ہم قائداعظم محمد علی جناحؒ کی سالگرہ 25 دسمبر کو جوش خروش سے مناتے ہیں لیکن سوانح نگاروں کے مطابق قائد اعظمؒ 25 دسمبر کو نہیں بلکہ 20 اکتوبر 1875ءکو پیدا ہوئے تھے۔ برطانوی بھارتی ثقافت میں پرورش پانے والے جناح (تب جناح بائی) کو بچپن میںکرسمس کا تہوار بہت بھاتا تھا۔ اسی طرح سے جب جناح سے ایک بار ان کی کلاس میں پوچھا گیا کہ ان کی سالگرہ کس دن ہوتی ہے تو انہوں نے سال کے سب سے پسندیدہ دن یعنی25 دسمبر کو اپنی سالگرہ کا دن بتایا ۔
ہر سال 25 دسمبر کو قائد اعظم کی میراث کے حوالے سے میڈیا چینلز پر ایک بحث چھڑ جاتی ہے اورسیاسی اجتماعات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جس میںخاص طور پر قائد اعظمؒ کے پاکستان کے بارے میں نظریے کواجاگر کیا جاتا ہے۔ ہم سیمنارز،کانفرسوں اور جلسوں کا انعقادکرتے ہیں۔ ہم قائداعظمؒ کی ذاتی زندگی اور ان کی کامیابیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ہم ان کے نظریات اور انداز پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ اگر پاکستان کے قیام کے بعد کچھ عرصہ تک قائد اعظمؒ زندہ رہتے تو پاکستان کیساہوتا؟ کیا ادارے خوشحال ہوتے ؟ کیا جمہوریت مضبوط ہوتی؟ کیا ہم بین الاقوامی سطح پر مہذب قوموں میں اپنی جگہ بنا پاتے؟
سب سے بڑھ کر ہماری قیاس آرائی کے مطابق کیا قائد اعظمؒ پاکستان کو ”اسلامی جمہوریہ“ بناتے یا ایک عام جمہوری ملک بناتے؟ کیا قائداعظمؒ کی تشکیل دی گئی مسلم لیگ ایک سیاسی جماعت ہوتی جو اسلامی اقدار کی پاسدار تھی ۔ کیا تھری پیس سوٹ پہنے جناح ہمارے قائد ہوتے یا پھر شیروانی پہنے ایک عام آدمی؟
ہر سال 25 دسمبر کو ملی نغموں کے اس پس منظر میں ہم تاریخ کے ان مخصوص حصوں پر انحصار کرتے ہوئے جو ہماری متعلقہ کہانیوں کی تائید کرتے ہیں ان سوالوں پر غور کرتے ہیں اور اگلی ہی صبح ہم سب ولولہ انگیزی کو پس پشت ڈال کر اپنی گمنام زندگیوںکی جانب لوٹ جاتے ہیں۔ آنے والے 25 دسمبر تک قائد ہمارے لئے دفاتر کی دیواروں سے لٹکے فریم میں قید ایک مبصر کے سوا کچھ نہیں رہتے جو ان مظالم کا خاموشی سے مشاہدہ کرتے رہتے ہیں جس کا ہم اس وعدے کے نام پر ارتکاب کرتے ہیں جو انہوں نے بھارت میں لاکھوں بدنصیب مسلمانوں کے لئے کیا تھا۔
پاکستان کی سیاسی ، مذہبی اور ثقافتی اقدار کے حصول میں رہنمائی اور درست سمت کے تعین کے لئے ہمارا قائداعظمؒ کی زندگی کی جانب رجحان ایک فطری عمل ہے اور ایسا کرنا شاید اہم ضرورت بھی ہے لیکن دور حاضر کے جدید مسائل اور بحرانوں کوحل کرنے کے تقاضے کچھ اور ہیں۔
حتمی طور پر اسی طرح کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ تمام لوگ جو جناح کے نظریے کے حقیقی پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں خود کو جناح کا وارث خیال کرنے لگتے۔لیکن دوسروں کے ادھار لیتے ہوئے خواب ہماری روح کے خلا کو پُر نہیں کر سکتے۔ جناح کی تلاش میں سرگرداںاس راستے پرچلتے ہوئے ہم نے بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو دی ہے اور اب وقت کی ریت پر اپنے ٹوٹے ہوئے خواب بکھیرے ہم الجھن بھرے اندھیرے میں بیٹھے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ قائداعظم ہمیں اس دھول بھری جگہ سے اٹھانے کے لئے نہیں آئیں گے۔ ہمیں ہر کام اپنے زور بازو پر کرنا ہوگا۔ قائداعظمؒ کو اندھیروں میں ڈھونڈنے کے بجائے ہمیں اپنے بل پر اپنے پیروں پر کھڑے ہونا ہے اور فاصلوں کو سمیٹ کر خود کو تلاش کرنا ہے۔ اگر کوئی اور وجہ ہمیں نظر نہیں آتی تو پھر یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ قائداعظمؒ خود بھی علامہ محمد اقبالؒ کی ”خودی“ کے پیروکار تھے اور ہمیں بھی ایسا ہی دیکھنا چاہتے تھے۔
آج یہ بالکل غیر متعلقہ سوال ہے کہ قائداعظم ایک اسلامی ریاست چاہتے تھے یا نہیں۔ اس سوال کا جواب قائداعظم نے نہیں بلکہ ہم نے اپنے بچوں کو دینا ہے کہ کیوں ہم نے اپنے گھر کی بنیاد میں عدم برداشت کو بڑھنے کی اجازت دی۔ ہم قائداعظم کے پیچھے چھپ کر تشدد سے اپنے تعلق کی وضاحت نہیں دے سکتے۔ ہمیں اپنے ملک کو اپنی خواہشات کے مطابق سنوارنا ہے اور ایمانداری سے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنے ملک کو کیسا بنانا چاہتے ہیں نہ کہ یہ دیکھنا ہے کہ قائداعظم پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتے تھے۔ ہم اپنے جذبوں کی لو کو دہکانے کیلئے قائداعظم کو نہیں بُلا سکتے۔ قائداعظم ہمیں ہماری تصوریت کی موت سے نہیں بچا سکتے۔
ہمارے مذہبی اور ثقافتی تصورات نے ہمیں اس قدر جکڑ رکھا ہے کہ ہمارا عقیدہ بن گیا ہے کہ ایک دن کوئی جناح یا کوئی صلاح الدین ہمارے ملک کی مٹی سے جنم لے گا اور وہ ہمیں تمام برائیوں سے بچا لے گا۔ صدیوں سے ہم اس مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں جو قائد کا سچا وارث اور ان کی میراث ہو۔ ہم اسے ہر جنرل میں اور ہر جج میں تلاش کرتے ہیں۔ ہم اسے ہر سیاستدان اور ہر مذہبی رہنما میں تلاش کرتے ہیں۔
اب وقت ہے کہ ہمیں مسیحا کی تلاش ختم اور اس کی آمد کی دعائیں کرنا چھوڑ دینا چاہئے اور صرف اس حقیقت کو مان لینا چاہےے کہ ہم میں سے ہر ایک شخص مسیحا ہے اور جناح ہے جس کا ہم برسوں سے انتظار کر رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے اندر ایسے خواب دیکھنے اور ان کو پورا کرنے کی جرا¿ت پیدا کریں تو کوئی بھی مشکل ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اب صرف ایک ہی سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ہم میں سے وہ کون جناح ہے جو قائد بننے کی صلاحیت رکھتا ہے؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024