وارث علمِ رسول حضرت امام محمد باقر

Jan 03, 2025

آغاسید حامدعلی شاہ موسوی

امام اہلسنت علامہ ابن حجر مکی اور مولانا عبد الرحمن جامی لکھتے ہیں کہ ایک بار رسولؐ خدا  اپنے پیارے نواسے حضرت امام حسین ؑ کو اپنی گود میں لے پیار کررہے تھے کہ صحابی رسول جابر بن عبداللہ انصاریؓ تشریف لائے آپ نے جابر ؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا اے جابرؓ میرے اس فرزند کی نسل سے ایک بچہ پیدا ہوگا جو علم سے بھرپور ہو گا اے جابر تم اس  کے زمانے تک زندہ رہو گے اس کا نام محمد ہے جو علم دین کی خوب اشاعت و تصریح کرے گا جب میرے اس وارث سے ملنا تو اسے میرا سلام کہنا۔جابر ؓنے اس پیش گوئی کے بعد اس ساعت کا بے چینی سے انتظار کرنا شروع کر دیا۔آپ نابینا ہوگئے لیکن ہر محفل و مجلس میں آپ کی زبان پر امام باقر کا نام رہنے لگا۔ایک مرتبہ امام زین العابدین کا گزر آپ کے پاس سے ہواجب آپ کے بیٹے امام باقر بھی آپ کے ہمراہ تھے تو آپ نے امام باقر کو حکم دیا کہ چچا جابر بن عبداللہ انصاریؓ کو سر کا بوسہ دو ۔آپ نے ایسا ہی کیا۔جابر ؓنے آپ کو سینے سے لگا  لیا اور فرمایا اے فرزند رسولؐ آپ کے جدہادی برحق ؐنے آپ کو سلام کہلوایا ہے ۔آپ نے ارشاد فرمایا ان پر اور آپ پر بھی میرا سلام ہو۔اس کے بعد حضرت جابر نے  اپنے لئے شفاعت کی درخواست فرمائی ( صواعق محرقہ ،تاریخ طبری ،شواہد النبوۃ)

