نوٹ : میری طرف سے تمام قارئین کو نیا سال مبارک۔
کہتے ہیں تاریخ اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ یہ بڑے آدمیوں کے کارناموں کا مجموعہ ہے۔ بڑے اور خصوصاً بہادر آدمی جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں اور ایسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ انکے کارنامے تاریخ کا رخ موڑ دیتے ہیں۔ ایک ایسا عظیم کارنامہ ہمارے سابق چیف جسٹس صاحب نے کر دکھایا ہے۔ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے فوج یہاں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملکی معاملات میں ملوث رہی ہے۔آج تک اسے کوئی نہیں روک پایا۔ جس کسی نے بھی فوج کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی ناکامی اسکا مقدر بنی ہے ۔جناب بھٹو صاحب نے فوج کے مقابلے میں ایک فورس تیار کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ بھی اپنے انجام سے بچ نہ سکا۔ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ہماری فوج نہ روکتی تو ہمارے کئی ایک راہنما جمہوریت کے نام پر خدا بن جاتے اور پاکستان کو بیچ کر ہی کھا جاتے۔ جیسا کہ اب بھی ہمارے کئی ایک جمہوریت پسند راہنمائوں نے لوٹ کر پاکستان کو کنگال کر دیا ہے اور اس خوبصورت ملک کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں ۔قرض میں ملک کو ڈبو دیا ہے جس کی سزا اب قوم بھگت رہی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے فوج کو سیاست میں ملوث کیا۔کچھ لوگوں نے تو حکمرانی ہی فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر کی۔یہ بھی ہماری تاریخ کا عجیب تضاد ہے کہ ہمارے تمام نامور سیاستدان فوج کی نرسیوں میں پل کر قوم کی قسمت کے مالک بنے اور اپنے آپ کو جمہوریت پسند کہلایا ۔بہر حال حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز پر جب بھی مشکل وقت آیا تو عوام نے فوج کی طرف ہی دیکھا اور فوج جب بھی اقتدار میں آئی عوام نے مٹھائیاں بانٹ کر خوشیاں منائیں اور شکرانے کے نوافل ادا کئے۔فوج اس ملک کا سب سے طاقتور ادارہ ہے جس پر آج تک کسی نے ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہیں کی اور اب تاریخ میں پہلی دفعہ ہمارے سابق چیف جسٹس صاحب نے فوج کی طاقت پر اعتراض اٹھایا ہے۔ محترم چیف نے فوج کے خلاف دو فیصلے دئیے اور دونوں میں فوج کو اپنی ’’ تھاں ‘‘ پر لاکھڑا کیا۔
فوج کا پہلا فیصلہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا تھا۔ آج تک کئی ایک آرمی ، ائیر فورس اور نیول چیفس کو مدت ِ ملازمت میں توسیع مل چکی ہے۔ کسی نے اعتراض نہیں اٹھایا کیونکہ فوج آج تک روایات پر چل رہی تھی اور روایات فوج میں سب سے بڑا قانون ہوتا ہے۔ مثلاً جب کوئی جونئیر جنرل آرمی چیف پر وموٹ ہوتا ہے تو اس سے سینئر جنرلز خاموشی سے استعفٰے دے کر گھر چلے جاتے ہیں۔حالانکہ استعفیٰ دینا انکے لئے لازمی نہیں ہے نہ ہی کوئی ایسا قانون ہے ۔ یہ صرف فوجی روایات کا حصہ ہے جس پر آج تک عمل ہو رہا ہے۔ یہ روایات صرف ہماری فوج میں ہی نہیں بلکہ دنیا کی کئی ایک افواج میں ہیں۔ اسی طرح انگلینڈ کا کوئی تحریری آئین نہیں لیکن ملک روایات کے سہارے چل رہا ہے ۔ہمارے ملک میں پہلی دفعہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون چیلنج ہوا بلکہ مدت ِ ملازمت کا قانون بھی چیلنج ہوا ہے ۔فوج کو اور قوم کو پہلی دفعہ پتہ چلا ہے کہ ان دونوں معاملات پر ہمارے آئین میں قوانین ہی موجود نہیں نہ ہی ملٹری لاء میں ان اہم موضوعات پر کچھ ہے ۔لہٰذا جناب چیف جسٹس صاحب نے بہت اہم موضوع اٹھایا ہے۔ جس انداز میں یہ بار بار اعتراضات کا نشانہ بنا اس سے نہ صرف حکومت ِ وقت کی سبکی ہوئی بلکہ فوج کو بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جو اب تک جا ری ہے۔ بہت سے لوگوں کی رائے میں چیف جسٹس صاحب کو جاتے جاتے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ آرمی چیف کا عہدہ ملکی سلامتی کی ضمانت کا عہدہ ہے۔ اسکا یوں مذاق نہیں اڑانا چاہیے تھا ۔پھر فیصلے سے چند دن پہلے چیف جسٹس صاحب نے باڈی لینگویج سے بھی ایک سابق آرمی چیف کا مذاق اڑایا جو اتنے بڑے عہدے پر متمکن شخص کو زیب نہیں دیتا۔
اس مسئلے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔وہ یہ کہ پاکستان کی72سالہ تاریخ میں اب تک چار آرمی، تین ائیر فورس اور ایک نیول چیف کو مختلف اوقات میں مختلف چیف جسٹسز کی موجودگی میں مدت ملازمت میں توسیع مل چکی ہے۔ جیسے اب خاموشی سے بھارتی آرمی چیف کومدتِ ملازمت میں توسیع ملی ہے اور کسی نے اف تک نہیں کی۔ ان حالات میں انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ توسیع اگر غیر قانونی تھی تو پہلے چیلنج کیوں نہیں ہوئی ۔کیا سابق چیف جسٹسز تمام کے تمام قانون سے نا بلد تھے یا پھر موجودہ چیلنج کی کوئی ذاتی وجوہات تھیں ۔بہت لوگوں کی رائے بھی یہی ہے۔یہ فیصلہ تو سابق چیف جسٹسز کے فیصلوں کی بھی توہین کے مترادف ہے۔ بہر حال اسوقت فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل ہو چکی ہے۔ چیف جسٹس بھی نیا ہے۔ دیکھتے ہیں وہاں سے کیا فیصلہ آتا ہے۔اسکے بعد ہی اس فیصلے کا مزید تجزیہ کیا جا سکے گا۔ خوش آ ئند بات یہ ہے کہ حکومت نے بھی فوج کے سروسز رولز میں تبدیلی کر کے ریٹائرمنٹ عمر کی حد 64 سال تک بڑھا دی ہے۔می لارڈ آرمی کے خلاف دوسرا فیصلہ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے وہ ہے مشرف کیس کا تفصیلی گھسیٹنے اور لٹکانے کا فیصلہ ۔یہ بھی ہماری تاریخ کا انوکھا فیصلہ ہے ۔مشرق وسطیٰ میں تو ایسے فیصلے ہوتے رہتے ہیں یا پھر ہمارے مغل بادشاہوں نے ایک دوسرے کے خلاف ایسے فیصلے کئے۔ زندہ لوگوں کی آنکھیں نکالی گئیں یا پھانسیوں پر لٹکایا گیا یا پھر انگریزوں نے 1857کی جنگ آزادی کی پاداش میں کچھ سولجرز کو ایسی سزائیں دیں لیکن یہ سب ذاتی عداوت کی بنا پر ہوا۔ کیا مشرف کیس کو بھی ذاتی عناد ہی سمجھا جائے ورنہ کوئی مسلمان کسی مسلمان کو ایسی سزا نہیں سنا سکتا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ ایک شخص کو سزا ہے اسکا ادارے سے کوئی تعلق نہیں۔ میرے خیال میں یہ رائے درست نہیں۔ فوج ایک ایسا ادارہ ہے جس میں ایک سپاہی سے لیکر جنرل تک سب ایک فیملی کی مانند ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف بے عزتی برداشت نہیں کر سکتے۔ جنرل پرویز مشرف آرمی کا چیف رہا ہے۔ تین جنگیں لڑی ہیں۔فوجی روایات اور بھائی چارے کی وجہ سے کوئی سولجر اپنے چیف کو اس قسم کی سزا برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ فیصلہ فوج میں ایک بم کی طرح گرا ہے اور فوج کے مورال پر بہت منفی اثر پڑا ہے۔ سولجرز حیران و پریشان ہیں کہ ان کے سابق چیف کے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کچھ سولجرز نے موجودہ چیف سے بھی گزارش کی ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ اس وقت جبکہ ہماری فوج وطن کی سلامتی کے لیے مختلف محاذوں پر روزانہ قربانیاں دے رہی ہے۔ بھارتی فوجیں سرحد پر جمع ہیں۔ انہوں نے سرحدی تارمختلف مقامات پر کاٹ دی ہے۔اسرائیلی ساختہ سپائیک انٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل اور روسی اور بھارتی ساختہ براہموس انٹی ٹینک گائیڈ ڈ میزائل سرحدوں پر نصب کر دئیے گئے ہیں ۔ بھارتی آرمی چیف اور بھارتی وزیر داخلہ آزاد کشمیر پر حملے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ان حالات میں اپنے سولجرز کے مورال پر اس قسم کا حملہ کر نا یقینا ایک اچھا فیصلہ معلوم نہیں ہوتا۔ فوج کی تربیت میں ایک اہم نکتہ کسی بھی کاروائی کے بعد اسکا تجزیہ کرنا اور اس سے سبق حاصل کرنا ہے۔ مشرف کی غلطی یہ نہیں کہ اس نے آئین کیوں توڑا بلکہ غلطی یہ ہے کہ آئین توڑنے کے بعد عدالت یا پارلیمنٹ سے اسکی منظوری کیوں نہ لی جیسا کہ 1999 میں ہوا یا اس سے پہلے مارشل لا ء لگانے والے جنرلز نے کیا۔ آئندہ کے لئے تمام جنرلز ہوشیار رہیں گے۔ اس فیصلے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ مقدمہ جنرل پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں چلایا گیا اور یہ ایک بہت اچھی مثال ہے کیونکہ پاکستان میں لوگ جرم کرنے کے بعد ملک سے بھاگ جاتے ہیں۔ اس لئے نہ تو ان کے خلاف مقدمات چلتے ہیں نہ انہیں سزائیں ملتی ہیں۔ حالات مختلف ہونے پر وہ واپس آکر کیسز سے بھی بری ہوجاتے ہیں اور تمام مراعات بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ می لارڈیہ جو آپ نے مثال قائم کی ہے اب اسے جاری رکھیں اور پاکستان کے ان تمام دشمنوں کو ایسی ہی سخت سزائیں دیں جو جرم کرنے کے بعد بیرونی ممالک میں چھپے ہیں۔ اس سلسلے میں حسین حقانی، الطاف حسین ، اسحاق ڈار کچھ بڑے لوگوں کے عزیز و اقارب سب پر کرپشن کے مختلف الزامات ہیں۔ اس بات کا بھی نوٹس لیا جائے کہ اس وقت کے وزیراعظم نے نہ صرف اسحاق ڈار جیسے مجرم کو پناہ دی بلکہ سرکاری طیارے میں اسے باہر محفوظ طریقے سے فرار کر ایا اور جہاز کا خرچہ بھی عوام کے پیسے سے ادا کیا گیا۔ اگر ان مجرموں کو سزائیں نہیں ملتیں تو عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ فوج کے خلاف فیصلے ذاتی عداوت کی بنیاد پر کئے گئے ہیں۔ جنکا مقصد فوج کو کمزور اور بے توقیر کرنا ہے۔ دوسرا یہ کہ بھاگے ہوئے مجرم عدلیہ کے فیورٹ ہیں اور عدالت انکی حفاظت کر رہی ہے۔ می لارڈ یہ وطن آپ سے غیر جانبدارانہ انصاف کا متقاضی ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024