آئی ایم ایف پاکستان سے پہلے ہی ناراض ہے، اس کا مطالبہ ہے کہ اس بار حکومت حیل وحجت کے بجائے راست قدم اٹھائے۔ پہلے پروگراموں میں جو وعدے ہوئے تھے وہ پورے نہیں کئے گئے۔ اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ اس مرتبہ پیسہ دینے سے قبل جو بھی ردوبدل ہونا ہے، وہ پہلے ہوجائے۔ گزشتہ دور حکومت میں پاکستان نے ریکارڈ مرتبہ استثنیٰ لئے تھے جیسے نجکاری سے لے کر گردشی قرضے میں کمی تک کے وعدے وفا نہ ہوئے۔ کہا جارہاہے کہ آئی ایم ایف ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان کے بارے میں روئیے کی وجہ سے بھی چال بازی سے کام لے رہا ہے۔ امریکہ کے پاکستان بارے تبدیل شدہ روئیے نے آئی ایم ایف سے پیکیج کے حصول میں دقت پیدا کررکھی ہے۔
آئی ایم ایف کے مجوزہ پروگرام کے تحت 16 سو سے دوہزار ارب روپے کی ایڈجسٹمنٹ کی تجویز ہے جو تین سے چار سال کے لئے ہوگی۔ اس رقم کی کٹوتی جن مدات میں ہوگی ان میں اخراجات جاریہ میں بڑی کٹوتی مقصود ہے۔ اس میں قرض ادائیگی، دفاع اور رعایتی رقوم یعنی سبسڈیز ہیں۔ پچھلی حکومت نے ترقیاتی اخراجات پر کٹوتی لگا کر آئی ایم ایف کو مطمئن کیاتھا۔
فوج کی تنخواہوں میں کٹوتی کی کوئی تجویز حکومت کو مشکل میں ڈال دے گی جبکہ قومی مالیاتی کمشن (این ایف سی) میں کٹوتی سے صوبوں کو دی جانے والی رقوم متاثر ہوں گی۔ حکومتی ٹیم کا ماننا ہے کہ یہ تجاویز پوری کرنا ناممکن ہے۔ اسی طرح بعض ایسے غیرترقیاتی اخراجات ہیں جن کے لئے رقم کی فراہمی روکی جاسکتی ہے نہ ہی ان میں کمی کی جاسکتی ہے۔ یہ شرط حکومت کے لئے تسلیم کرنا ممکن نہیں۔ اخراجات جاریہ میں ایک پہلو جس پر بات ہوئی وہ ’پرائمری بیلنس‘ ہے۔ اس مد کے تحت حکومتی بجٹ آمدن اور اخراجات میں فرق واضح کرتا ہے جو سود ادائیگیوں کے بعد سامنے آتا ہے۔ یعنی جب سود منہا کرلیا جاتا ہے تو باقی ماندہ رقم اور اخراجات کے فرق کو دیکھتے ہوئے آپ اندازہ لگالیتے ہیں کہ کسی ملک کے پاس اتنے پیسے بچتے بھی ہیں کہ وہ قرض اتارنے کے قابل ہے یا نہیں۔ اگر صورتحال یہ ہو کہ قرض کی اقساط دینے کے لئے پیسے نہیں بچیں گے تو پھر جائزہ لیاجاتا ہے کہ ان اقساط کی ادائیگی کے لئے بھی قرض لینا ہوگا۔
گزشتہ سال پاکستان کا پرائمری خسارہ 760ارب روپے تھا یعنی رواں سال اس کی ادائیگی قرض سے اداکرنا ہوگی۔ یہ منحوس سودی چکر ہے کہ اصل زر اپنی جگہ رہتا ہے اور سود کی ادائیگی ہی مشکل تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ پرائمری خسارے میں کٹوتی کامطلب اخراجات جاریہ میں کٹوتی ہے اور یہ اس لئے بھی ضروری ہوتا ہے کیونکہ جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کی ایک شرح مقرر ہے جس سے زائد قرض نہ لینے کی ترجیح بنائی گئی ہے۔ شرح سود کے حوالے سے بھی آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ 2018والی شرح 2019ء میں بھی جاری ہے۔ وزارت خزانہ کے ترجمان کہہ چکے ہیں کہ ہم پہلے ہی شرح سود چارسو بنیادی پوائنٹس سے زائد تک بڑھا چکے ہیں۔ لیکن آئی ایم ایف اس میں مزید اضافہ کا خواہشمند ہے۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی کے آزاد ہونے کا پیغام پہلے ہی وزارت خزانہ آئی ایم ایف کو دے چکی ہے۔ آئی ایم ایف بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا تقاضا کررہا ہے۔ اسی طرح رواں مالی سال میں ایف بی آر کو زیادہ ریونیو جمع کرنے پر بھی زور دے رہا ہے جبکہ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ چھ ماہ میں اتنی جلد اتنے زیادہ ریونیو یعنی پیسے جمع کرنے کی گنجائش نہیں پاتا۔یہ صورت حال ظاہرکرتی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام وہ بھاری پتھر ہے جسے اٹھانا فی الوقت حکومت کے بس سے باہر ہے۔ اب حکومتی ٹیم کی توقع ہے کہ آئی ایم ایف جس چھت پر چڑھا ہے وہ اس سے نیچے آئے گا۔ انہوں نے اپنا بھی ایک پروگرام بنا کر ’’گورا صاحب‘‘ کے آگے رکھا ہے۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت نے غیرملکی زرمبادلہ جمع کرنے کے لئے دیگر متبادل ذرائع پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت کو امید ہے کہ اس کے اقدامات کے نتیجے میں دو سے تین ارب ڈالر کے غیرملکی محاصل اسے مل جائیں گے۔ انہیں غیرملکی سرمایہ کاری کی بھی امید ہے۔ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری سے ان پر دبائو میں کمی آئے گی۔ان حالات میں تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر ہونے والی بڑی کمی حکومت کے لئے غیرمتوقع آمدن کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔ گزشتہ سال کے 19ارب ڈالر کے مقابلے میں اس سال 13ارب ڈالر کے قریب اخراجات جاریہ کے خسارے میں کمی متوقع ہے لیکن اس کافائدہ تب ہی ہوسکتا ہے جب برآمدات میں اضافہ، غیرملکی محاصل اور براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری بڑھے۔ یہ بھی توقع کی جارہی ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان گوادر کے قریب ریفائنری سمیت بڑے سرمایہ کاری پیکج کا اعلان کرنے والے ہیں جو سات سے آٹھ ارب ڈالر مالیت کا ہوسکتا ہے۔ قطر کے ساتھ ایل این جی درآمد کے سمجھوتے کے لئے بھی کوششیں ہورہی ہیں۔
پاکستان کی معاشی صورتحال کو قدیم اساتذہ سے تعلق رکھنے والے غلام بھیک نیرنگ نے کچھ یوں بیاں کیاتھا
اک ہجوم غم وکلفت ہے خدا خیر کرے
جان پر نت نئی آفت ہے خدا خیر کرے
جائے ماندن ہمیں حاصل ہے نہ پائے رفتن
کچھ مصیبت سی مصیبت ہے خدا خیرکرے
………………… (ختم شد)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024