حضرت امام محمد باقر یکم رجب 57ھجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔آپ کا اسم گرامی اپنے جد رسول خدا ؐ کی طرح ’’محمد‘‘ تھا۔ آپ کے والد گرامی امام زین العابدین علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب اور والدہ گرامی ام عبداللہ فاطمہ بنت اما م حسن ابن علی ابن ابی طالب تھیں ۔اسی بنا پر آپ کو ابن الخیرتین بھی کہا جاتا ہے ۔آپ وہ پہلی ہستی ہیں جنہیں نجیب الطرفین ہاشمی ، علوی  اور فاطمی ہونے کا شرف حاصل ہے  ۔آپ کے نانا امام حسن ؑ اور دادا امام حسینؑ ہیں۔آپ کی کنیت ابو جعفر اور القاب باقر ،شاکر اور ہادی وغیرہ تھے سب سے مشہور باقر تھا جس کا مطلب شق کرنے والا،شگافتہ کرنے والا اور وسعت دینے والا کے ہیں۔علامہ ابن حجرمکی صواعق محرقہ میں رقم طراز ہیں کہ آپ کوباقر اس لئے کہا گیا کہ آپ نے احکام الہیہ کے اندر جو حقائق و معارف کے خزانے پوشیدہ ہیں انہیں نمایاں کیا ہے اور انکی حکمتیں اور لطائف بیان کئے ہیں ۔آپ نے علم کو پھاڑا اسے جمع کیا اور اس کے جھنڈے کو بلند کیا ہے ۔آپ کی صفات بیان کرنے سے زبانیں درماندہ ہیں ۔
علامہ شبلنجی تحریر فرماتے ہیں ہیں کہ علم دین ،احادیث،سننن ،تفسیر قرآن ،علوم و فنون ادب کے ذخیرے جس قدر امام محمد باقر سے ظاہر ہوئے اتنے امام حسنؑ اور امام حسین ؑ کی کسی کی اولاد سے ظاہر نہیں ہوئے (نور الابصار ،کتاب الارشاد)سیرۃ النعمان میں مذکور ہے کہ حضرت ابو حنیفہ کی معلومات کا بڑا ذخیرہ امام محمد باقر کا فیض صحبت تھا۔امام صاحب نے ان کے فرزند رشید امام جعفر صادق کے فیض صحبت سے بھی بہت فائدہ اٹھایا۔آپ نے ابو بصیر لیث بن البختری المرادی ،ابو بصیر عبد اللہ بن محمد الاسدی ،ابو بصیر یحیی بن القاسم الاسدی ،محمد بن مسلم ثقفی کوفی ،زرارہ بن اعین اور امام ابو حنیفہ جیسے نابغہ روزگار سینکڑوں شاگرد پیدا کئے جن پر دنیائے علمیت سدا نازاں رہے گی ۔تاریخ کی کتب امام محمد باقر کے علمی کارناموں کے ساتھ معجزات و کرامات سے بھری پڑی ہیں ۔
حضرت ابو بصیر آنکھوں کی روشنی سے محروم ہو چکے تھے کہتے ہیں ایک روز میں نے  امام محمد بن علی الباقر سے کہا کہ آپ محافظ دین محمدؐ ہیں آپ نے فرمایا ہاں ۔میں نے کہا پیغمبر ؐ تو تمام انبیاء اور ان کے علوم کے وارث ہیں آپ نے فرمایا ہاں ۔میں نے کہا کہ وہ انبیا ء کے علوم آپ کو بھی ورثہ میں ملے ہیں تو آپ نے فرمایا ہاں ۔حضرت ابو بصیر نے کہا کہ آپ نابیناؤں کو بینا کرسکتے ہیں ۔آپ نے فرمایا کہ میرے سامنے آکر بیٹھ جاؤ اور آپ نے اپنا دست مبارک میرے چہرے پر پھیرا تو مجھے کوہ بیاباں اور زمین و آسمان کی وسعتیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگا  پھر آپ نے دوبار ہ ہاتھ پھیرا تو میں اپنی نابینائی والی حالت میں دوبار ہ آگیا ۔آپ نے مجھ سے پوچھا ان دو حالتوں میں سے کس حالت کو پسند کرتے ہو یہ ہ تمہاری آنکھیں درست ہو جائیں اور تمہارا حساب خدا کے سپرد ہو یا تمہاری آنکھیں نابینا ہی رہیں اور تم جنت الفردوس میں بغیر حساب کے چلے جا ؤ۔میں نے کہا کہ میں اس چیز کو پسند کرتا ہوں کہ نابینا ہی رہوں اور جنت میں بے حساب چلا جاؤں ۔(شوا ہد النبوۃ)
مسلمان ملکوں میں جوکا غذ رائج تھا وہ مصر میں تیار ہوتا تھا جس پر نصرانیوں کی حکومت کے زمانے سے رومی زبان میں روح القدس مسیح کا ٹریڈ مارک کندہ ہوتا تھا ایک  مرتبہ رومی بادشاہ قیصر روم کو رسول کریم ؐ کی شان میں گستاخی پر مبنی کلمات درہم و دینار پر کندہ کرا کر اسلامی ممالک میں پھیلانے کی سوجھی ۔یہ بات سن کر عبد الملک کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اس نے فوری طور پر علماء فضلا کو بلایا لیکن کوئی اس کا حل تلاش نہ کرسکا ۔آخر اپنے وزیر ابن زنباع کے کہنے پر مجبوراً اسے امام محمد باقر  سے رجوع کرنا پڑا ۔آپ نے اسے کہا کہ فورا ً ملک بھر سے کاریگروں کو جمع کرو ،ان سے درہم و دینار ڈھلوا کر ان کے ایک جانب کلمہ لا الہ اور دوسری جانب رسول خدا ؐکا اسم گرامی اور سن کندہ کراؤ ۔