2019ء بھی گزر گیا۔ 2020ء طلوع ہو چکا۔ سال نو سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ کریں ، صرف 19 , 20 کا فرق ہے . حاکم وقت کا فرمان ہے 2019ء میں عوام کو مشکل سے گزرنا پڑا، 2020ء میں خوشحالی آئے گی، لوگوں کو نوکریاں ملیں گی۔ نئے سال کے پہلے خطاب میں بھی گھسے پٹے وعدے۔ گزشتہ برس کی حکومتی کارکردگیوں میں بچت پروگرام کے تحت وزیر اعظم ہائوس کی وہ گائے اور بھینسیں گاڑیاں نیلام کر دی گئیں۔ وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کے اعلان کے علاوہ بھی متعدد بھاری بھرکم اعلانات کئے گئے۔ 2013ء سے لے کر 2018ء کے الیکشن ہونے تک، اْن پانچ سالوں میں عمران خان اور ان کی جماعت نے جہاں ایک جانب ماضی کے حکمرانوں پر سخت ترین تنقید کے تیر برسائے، وہیں ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی جماعت کو اس حیثیت میں پیش کیا جو برسر اقتدار آتے ہی صرف 90 دن میں ملک کے حالات 'تبدیل' کر دے گی۔ مراد سعید کے مطابق حکومت کی سب سے بڑی کامیابی وزیر اعظم کا ’پناہ گاہ‘ پروگرام ہے جبکہ ایک اور وزیر کے نزدیک لنگر خانے اس سے بھی بڑی کارکردگی ہے۔ غریب ملک کیا سرائے خانے اور لنگر خانے سے آگے بھی ترقی کرسکے گا ؟پہلے ہی مقروض اور غریب ملک تھا اب تو باقاعدہ بھکاری بنا دیا گیا ہے۔پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے کرنے والی حکومت کے ویژن پر صدقے جائیں۔مان بھی لیں کہ حکومت کی نیت پر کوئی شک نہیں مگر ان کی ٹیم کی اب تک کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ منصوبہ بندی اور اہلیت کا شدید فقدان ہے۔ قائدِ ایوان یعنی وزیرِاعظم کی ایوان میں حاضری اور غیر ملکی دوروں کے اعتبار سے بھی گزشتہ سال حیران کن رہا۔ اگر اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے تو جہاں عمران خان کی حاضری کی شرح 16.48 فیصد رہی وہیں نواز شریف کی اپنے دورِ حکومت کے پہلے برس میں حاضری کی شرح 7.7 فیصد تھی۔وزیراعظم بیرون ملک دوروں پر نہیں جائیں گے۔ اگر دورہ کیا گیا تو یہ تمام سفر کمرشل پروازوں پر ہو گا اور اس کے لیے کلب کلاس استعمال کی جائے گی۔ یہ وعدہ ایفا نہ ہو سکا اور حلف برداری کے بعد سے جولائی 2019 تک وزیراعظم عمران خان نے آٹھ ممالک کے 13 غیر ملکی دورے کیے۔ ان دوروں میں تین مرتبہ وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت، دو مرتبہ چین جبکہ ایک ایک بار ایران، ملائیشیا، ترکی، قطر اور کرغستان گئے۔ سعودی عرب کے دوروں میں اپنی اہلیہ کو بھی سرکاری خرچہ پر ہمراہ لے جاتے رہے۔ان دوروں کے لیے کمرشل پروازیں استعمال نہیں کی گئیں تاہم امریکہ کے حالیہ دورے پر عمران خان نے اپنے اس وعدے کو جزوی طور پر پورا کرتے ہوئے کمرشل پرواز پر امریکہ کا سفر کیا۔ وزیراعظم عمران خان کے دور حکمرانی کے دوران جموں و کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضہ ہو گیا۔ آرمی چیف آف پاکستان کی ایکس ٹینشن کو متنازعہ بنا دیا گیا۔ کرپشن اور چوروں کے خلاف کریک ڈائون کی دعویدار حکومت کی ناک نیچے ریاض ملک کی لندن سے بلیک منی خاموشی سے چھڑا کر اس کے ہی سپرد کر دی گئی۔’’ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا ‘‘ کے نعرے اور دعوے کرنے والوں نے نواز شریف کو چھوڑ دیا ، مریم نواز کو چھوڑ دیا۔زرداری کو چھوڑ دیا۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے سرمایہ کاری کا ماحول پیدا کریں گے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم نے امریکہ کے اپنے حالیہ دورے پر بھی وہاں مقیم پاکستانی بزنس کمیونٹی کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جبکہ اس سے قبل چین، قطر اور دیگر ممالک سے بھی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت اور خصوصی مراعات دینے کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان اپنی معاشی ٹیم کے ساتھ لائحہ عمل مرتب کر رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک کوئی سرمایہ کاری پاکستان میں نہیں آئی ہے۔موسم سرما پوری شدت سے شروع ہے۔ امریکہ سے زیادہ لگتا ہے پاکستان میں سردی پڑ رہی ہے۔جس سے بات کرو مہنگائی مہنگائی کرتا تھا آجکل سردی سردی کر رہا ہے۔ غریب تو حقیقت میں ٹھٹھر تی سردی کی نذر ہو گیا۔ حکمران گرم گھر سے گرم گاڑی میں خطاب گاہ پہنچتے ہیں اور حسب عادت ایک گرما گرم خطاب فرما کر گرم گاڑی پر گھر واپس پہنچ جاتے ہیں ۔ پاکستان کے لوگ ہی شدید سردی کی لپیٹ میں نہیں یہاں کی سیاست بھی ٹھنڈی پڑ چکی ہے۔اپوزیشن سرد ملکوں میں جا بیٹھی ہے اور ان کی سیاست کی قلفی جم چکی ہے۔ مسلم لیگ ن ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے اور اس کے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اپنے بھائی صاحب کے تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں جبکہ اہم رہنما جیل میں پڑے ہیں تو سیاست کون گرم رکھے ؟ عمران خان کے لئے سیاسی میدان خالی ہے۔مقتددر اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس کے باوجود ڈلیور نہیں کر سکے۔ پنجاب پر تو آسیب کا سایہ ہے۔ 2020ء نیا سال شروع ہو چکا ہے لیکن عوام نئے سال سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ کریں۔ بس انیس بیس کا ہی فرق ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024