بانی پاکستان سے منسوب ہسپتال کھنڈرات میں تبدیل
حمیرا محمود
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے موسوم جناح ہسپتال کراچی کا شمار ملک کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ شہر کے مشہور ریلوے اسٹیشن کینٹ کے نزدیک قائم یہ ہسپتال ایک زمانے میں وفاقی حکومت کے ماتحت جدید ترین علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتا تھا اسی بناء پر ملک بھرسے ہزاروں مریض شفایاب ہونے یہاں آتے تھے۔ آج اس ادارے کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے جناح ہسپتال کی انتظامیہ کی من مانیاں اور کرپشن کی وجہ سے صوبے کا سب سے بڑا شفاء خانہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ حکومت اور محکمہ صحت نے سب کچھ جاننے کے باوجود اس اہم مسئلے کی جانب سے آنکھیں چرائی ہوئی ہیں۔ جون 2011ء سے قبل وفاقی حکومت کے زیر نگرانی یہ ادارہ عمدہ کارکردگی دکھارہا تھا سرکارکی جانب سے ملنے والے فنڈز مریضوں کو بہترین علاج اور دیگر سہولیات فراہم کرنے میں خرچ ہورہے تھے مگر آٹھویں ترمیم کے تحت جب صوبوں کو اختیارات منتقل کئے گئے تو یہ ادارہ بھی حکومت سندھ کے ماتحت چلا گیا۔ اس وقت اسپتال کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور جوائنٹ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا اور اس دن سے ہسپتال کی کارکردگی مسلسل روبہ زوال ہے۔ ہسپتال کے 28 شعبہ جات میں سے صرف 5 میںپروفیسرز تعینات ہیں جبکہ 23پروفیسرز ریٹائرڈ ہوچکے ہیں جن کے بعد ان کی آسامیوں پر کسی کی بھرتی ہوئی نہ کسی ڈاکٹر کو ترقی دی جاسکی۔
گزشتہ تین برس کے دوران 23 پروفیسرز اپنی مدت ملازمت پوری کرچکے ہیں اور صرف 2 پروفیسرز شعبہ جات چلارہے ہیں اس صورتحال کی بدولت امراض گردہ‘ کینسر‘ سرجری اور پلاسٹک سرجری یونٹ بند ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ کئی سالوںسے کسی ڈاکٹر یا پیرا میڈیکل اسٹاف کی ترقی نہیں ہوئی۔ ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی تقریباً20 آسامیاں خالی ہیں اس کے علاوہ نرسنگ اسٹاف‘ایڈمن آفیسرز‘پیرا میڈیکل اسٹاف ‘گریڈ ون سے لے کر ہائیر پوسٹ تک تقریبا آٹھ سو اسامیاں خالی ہیں جن پر کسی کو بھرتی نہیں کیا جارہا‘ اس معاملے پر بھی ہسپتال انتظامیہ نے اسٹے آرڈر لیا ہوا ہے۔ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے ساتھ انتظامیہ کا رویہ انتہائی برا اور ہتک آمیز ہے اس پر جب ڈاکٹرز‘ نرسوں اور دیگر عملے نے احتجاج کیا تو ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور جوائنٹ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے فون کرکے رینجرز کو طلب کرلیا جنہوں نے ڈاکٹرز‘ لوئر اسٹاف اور دیگر عملے کو مارا پیٹا اور گرفتار کرکے لے گئے۔ جب یہ مسئلہ سندھ حکومت تک پہنچا تو وزیراعلیٰ نے دونوں کو عہدوں سے برطرف کردیا اس مسئلے پر بھی انہوں نے عدالت سے حکم امتنازعی حاصل کرلیا۔
ہسپتال میں سینئرز ڈاکٹروں کی شدید کمی کے باعث غریب مریضوں کو علاج کے حصول میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔ صوبائی حکومت سے ہر سال بجٹ ملتا ہے اس کے باجود ہسپتال کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر‘ ابلتے گٹر‘ ٹوٹے اور رستے ہوئے سیوریج پائپ‘ ہسپتال کی المناک داستان سنارہے ہیں۔ ادویات کی قلت کا یہ حال ہے کہ اینٹی الرجی ٹیبلٹ ہے نہ آنکھ‘ کان کے قطرے‘ دوائوں کی مد میں ملنے والے کروڑوں روپے کہاں جاتے ہیں اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ شعبہ حادثات میں بم دھماکوں کے بعد کروڑوں روپے فنڈز ملے جن میں سے چار کروڑ شعبہ حادثات کی تعمیر پر خرچ ہوئے دنیا بھر کے ہسپتالوں میں شعبہ حادثات تک فوری رسائی ہوتی ہے مگر جناح ہسپتال کا ایمرجنسی وارڈ چاروں اطراف سے اونچی اونچی فصلوں میں گھرا ہونے کے باعث سینٹر جیل کا منظر پیش کرتا ہے یہاں رینجرز اور پولیس ہر وقت موجود رہتی ہے باقی تمام ہسپتال کی سیکیورٹی کا کوئی پُرسان حال نہیں ۔ ہسپتال کی موجودہ انتظامیہ نے گزشتہ کئی سالوں سے آڈٹ نہیں کرایا۔ اس لئے ہسپتال کو ملنے والے فنڈز اور عطیات کہاں خرچ ہوتے ہیں کسی کو معلوم نہیں۔ شفاخانے میں مشینیں اور دیگر آلات خراب ہیں ایک خاتون نے ای سی جی مشین خریدنے کیلئے پیسے دیئے تھے وہ کہاں گئے اس کا بھی کچھ معلوم نہیں۔ ایک ڈونر ای این ٹی ڈیپارٹمنٹ کو اسٹیٹ آف دی آرٹ بنانا چاہتا تھا اس نے وزٹ کیااور اخراجات کا تخمینہ لگوایا لیکن جب اسے آفس جانے کیلئے گندگی سے گزرنا پڑا تو اس نے منع کردیا کہ جب مریض گندگی کے ڈھیر سے گزر کر وارڈ میں جائے گا تو مزید بیمار ہوجائے گا ایک سال بعد اس نے دوبارہ وزٹ کیا تو گندگی کی وہی حالت دیکھ کر واپس چلا گیا۔
امریکی سفیر رچرڈ ولسن گائنی وارڈ اپنی نگرانی میں بنوا رہے ہیں۔جناح ہسپتال میں ایک ہیلی پیڈ بھی بنا ہوا ہے جہاں ایدھی کا ہیلی کاپٹر مریضوں کو لے کر آتا تھا وہ جگہ اب گھنے جنگل میں تبدیل ہوگئی ہے اور گزشتہ دنوں وہاں سے اسلحہ بھی برآمد ہوچکا ہے۔ اولڈ کیمپس میں ہاسٹل تھا جو توڑ دیا گیا اور آج تک نہیں بنا۔ گزشتہ ساڑھے تین سال سے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے ہسپتال کا ایک وزٹ بھی نہیں کیا جبکہ سابق ڈائریکٹر ہر بدھ کو اسپتال کا معائنہ کرتے تھے۔ جناح ہسپتال کا رقبہ 75 ایکڑ زمین پر مشتمل ہے جس میں سے 25 ایکڑ زمین پر کچی آبادی بسائی گئی ہے اور وہاں ہسپتال کی بجلی دی جاتی ہے ان لوگوں سے بجلی کی مد میں بل لیتے ہیں اور ہسپتال کا بل گورنمنٹ دیتی ہے۔ شفاخانے میں ٹک شاپ‘ کیفے ٹیریا‘ میڈیکل اسٹور کھلے ہوئے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی لاکھوں میں ہے لیکن اندرون خانہ ڈیل کرکے ان سے کرایہ پندرہ سے بیس ہزار ماہانہ وصول کیا جاتا ہے اور بجلی بھی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ لوئر اسٹاف کی کالونی میں موجود دکانوں سے بھی بھتہ آتا ہے وہاں کی بجلی بھی فری ہے۔ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کاٹیچنگ ہسپتال بھی جناح اسپتال ہے جس کا سندھ حکومت اور محکمہ صحت باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرچکے ہیں لیکن انتظامی افسران یہ فیصلہ بھی تسلیم کرنے سے انکار کرچکے ہیں جس کی وجہ سے طلبہ کو ہائوس جاب کرنے میں بھی دشواریوں کا سامنا ہے۔ ہسپتال کو ملنے والی تین گاڑیوں میں سے دو گاڑیاںانتظامی افسران کے زیر استعمال ہیں۔ جناح ہسپتال کی ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے اپنی شکایات پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل تک پہنچائیں لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ جناح ہسپتال کے انتظامی افسران کی کرپشن کے کیسز نیب اور ایف آئی اے پاس بھی ہیں۔ایف آئی اے نے کچھ عرصہ قبل جانچ پڑتال شروع کی تھی لیکن ایف آئی اے سربراہ کے قریبی رشتہ دار ڈاکٹر کو گھر تحفے میں دے کر فائل بند کروادی گئی ہیں‘ یہی حال نیب کے کیس کا ہوا۔
جناح ہسپتال کی موجودہ حالت کے پیش نظر ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ جناح ہسپتال کا الحاق جناح سندھ میڈیکل یونویرسٹی سے ہوچکا ہے لہٰذا اس کے وائس چانسلر کو ہسپتال کا انتظام بھی سنبھالنا چاہیئے ۔ سپریم کورٹ کے آرڈر کے تحت 20 گریڈ کا افسر 21 گریڈ میں بھرتی نہیں ہوسکتا لیکن جناح ہسپتال میں اس آرڈر کی نافرمانی کی جاری ہے۔ اور 20 گریڈ کے افسر ہائی گریڈ آسامی سنبھالے ہوئے ہیں اس مسئلے پر بھی انتظامیہ نے سندھ ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر لیا ہوا ہے۔ جناح ہسپتال گزرے وقتوں میں مثالی ادارہ ہوا کرتا تھا ۔ یہاں سے ڈاکٹرز بن کر ملک بھر میں جاتے تھے۔ ڈائو یونیورسٹی اور سول ہسپتال کی حالت اس وقت انتہائی خراب تھی لیکن جب سے ڈائو یونیورسٹی کا الحاق سول ہسپتال سے ہوا ہے تو اس نے ترقی کرلی ہے۔ 52 نئے یونٹس کھل چکے ہیں جبکہ جناح ہسپتال وینٹی لیٹر پر آخری سانسیں لے رہا ہے حکومت سندھ اور وزارت صحت کو چاہیئے کہ صوبے کے سب سے بڑے شفاء خانے کو تباہ ہونے سے بچائیں ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور انتظامیہ کی اس قانونی جنگ میں نقصان غریب اور بے بس مریضوں کا ہورہا ہے۔