے قاتل پکڑنے سے خوف زدہ ہیں کیوں خوف زدہ ہیں اس پر بھی بی بی سی کو روشنی ڈالنی چاہیے تھی۔ بینظیر بھٹو کے قاتلوں کا سراغ لگانا صرف ان کے ورثاءاور پارٹی کارکنوں ہی کیلئے اہم نہیں بلکہ اس ملک کی سیاست اور جمہوریت کے استحکام کیلئے بھی لازمی ہے۔
شہید محترمہ بینظیر بھٹو نہ صرف عالمی لیڈر بلکہ قومی قائد تھیں۔اس لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض لیڈروں یا حکومتی شخصیات کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی مصلحت یا کسی کے ساتھ نام نہاد مصالحت اور مفاہمت کی آڑ میں ان کے خون ناحق کوفراموش کرنے کی کوشش کریں۔یہ پوری قوم کا مطالبہ ہے کہ جن عناصر نے بھی قوم کو اس عظیم قائد سے محروم کیا ہے۔انہیں بے نقاب کیاجائے اور انصاف کے کٹہرے میں لایاجائے۔