قابلِ فخر زندگی، قابلِ رشک موت

Jan 03, 2025

پروفیسر احمد خان

  احمد خان 

Ahmadkhan9421@yahoo.com 

70 کی دہائی میں بہاولپور سے آنے والے ایک دبنگ نوجوان نے لاہور کی سڑکوں پر ہیوی بائک چلانا شروع کی یہ نوجوان جو زندگی کی رعنائیوں اور صلاحیتوں کے ساتھ اپنا آپ جہانِ رنگ و بو سے منوانے کے لیے آگے بڑھنا چاہتا تھا اس کی امنگیں جوان تھیں دل شجاعت اور شعور فکری حریت سے مالا مال تھا کچھ کر جانے کا عزم لیے لاہور کی شررِ بولہبی میں ابراہیمی انداز میں اپنا راستہ بنانے کی خاطر وقت کو للکارنے کے لیے وہ شعلہ جوالہ تھا ، برصغیر کی قدیم تاریخی درسگاہ جس کے قریب پھٹکنےکے لیے بھی قابلیت کا پہاڑ عبور کرنا پڑتا تھا وہاں نہ صرف داخلہ لیا بلکہ کچھ ہی عرصہ میں اسلامی جمعیت طلبہ کی ضلعی قیادت کا حصہ بن گیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریکِ نظام مصطفی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ہراول دستوں میں جاوید ہاشمی اور لیاقت بلوچ کے ساتھ وہ احتجاجیوں کی اگلی صف میں ہوتا کبھی ہاسٹل سے نوجوانوں کو ایف ایس ایف کی فسطائیت کے خلاف کھڑا کر رہا ہوتا اور کبھی جلسے جلوسوں میں اپنی للکار کے ساتھ حکومتی ایوانوں میں زلزلہ بپا کر رہا ہوتا یہ شعلہ صفت بانکا اب حکومتِ وقت کے لیے ناقابلِ برداشت تپش کا سبب بن رہا تھا پولیس ، حساس ادارے اور ایف ایس ایف ایس اسے پکڑنے کے لیے حاکمِ وقت کے حکم کی بجا آوری کے لیے سرگرم تھے لیکن اس سیمابی فطرت پہ قابو پانا مشکل ہو رہا تھا آخرریاستی جبر غالب رہا اور یہ شاہینِ بلند پروازایف ایس ایف کے غنڈوں کے ہتے چڑھ گیا شاہی قلعہ کا وہ بدنام زمانہ عقوبت خانہ اس کی منزل ٹھہرا کہ جس کا نام ہی دہشت کی علامت تھا جہاں حکومتِ وقت نے اپنے مخالفین پر ظلم کے وہ پہاڑ توڑے تھے کہ ان کا ذکر کرتے اور سنتے ہوئے روح کانپ اٹھتی ہے بھٹو صاحب کا دور ختم ہوا تحریک نظام مصطفی کے نتیجے میں مارشل لاء لگا تو وہ نوجوان ایک بار پھر تعلیم کی طرف لوٹ ایا اور جب تعلیم کی طرف لوٹا تو اس نے تعلیم کے میدان میں امتیازی درجات کے ساتھ ایم اے کیا اور جلد ہی انجینئرنگ یونیورسٹی میں اسلامیات کا شعبہ جو نیا نیا قائم کیا گیا تھا اس کے اندر اس کی تقرری ہوگئی متوسط طبقے کے ایک کالج لیکچرر کے بیٹے کا پاکستان کی ایک کلیدی یونیورسٹی میں استاد مقرر ہونا معمولی بات نہیں تھی ترقی پذیر معاشروں میں سرکار کی نوکری ہی حقیقی منزل ہوا کرتی ہے لیکن اس سیماب فطرت شاہین کی پرواز بہت بلند تھیں وہ بلندیوں کا مسافر اور چوٹیوں کا مکین تھا وہ گھاٹیوں،وادیوں اور پستیوں پہ کیسے قناعت کرتا اس بلند پروازکے سامنے یہ لیکچرر کی نوکری ہیچ تھی پھر ایک وقت ایا کہ حکومت پاکستان نے سکالرشپ پر کچھ نوجوان اساتذہ کوسعودی عرب بھیجنے کا فیصلہ کیا صدرِ پاکستان کی ذاتی دلچسپی سے اس نوجوان کو اس فہرست میں شامل کر لیا گیا لیکن یہاں باپ کی شفقتِ پدری نے جوش مارا اور اب ایک طرف شاہین کی بلند پروازی اور فطرتِ سیمابی تھی اور دوسری طرف والدِ محترم۔
