ویسے تو کلبھوشن یادیو کو پاک فوج کی طرف سے سنائی گئی سزائے موت کو عالمی عدالت کی طرف سے برقرار رکھنا پاکستان اور بھارت کے حوالے سے سال 2019ء کی بڑی خبر تھی مگر اس سے بھی بڑی یادگار، خوشگوار اور سدا بہار خبر بھارت کے دو فائٹرز کو پاکستان کی حدود میں جارحیت کیلئے داخل ہونے پر مار گرانا اور ایک پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو زندہ گرفتار کرنا ہے۔ یہ خبر صدی کی شاید نہ ہو البتہ دہائی یا کئی دہائیوں کی بڑی خبر بھی ہوسکتی ہے۔2020ء میں جس ڈیویلپمنٹ یا پیشرفت کا امکان ہے وہ پایۂ تکمیل کو پہنچتی ہے تو یہ بھارت کے جہاز گرانے سے بھی بڑی ہوگی۔ اس کا تذکرہ اس تحریر کے آخری حصے میں کرتے ہیں۔
گزشتہ سال کی بڑی خبروں میں وزیراعظم عمران خان کے اقوام متحدہ میں خطاب نے دنیا کو ہلاکر رکھ دیا جس میں نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی پرعالمی برادری کا محاکمہ، کرپٹ لوگوں کی ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے پشت پناہی پر و عید اوردلیری سے کشمیر ایشو اٹھا کر بھارت کو منہ چھپانے پر مجبور کرنا تھا۔ گزشتہ سال آصف زرداری، شہباز شریف ،مریم نواز، فریال تالپور خورشید شاہ جیسے لیڈروں کی گرفتاری اور رہائی کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کی قید کے دوران ضمانت اور لندن روانگی بھی حیران کن رہی۔ میاں نواز شریف کی زندگی کو لاحق جان لیوا بیماری کی بنا پر علاج کیلئے 6ہفتے کی قابل توسیع ضمانت ہوئی۔ میاں نواز شریف کی بیماری پر پاکستان میں اس قدراودھم مچایا گیا کہ عمران حکومت نے خوفزدہ ہو کر لندن جانے کی اجازت دے دی۔ ضمانت کے بعد وہ سروسز ہسپتال سے گھر اور پھر لندن چلے گئے۔ مگر میاں صاحب ایک دن بھی لندن کے کسی ہسپتال میں داخل داخل نہیں رہے۔ مزید براں حسین نواز کے دانشمندانہ، فلسفیانہ اور کافی حد تک ظریفانہ اس بیان نے لندن کے ہسپتالوں کی ہائی جینک کنڈیشن پر بھی سوال اٹھا دیے۔’’ میاں صاحب کو انفیکشن سے بچانے کیلئے ہسپتال میں داخل نہیں کرایا گیا۔‘‘2019ء کی دیگر اہم خبروں اور واقعات میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف اپوزیشن کی طرف سے طاقت کے اظہار کیلئے عدم اعتماد کی تحریک تھی جو الٹا اپوزیشن کے گلے پڑ گئی۔ 64 ارکان نے کھڑے ہوکر تحریک کی حمایت کی مگر خفیہ ووٹنگ کے دوران 14 فاضل سینیٹرز کھسک گئے۔ مولانا فضل الرحمن الاؤ لشکر ہی نہیں پوری اپوزیشن کا ساتھ اوراعتماد لے کر اسلام آباد کو فتح کرنے آئے مگر انکے اور پوزیشن کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی ۔جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کا گیارہ ماہ پر محیط دور اسی سال شروع اور اختتام پذیر ہوا۔ انکے جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کیخلاف درخواست پر ایکشن نے پاکستان کی سیاست میں بھونچال پیدا کردیا۔لگتا تھا توسیع کو کالعدم کردیں گے جس کا اظہار انہوں نے ریٹائرمنٹ سے تین روز قبل آف دی ریکارڈ گفتگو میں کیا ۔