مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان14 مئی 2006ء کو لندن میں طے پانے والے ’’ میثاق جمہوریت ،،کے چھتیس نکات پر ابتدائیہ سمیت غور کیا جائے تویہ جاننا مشکل نہیں رہتا کہ اگرچہ ابتدائیہ میں نہ صرف قانون کی حکمرانی، جمہوریت، میرٹ، صحت، تعلیم، بنیادی حقوق، اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم، صوبائی خودمختاری، عورت کا مقام اوراقلیتوں کے حقوق، میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کی ضرورت کا شد و مد سے ذکر ہے بلکہ غربت ، جہالت، بیماری اور کلاشنکوف کلچر کے خاتمے کی اہمیت کو بھی محسوس کیا گیا ہے مگر حقیقت میں ایک ہی نکتہ ہے جو دونوں جماعتوں میں اتحاد کا باعث ہے پیشتر اس کے کہ ہم اس واحد نکتہ پر پہنچ سکیں، میثاق جمہوریت کے نمایاں خدوخال کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔ پہلی دو شقیں آئین کو 12 اکتوبر 1999ء سے پہلے والی پوزیشن میں بحال کرنے اور وزیراعظم کو گورنروںکی تقرری کے علاوہ تینوں مسلح افواج کے سربراہوں اور چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے تقرر کا اختیار دینے سے متعلق ہیں جبکہ تیسری شق میں ججوں کے تقرر کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جو جوڈیشل کمیشن تجویز کیا گیا ہے اس میں سیاست و وکالت سے منسلک افراد کی ایک خاص تعداد کو بطور رکن شامل کرتے ہوئے ججوں کو ہٹانے کا طریقہ دیا گیا ہے۔ شق نمبر4 سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کو ریگولر مقدمات سننے تک محدود کر کے فیڈریشن کے تنازعات سننے کیلئے علیحدہ آئینی عدالت کے قیام سے متعلق ہے۔ شق نمبر 5 سے 10 میں کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے، خواتین کی نشستوں، سینیٹ کی سیٹوں میں اضافے، فاٹا کو موجودہ کے پی صوبے میں شامل کرنے ، شمالی علاقہ جات کی ترقی اور بلدیاتی انتخابات کے جماعتی بنیادوں پر انعقاد کا ذکر ہے۔ شق 11 سے 12 میں قومی سلامتی کونسل کے خاتمے اور کسی شخص کے دو سے زائد بار وزیراعظم بننے پر پابندی کے خاتمے کا ذکر ہے شق 13 میں ایک کمیشن کا قیام تجویز کیا گیا ہے جسے اختیار ہوگا کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ آیا کو ئی سیاسی مخالف ریاستی جبر اور انتقامی احتساب کا نشانہ تو نہیں بن رہا۔نیز وزیر اعظم قائد حزب اختلاف کے مشورے سے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کا تقرر کریگا۔ بعض شقیں فلور کراسنگ، میڈیا کی آزادی ،گورننس، کشمیر پالیسی ،بھارت اور افغانستان سے پرامن تعلقات سے متعلق ہیں۔شق نمبر22 میں دونوں جماعتوں کا عہد درج ہے کہ وہ کسی فوجی حکومت یا فوج کی حمائت یافتہ حکومت کا ساتھ نہیں دینگے۔ شق نمبر 26 میں دہشت گردی کو ڈکٹیٹرشپ کی بائی پراڈکٹ قرار دیتے ہوئے ڈکٹیٹرشپ کی مذمت کی گئی ہے۔شق نمبر 32 سے 36 میں آئی ایس آئی۔ ایم آئی اور دوسری ایجنسیوں کو منتخب حکومت کے سامنے جوابدہ بنانے، دفاعی بجٹ کو پارلیمان میں زیر بحث لانے اور فوجیوں کے نام زمین کی الاٹمنٹ کی چھان بین کرنے وغیرہ جیسے اقدامات کا ذکر ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگرچہ میثاق جمہوریت پر بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے دستخط ہیں مگر اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں سے منسوب گھپلوں، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، چائنہ کٹنگ، کرپشن اور دیگر جرائم کے تدارک یا اس طبقے کے احتساب کی بھی کوئی ضرورت ہے۔ حالانکہ جن الزامات کی بنیاد پر دو بار بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف ہوئی اور دو بار ہی نواز شریف کی حکومت کو رخصت کیا گیا ان میں کرپشن اور اقرباء پروری کے الزامات سرفہرست تھے۔ ایسے منظرنامے میں حق تو یہ تھا کہ دونوں جماعتیں سیاست کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات تجویز کرتیں مگر ایسا کرنے کی بجائے انہوں نے صرف فوجی ڈکٹیٹرشپ کی مذمت اور اقتدار اعلیٰ پر عوامی نمائندوں کے استحقاق پر زور دینا مناسب سمجھا ہے۔ حالانکہ بے نظیر بھٹو کو پہلی بار صدر غلام اسحاق خاں نے اور دوسری مرتبہ ان کی اپنی جماعت سے منتخب ہونے والے صدر فاروق لغاری نے برطرف کیا۔ انہیں کسی فوجی جنرل نے نہیں ہٹایا۔ اسی طرح نواز شریف کو ایک بار غلام اسحاق خاں نے جبکہ دوسری بار جنرل پرویز مشرف نے ہٹایا تھا۔اس دور میں اگر چار حکومتیں نشانہ بنیں تو چار میں سے تین حکومتیں سویلین صدور کے ہاتھوں رخصت ہوئیں۔ مگر میثاق جمہوریت میں ٹارگٹ جہاں فوجی ڈکٹیٹرز کو کیا گیا ہے وہاں جوڈیشل کمیشن میں سیاسی اراکین کو شامل کرکے عدلیہ کی آزادی میں بھی مخل ہونے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ کسی طرح احتساب سے بچنے کی راہیں ہموار ہو سکیں اور شائد یہی وہ واحد مقصد ہے جس کی بنا پر میثاق جمہوریت پر نہ صرف اتفاق ہوا بلکہ دونوں جماعتوں کی لیڈرشپ اس پر قائم بھی نظر آرہی ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38