اطاعت کا دامن ہاتھ سے چھوڑے بغیر کچھ احباب سے درخواست کی کہ والد محترم کو منائیں آخر سمجھانے والوں کی کوشش بار آور ہوئی اور شاہین کو جیسے منزل مل گئی جامعہ ام القری مکہ مکرمہ میں تعلیم کا حصول اور بیت اللہ کا پڑوس اس مردِ قلندر کا نصیب ٹھہرا کروڑوں امیدوں کے مرکز کا مکین بن کر اس نوجوان نے بہت جلد اہلِ حرم کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا یہاں وہ ایک طالب علم ہی نہیں ثابت ہوا بلکہ اپنے لیے روزگار کے مواقع خود پیدا کیے اپنی دنیا خودآباد کی اور اپنے لیے اس نے وہ سب کچھ حاصل کیا جو کسی بھی معاشرے میں ہر کامیاب شخص کی منزل ہوا کرتا ہے مک? المکرمہ میں ایک وسیع گھر آسودہ حال خاندان اور ایسی شاندار زندگی اور سب سے بڑھ کر دیارِ ابراہیم کی سکونت وہ سب کچھ ہی تو تھا کہ جو متاعِ زندگی ہے ایسے میں پاکستان میں کشمیر کی تحریک کے حوالے سے جماعت الدعو? اپنی تگ و تازکو بڑھا رہی تھی ایسے میں اس قافل?ِ سخت جاں کو پڑھے لکھے علمائ اور نوجوانوں کی ضرورت تھی کہ جو آگے بڑھ کرتحریکِ آزادی کشمیر کی آواز کو ارضِ وطن کے گھر گھر کا ترانہ بنا دیں ایسے میں امیرِ تحریکِ آزادی کی عقابی نگاہیں نقیبِ آزادی کے طور پر مکینِ حرم اور اپنے شاہین صفت بھائی پہ آ پڑی مردِ درویش وادءبطحا کے لیے عازمِ سفر ہوا جس صحنِ مطہر سے قافل? حق کے بانی نے سفر کا آغاز کیا جہاں سے جبرئیل نے آمنہ کے لال کو عرب و عجم کی ملکیت کے پروانے جاری کیے تھے جہاں پہ ابو بکر و عمر نے اپنے عہد الست کی قسم نبھائی تھی وہاں امیرِ قافلہ نے اپنی تمنا کی جھولی اس مکینِ حرم کے سامنے پھیلا دی ریاست کے نامکمل وجود کا وہ زخم جو دونوں بھائیوں کے ماں باپ ہجرت کی راہ میں لے کے آئے اس کا حساب چکتا کرنے کا وقت آچکا تھا لاہور کا بانکا جو مکینِ حرم ہونے کے ساتھ ساتھ اب علمی رسوخ اور بلند آہنگ خطابت کا مرقع تھا مردِ درویش کی جھولی کو خالی نہ لوٹا سکا 90 کی دہائی میں اپنی پرتعیش زندگی کو تج کیا ، حرم ِ مکی کا پڑوس قربان کیا اور پاکستان پہنچ گیا اپنی زندگی کی وہ سب رعنائیاں اور رنگینیاں جو اس کو وہاں سعودی عرب میں میسر تھی ان کو چھوڑ کر مرید کے قریب ایک چھوٹے سے گاو¿ں میں آ بسا یہ چھوٹا سا گاو¿ں جماعت الدعو? کے ایک تعلیمی مرکز کی شکل میں موجود تھا جہاں پر زندگی کی شاید بنیادی سہولتوں کا تصور بھی نہیں تھا جو عام شہروں میں میسر ہوتی ہیں نازونعم میں پلی اولاد کو دیہات کی سہولیات سے عاری زندگی کا عادی بننے میں وقت لگا لیکن جب اس نوجوان نے جو ہمیشہ سے اپنی دھن کا پکا تھا یہ طے کر لیا کہ اب قافل?