نیز آپ نے ان سکوں کے اوزان اور سانچوں تک کے متعلق بھی آگاہ فرمایا۔نیز فرمایا کہ درہم پر فارسی اور دینار پر حسب معمول رومی میں ہی کندہ کرایا جائے اور تمام اسلامی ممالک میں یہ حکم نافذ کردیا جائے کہ اب ان اسلامی سکوں کو ہی استعمال کیا جائے اور رومی سکوں کو خلاف قانون قرار دے دیا جائے ۔جو اس قانون کی خلاف ورزی کرے اسے کڑی سزا دی جائے ۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جب سفیر روم نے یہ بات قیصر تک پہنچائی تو وہ ہاتھ ملتا رہ گیا کیونکہ اب اسلامی ممالک میں رومی سکوں کا  چلنا اورلین دین بھی ختم ہو گیا (حیواۃ الحیوان دمیری)
عرش کا سایہ قدموں میں،عرش پہ سایہ باقر کا
دین خدا میں چلتا ہے آج بھی سکہ باقر کا
امام محمد باقر کو اپنے عہد کے بد ترین ڈکٹیٹروں کا سا منا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود آپ افکار مصطفویؐ اور علوم حیدری  سے تشنگان علم و حکمت کو سیراب کرتے رہے ۔آپ کو 6حکمرانوں کا سامنا رہا سوائے حضرت عمر بن عبد العزیز کے تمام ادوار میں آپ کو بدترین حالات کا سا منا کرنا پڑ ا بدترین صعوبتیں اٹھانا پڑیں۔آپ کے عہد طفولیت میں ہی کربلا  کا سانحہ رونما ہوا۔4سال کی عمر میں آپ نے قید خانہ کی صعوبت برداشت کی آپ شافع محشر احمد مرسل ؐ کے لٹے ہوئے خاندان کے ہمرا ہ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے لیکن پیغام توحید رسالت و ولایت پر آنچ نہ آنے دی ۔آپ نے کوفہ و شام کے بازاروں اور دربارو ں میں نواسی رسول ؐعقیلہ بنی ہاشم سیدہ زینب بنت علی اور اپنے والد گرامی امام زین العابدین کے تاریخی ،ولولہ انگیز اور انقلاب آفرین خطبات سماعت فرمائے ۔آپ کی حیات انہی عظیم افکارکے مطابق گزری ۔حکمرانوں نے اسلام میں من پسند تحریفات کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن امام محمد، باقر علیہ السلام اپنے آباء کی طرح ان مکروہ عزائم کے راستے میں حائل ہو گئے ۔اسی پاداش میں 7ذوالحجہ 114ھ کو آپ کو زہر دغا سے شہید کرا دیا گیا آپ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو وصیتیں فرمائیں اور  ذکر  مقصدحسینی کرنے کیلئے خصوصی وصیت فرمائی ۔آپ جنت البقیع میں اپنی دادی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا،اپنے والد گرامی اما م زین العابدین ، اور ناناامام حسن علیہ السلام کے پہلو میں دفن ہوئے ۔
آپ کا فرمان ہے کہ جو ظالم بادشاہ کے پاس جا کر اس کو تقوی کا حکم دے ،خوف خدا دلائے اور اس کو نصیحت کرے اس کو جن و انس کا اجرملے گا اور ان کے اعمال کے برابر جزا ملے گی ۔ جو خدا کیلئے دوستی اور دشمنی رکھے اور خدا کیلئے عطا کرے وہی کامل الایمان ہے ۔کسی مخلوق کا مخلوق کے سامنے سوال میں گڑگڑانا خدا کو سخت ناپسند ہے لیکن خدا کے سامنے  گڑگڑانابہت محبوب ہے ۔قیامت کے دن سب سے زیادہ افسوس اس کو ہوگا جو لوگوں کو عدالت کا رستہ دکھائے مگر خود دوسرے راستے پر چلے ۔آج امت مسلمہ بد ترین مسائل و مصائب سے دوچار ہے ۔ایک جانب علم کی میراث کھو دینے کے باعث مسلمان ٹیکنالوجی اور سائنس میں اہل مغرب کے محتاج ہیں تو دوسری جانب اپنی خو دداری ترک کرکے استعمار کے کاسہ لیس بن چکے ہیں جس کے سبب استعماری قوتیں مسلمانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ایک کے بعد دوسرے اسلامی ملک کو روندتی چلی جارہی ہیں۔آج ملک میں انصاف ،عدل اور مساوات کے نعرے بلند کرنے والے ہی اسکی پامالی کا سب سے بڑا موجب ہیں  ۔پاکستان تمام تر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن اس کے باوجود  بیرونی قرضوں اور امداد کے حصول کو ہی حکومتوں کی کامیابی کی سند گردانا جاتا ہے۔ ہر دور میں حضرت امام محمد باقر کی تعلیمات ہمیں بھولا ہوا سبق یاد دلا رہیں گی کہ آج بھی اگر عالم اسلام علم سے اپنا رشتہ مضبوط کرلے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے زیر نہیں کرسکتی ۔

مزیدخبریں