نئے سال میں حکومت کو انہی مسائل کا سامنا ہے جو پچھلے برس اسے درپیش تھے۔ان میں سے اہم ترین اور فوری توجہ کا مستحق مسئلہ آرمی چیف کی توسیع کا ہے۔ سپریم کورٹ نے آرمی چیف کو چھ ماہ کی مشرط توسیع دی تھی کہ اس عرصے میں قانون سازی کر کے اس مسئلے کامستقل حل نکالا جائے۔ اب یہ سوچنا حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ اس مسئلے کو کس انداز میں اور کتنے عرصے میں حل کرے گی۔ حکومت کو اگر آئین میں ترمیم درکار ہے تواسے اپوزیشن کو اعتماد میںلینا چاہئے۔ ایسا کوئی خدشہ نہیں کہ اپوزیشن کوئی لیت و لعل کا مظاہرہ کرے۔ماضی میں جب جنرل اسلم بیگ کے جانشین کے تقرر کا مرحلہ آیا تو دی نیشن میں ایم اے نیازی کی ایک تفصیلی رپورٹ شا ئع ہوئی، جس سے یہ پتہ چلا کہ آرمی چیف کا منصب ملکی دفاع کے لئے تو اہم ہے ہی مگر اس منصب پر فائز ہونے والا جرنیل ایک بہت بڑی بزنس اور انڈسٹریل ایمپائر کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔میں اس تفصیل میں نہیں جاتا کہ اس ایمپائر میں کیا کچھ شامل ہے کیونکہ اس ملک کا بچہ بچہ اس کی تفصیل سے باخبر ہے۔
جہاں تک ملکی دفاع کا تعلق ہے تو ایٹمی اسلحے ا ور میزائلوں کے انبار کی وجہ سے کسی دشمن میں یہ جرات نہیں ہو سکتی کہ وہ پاکستان کی طرف سے میلی آ نکھ سے بھی دیکھے مگر اس طاقت کی مدد سے پاکستان کسی ہمسائے پر قبضہ کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ فی زمانہ دنیا میں کہیں بھی فوجی مداخلت کا حق صرف امریکہ اور نیٹو کو حاصل ہے ۔ وہ کسی دوسرے کو ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ اور بھارت بھی اپنی حدود میں جو کرنا چاہے ایساوہ کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا ۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دفاعی اعتبار سے پاکستان کو اسٹیٹس کو برقرار رکھنا ہے یا زیادہ سے زیادہ کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی گولہ باری یا در اندازی کا محدود جواب ہی دینا ہے۔ فوجی سربراہ کے زیر کنٹرول کاروباری اور صنعتی مفادات بھی اس عہدے کو اہم بنا دیتے ہیں۔
حکومت کے لئے ایک آسان راستہ یہ ہے کہ جس طرح عدلیہ نے خود ہی یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ حکومت کو چیف جسٹس کی تقرری کا کوئی حق نہیں ہو گا اور سینیئر موسٹ جج ہی اس منصب کو سنبھالے گا۔ عدلیہ کے اس فیصلے کی رو سے آئین میں ترمیم کر دی گئی۔ یہی اصول مسلح افواج کے سربراہان کے تقرر میں لاگو کیا جاسکتا ہے۔ آرمی چیف بننے کے لئے صرف ایک شرط ہے کہ بندہ لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر فائز ہو۔ ایسا کوئی بھی شخص آرمی چیف بن سکتا ہے تو کیوں نہ سینیئر موسٹ جرنیل ہی اس منصب پر فائز کیا جائے تاکہ یہ کبھی تنازعہ نہ بن سکے۔ بھارت نے اب آ کر آرمڈ فورسز چیف کا ایک نیا عہدہ نکالا ہے۔ ممکنہ طور پر یہ ہمارے ہاں کے چیئر میں جائنٹ چیفس آف اسٹاف کی طرح کا ہی کوئی منصب ہے، بھارت نے اپنے سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کو ا س منصب پر فائز کیا ہے۔ ہم بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں تاکہ آرمی چیف کے تجربے سے ملک مزید بہرہ مند ہو سکے۔مگر دیکھئے حکومت اس ضمن میں کیا حکمت عملی اپناتی ہے۔ بہر حال اس مسئلے کو معلق رکھنا آرمی چیف کے منصب کی شان کے منافی ہو گا۔اگلا مسئلہ ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے کا ہے ۔ سوا سال تو یہ کہہ کہہ کر گزار لیا گیا کہ سابقہ حکومتوںنے ملکی خزانہ خالی کر دیا تھا مگر یہ منترا معیشت کو درست نہیں کر سکتا۔ حکومت کو اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر کے ملکی معیشت کو در پیش جملہ مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ اسوقت عوام کا سب سے بڑا دکھ درد مہنگائی کا ہے جو آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور کہیں رکنے میں نہیں آتی جبکہ عوام کے لئے کمائی کے مواقع کا فقدان بھی ہے ۔ بے روز گاری ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ٹیکسوں پر ٹیکس لگ رہے ہیں اور یہ عوام کی سکت سے باہر ہیں، تاجروں اور صنعتکاروں نے جتھہ بندی کا مظاہرہ کیا اور دو تین ہڑتالیں کر کے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ اب ٹریفک چالان کی شرح اس قدر بڑھا دی گئی ہے جس سے گما ن ہوتا ہے کہ شاید پاکستان کے لوگوں کی ترقی اور خوش حالی کا لیول سوئیٹزر لینڈ ، سنگا پور یا امریکہ جیسا ہو گیا ہے۔ پانچ ہزار ۔ تین ہزار اور دو ہزار کے جرمانے تو ملک کو لوٹنے والوں پر عائد نہیں کئے گئے۔ مگر موٹر سائیکلوں۔ چنگ چی۔ رکشا۔ ویگن ۔ کار۔ منی بس، اور ٹرک وغیرہ کو ہوش ربا جرمانوں کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کے خلاف پبلک ٹرانسپورٹ تو ہڑتال پر چلی گئی ہے مگر موٹر سائیکل اور کاروں والے افراد کس دیوار سے سر ٹکرائیں۔ عام طور پر کہا جاتا تھا کہ موٹر وے پولیس رشوت نہیںلیتی لیکن میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ یہ لوگ جس قدر جرمانے کریں گے اسی قدر انہیں کمیشن زیادہ ملے گا۔ اوپر سے ان کی تنخواہیں بھی بے اندازہ ہیں۔ تو پھر انہیں رشوت کی ضرورت کیا رہ جاتی ہے۔ میری رائے میں حکومت کو یہ جرمانے فوری واپس لینے چاہئیں اور جب تک ملکی عوام کی آمدنی کالیول نہیں بڑھتا تب تک انہیں مالی طور پر نہ نچوڑا جائے۔ یہی حال پٹرول، گیس، بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کا ہے۔ ان کے بغیر کوئی شخص گزارہ بھی نہیںکر سکتا۔ شہروں میں گھر اس انداز کے بن گئے ہیں کہ انہیں ٹھنڈا اور گرم رکھنا ایک مجبوری ہے ۔ حکومت کو اس ضمن میں عوام دوست پالیسی بنانی چاہئے ورنہ خدشہ ہے کہ لوگ بجلی اور گیس کے گھریلو کنکشن کٹو ا دیں گے اور پتھر کے دور کی زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے۔ یہ دھمکی تو امریکہ نے نائن الیون کے بعد پاکستان کو دی تھی کہ اگر وہ وار آن ٹیرر میں شامل نہ ہوا تو اسے پتھر کے دور میںدھکیل دیا جائے گا۔ اب تو ہم امریکہ کی تابعداری بھی کر چکے ا ور اس کے عوض میں بے پناہ ڈالر کما چکے۔ یہ ڈالر کہاں گئے ۔ اس کا جواب کم از کم دہشت گردی کے ہاتھوں شہید ہونے والے ستر ہزار شہریوں کے لواحقین کو ضرور ملنا چاہئے۔ جناب عمران خان تو ا س جنگ کے خلاف تھے تو اس کے ناقابل برداشت نقصانات سے بھی ملکی عوام کو بچانے کی تدبیر کریں ۔ ان کے پاس ایک زبر دست معاشی ٹیم ہے ۔ سعودی عرب، قطر، امارات اور چین نے
اربوں ڈالر دیئے ہیں اور آئی ایم ایف سے بھی ضرورت کا قرض مل چکا ہے۔ اس رقم سے ملک کو چلانے کی کوشش کی جائے نہ کہ عوام کو ٹیکسوں کا ٹیکا لگایا جائے اور ان کے خون پسینے کی کمائی ( اگر کوئی ہے ) تو اس پر ہاتھ صاف نہ کیا جائے۔ایک سنگین مسئلہ بیورو کریسی کے عدم تعاون کا ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو نیب اور اینٹی کرپشن کے ادارے ہیں جو سرکاری افسروں کے سروں پر منڈلا رہے ہیں کہ ادھر انہوںنے کوئی بل منظور کیا یا کسی منصوبے کی منظوری دی تو یہ پکڑ دھکڑ شروع کر سکتے ہیں کہ کیا کمائی کی ہے۔ سرکاری افسروںنے اس پکڑ دھکڑ سے بچنے کے لئے یہ عادت ہی اپنا لی ہے کہ نہ کام کرو، نہ پکڑے جائو۔میں نہیںجانتا کہ نیب قوانین میں حالیہ ترامیم سے بیورو کریسی کو کوئی تحفط کا احساس ہو گا یا نہیں۔ ا سکا اندازہ وقت گزرنے پر ہو گا مگر تب تک ملک کا بہت سا نقصان ہو چکا ہو گا۔ حکومت کو اس مسئلے کواولیں ترجیح کے طور پر حل کرنا چاہئے…… ( جاری ہے ) ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38