ِ حریت کا راہی بنناہے تو گھر والے بھی دل و جان سے ساتھ چل پڑے ایسے میں اس شریکِ حیات کو بھی خراجِ تحسین پیش کرنا ہو گا جس نے ہر سرد گرم میں ساتھ نبھایا علم وبیان کا یہ شاہکار تحریکِ تکمیلِ پاکستان کا نقیب بن کر دعوتِ فکر کی جولانیوں سے نوجوانوں کا لہو گرمانے لگا اس کی خطابت کی للکار سے ہندوستان پریشان رہتا حتی کہ بعض اوقات بلند آہنگ ہوتی کشمیریوں کی حمایت اپنوں کو بھی ناراض کر دیتی پاکستان کے گلی کوچے کھیت کھلیان گاو¿ں شہر ہر وہ کونا جہاں پہ انسان بستے تھے وہاں کشمیر کی ازادی، ہندوستان کی بربادی کے نعرے کو پہنچانا اپنی زندگی کا حرزِ جان بنا لیا وطنِ عزیز میں کشمیر کے حوالے سے ہونیوالی کوئی بھی نشست مکی صاحب کی خطابت کے بغیر ادھوری تھی اکیسویں صدی کا آغاز ہو رہا تھا ہمارا پڑوس ہمیشہ کی طرح کشت و خون کا مرکز تھا القاعدہ وہاں بسیرا کیے ہوئے تھی ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا واقعہ ہو گیا اس واقعے کے حقیقی مجرم کا تو شاید کبھی بھی پتا نہ چل سکے لیکن اسے بہانہ بنا کرامریکی چنگاڑتے ہوئے افغانستان پہ چڑھ دوڑے دنیا بھر کی حکومتیں اس بدمست ہاتھی کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھیں لیکن یہاں بھی اس مردِ خطابت نے اپنی للکار کے ساتھ امریکیوں کی ہونے والی ذلت کو پاکستان کی عوام کے سامنے آشکارکیا اور امریکیوں کی چیخ و پکار اور غصہ جس سے پاکستان کے ایوان حکمران اور پاکستان کی عوام اور دنیا بھر کے لوگ خوفزدہ تھے اس کی پرواہ کیے بغیر اپنی آواز کو امریکہ کے خلاف اور افغان مجاہدین کے حق میں اٹھایا یہاں حکومت اور ادارے مصلحت کے ساتھ بات کرنے کا کہتے امریکہ کو براہِ راست مخاطب کرنے سے منع کرتے لیکن اس خطر پسند طبیعت کو کون سمجھائے اس دوران یہ ہوا کہ دشمن کی سازشیں اور اپنوں کی نالائقیاں رنگ لائیں اور جماعت الدعو? کو پابندیوں کے عذاب سے دوچار ہونا پڑا اور جب یہ پابندیاں لگی تو اس میں حیران کن بات یہ تھی کہ وہ شخص جو صرف زبان کی دعوت کی بنیاد پر لوگوں کو تیار کیا کرتا تھا جس نے کبھی بندوق اٹھا کر کشمیر کے جہاد میں عملی حصہ نہیں لیا تھا اس شخص کو بھی آواز اٹھانے کی پاداش میں سچائی کا مجرم قرار دیدیا گیا بھارتی چالاک سفارت کاری کام آئی اور امریکیوں نے اس کے سر کی قیمت لگا دی سر کی قیمت لگنے کے بعد اس نے کسی تہہ خانے جنگل اور غار کا رخ نہیں کیا ایک قومی چینل پر آ یا اپنا موقف پیش کیا اور پھر پاکستان کے رستوں ، چوراہوں پہ سٹیج سجا کر کشمیر و افغان کے مظلوموں کی داد رسی کے لیے بانگِ درا رہا یہ بتاتا رہا کہ میں ہم دہشت گرد نہیں ہیں ہم پاکستانی ہیں اور ہمارا کام صرف اور صرف کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنا ہے ہم کسی مسلح جدوجہد کا حصہ نہیں ہے