دو روز کی عدالتی کارروائی کے دوران جس طرح پاک فوج حوالے سے ماحول بنا اور ججوں نے ریمارکس دیئے اس پر سوشل میڈیا میں ججوں کو بقول جسٹس کھوسہ را اور سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دیا جانے لگا۔ سوشل میڈیا پر ایسی مہم کسی بیک کے بغیر نہیں چلتی اسی بنا پر شاید توسیع کالعدم قرار دینے کی بجائے مشروط کردی گئی۔ اس فیصلے کے بعدسنگین غداری کیس میں مشرف کو سنائی جانے والی سزائے موت بھی بڑا واقعہ تھا۔ کچھ حلقوں کی جانب سے تحسین اور کچھ نے شدید تنقیدکی مگر تفصیلی فیصلہ میں خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کے مشرف کے طبعی موت مرنے کی صورت میںان کو گھسیٹ کر پاکستان لانے اور لاش تین دن ڈی چوک میں لٹکائے رکھنے کے حکم پرجہاں پاک فوج کی طرف سے اشتعال انگیز دعمل آیا وہیں تنقید کرنیوالے بھی خاموش ہوگئے۔
جنرل باجوہ کی توسیع کے فیصلے کو کہیں مبنی بَر انصاف اور کہیں مبنی بر بُغض فیصلہ قرار دیاگیا۔ تنقید کالُبِ لباب جنرل امجد شعیب کے الفاظ میں ’’یہ جسٹس کھوسہ کی شعبدہ بازی اور بدنیتی تھی۔‘‘میجر(ر) نذیرا سے دشمن کے اشارۂ ابرو پر کارروائی سمجھتے ہیں ۔وہ واٹس ایپ پر جسٹس مشیر عالم کے یہ الفاظ بھی دُہرا رہے ہیں۔میر جعفر اور میرصادق عدلیہ میں بھی جا بجا موجود ہیں۔ وکیلوں کی دل کے ہسپتال پر یلغار اور ارشد ملک ویڈیو بھی غیرمعمولی واقعات تھے۔
اب اس پیشرفت کا تذکرہ کرتے ہیں جس کی بات شروع میں کی۔ جنرل پرویز مشرف نے حالیہ انٹرویو میں کہا۔ ’’ پاکستان کیخلاف بھارت اور اسرائیل کے مضبوط و مربوط گٹھ جوڑ نے ہمیشہ پاکستان کو شدید نقصان سے دوچار کیا۔ اس گٹھ جوڑ کے توڑ کی ضرورت ہے۔ کسی ایک کو ساتھ ملا کر ممکن ہے۔پرویز مشرف کی بات سے اگر اتفاق کرلیا جائے تو کس کیساتھ پاکستان دشمنی کم یا ختم کر سکتا ہے۔ بھارت کیساتھ آپ صرف کشمیر سے دستبردار ہوکر معاملات آگے بڑھا سکتے ہیں بالفرض ایسا کرلیں تو بھی بنیا اکھنڈ بھارت کو ایمان کا حصہ سمجھتا ہے اس سے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔مشرف نے اپنے دور میں اسرائیل سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی جس کااُس نے گرم جوشی سے جواب دیا۔ مشرف کے بقول ترک صدر کے توسط سے وزیر خارجہ خورشید قصوری اسرائیلی ہم منصب سے ترکی میں ملے تھے۔ مشرف جیسی سوچ پاکستان میں کئی حلقوں میں پائی جاتی ہے۔ ہمارے لئے بھارت اور اسرائیل میں سے کسی ایک سے دشمنی کا خاتمہ مینڈیٹری یعنی لازم ہو تو کس طرف جانا ہوگا۔ یہ ملائیشیا میں کانفرنس میں شرکت کے فیصلے جیسا آپشن ہی سہی پاکستان کو کیا فیصلہ کرنا ہوگا۔ یہ سوال قارئین کی رائے کا متقاضی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو کچھ لوگ یہودی ایجنٹ کہتے ہیں۔ہوسکتا ہے۔ وہ ہچکچائیں یا گھبرائیں۔ مگر وہ دُبنگ، سخت اور غیر مقبول فیصلے کرنے کی شہرت رکھتے ہیں لہٰذارواں سال ٹونٹی ٹونٹی میں پیشرفت ممکن ہے ایسا ہواتو شاید یہ دہائیوں اور صدی کی سب سے بڑی خبر اور پیشرفت بن جائے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38