لیکن ہر اس تحریک ازادی کی حمایت کرتے ہیں کہ جو ظالموں سے انسانوں کو آزادی دلانے کے لیے ملتی ہے جب دنیا امریکی طاقت کے سامنے سجدہ ریز ہو چکی تھی ایسے میں فاقہ مست افغان لڑاکوں کو سرَ عام جلسوں میں امریکیوں کی درگت بنانے پہ مبارکبادیں دینا ، کشمیریوں سے پشتیبانی کا عہد کرنا یہ سب آسان نہیں تھا لیکن پھر ایک وقت ایا کہ بیرونی دباو¿پہ حکومت پاکستان نے اس مردِ جری کو پابندِ سلاسل کر دیا، عالمی دباو¿ پر ان پر ایسے مقدمات بنائے گئے جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا لیکن ایک ایسا شخص جو ذیابیطس اور دل کے امراض کا شکار تھا اس نے اس ساری سب کا جوان ہمتی کے ساتھ مقابلہ کیا اور یہ سزائیں پوری کرنے کے بعد کہ جو کسی ناکردہ گناہ کے جرم میں دی گئی تھیں وہ شخص ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ ایا اس نے پھر گلی محلوں میں جا کر مسجدوں چوراہوں جلسوں میں اپنی اسی دعوت کو پیش کرنا شروع کیا جس کی بنیاد پر اس کو پابند سلاسل کیا گیا تھا اپنی زندگی کی وہ تمام چیزیں جو کسی بھی شخص کی کامیابی کی میراث سمجھی جاتی ہیں اس نے وہ سب کچھ حاصل کیا اور پھر تحریک ازادی کشمیر کا سپاہی بننے کے لیے وہ سب کچھ تج کر دیا ایسی مثالیں دنیا کے اندر کم ہیں ہم لوگ معمولی کامیابیوں کو اپنی زندگی کا تمغہ بناتے ہیں اور زندگی بھر ان کامیابیوں کا طوق لے کر زندہ رہتے ہیں س نے دنیاوی کامیابیوں کی غلامی سے خود کو نکال کر اپنی زندگی کو غلاموں کو ازادی دلوانے کے لیے وقف کر دیا غلاموں کی آزادیوں کی لڑتا ہوا یہ مردِ آزاد ایک کامیاب اور بھرپور زندگی گزارنے کے بعد کہ جس کا خواب بھی کم ہمتوں کے لیے محال ہے اپنے رب کے ساتھ جا ملا اور جا ملنے سے پہلے کے جو واقعات اور مناظر ہیں وہ ایسے ہیں کہ رشک آتا ہے کہ کس طرح ایک انسان اخری وقت پر بستر مرگ سے اٹھتا ہے بڑی شان کے ساتھ اپنے دوستوں کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا وقت آگیا ہے مجھے مسجد میں لے چلو مجھے میرے دوستوں سے معافی و تلافی کا موقع دو ایسے وقت میں کہ جب لوگ آہ و بکا کی کیفیت میں ہوتے ہیں جب ان کے حواس باختہ ہوتے ہیں اس نے اپنے دوستوں کو بلایا اپنے قرب و جوار میں کھڑے لوگوں کو اپنے کلمے کی شہادت پر گواہ بنایا اپنے ساتھیوں سے اپنی زندگی میں گزرنے والے معاملات پر معافی کا خواستگار ہوا اور پھر اپنے رب کے سامنے پیش ہو گیا ایسے لوگوں کی موت دکھ کے ساتھ ساتھ فخر ہوا کرتی ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگی بھی قابل فخر گزاری اور جب وہ رب کے سامنے رخصت ہوئے تو وہ اسی فخر و انبساط کو اپنے دامن میں لیے ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ گئے یقینا ایسے لوگوں کی زندگی قابلِ فخر اور موت قابلِ رشک ہوا کرتی ہے

مزیدخبریں