اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹری ایک مقدس پیشہ ہے۔ اسلام میں عبادت کا جو تصور ہے وہ دیگر مذاہب سے مختلف اور منفرد ہے۔ دیگر مذاہب میں عبادت بھی ہے لیکن اسلام میں عبادت ہی ہے۔ ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کی رضا یا اس کے بندوں کی فلاح کے لئے کیا جائے‘ عین عبادت ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دکھی انسانیت کی خدمت کرنا‘ مریضوں کو شفا پہنچانا‘ نرم ماہرانہ ہاتھ تپتی ہوئی پیشانیوں پر رکھنا بھی عبادت کے زمرے میں آتا ہے‘ بشرط اس میں لالچ کا عنصر شامل نہ ہو‘ یہی وجہ ہے کہ کچھ ڈاکٹر اور حکیم تو مسیحا نفس ہوتے ہیں‘ لیکن وہ جو اپنے فرض سے عملاً روگردانی کرتے ہیں یا محض حصول زر کو ہی اپنا مطمع نظر بنا لیتے ہیں وہ صرف گناہ نہیں بلکہ گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
صحت اور تعلیم کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ہماری حکومتیں عوامی ضروریات اور توقعات پر کبھی بھی پورا نہیں اتر پاتیں‘ اپنے اللوں تللوں پر تو رقم پانی کی طرح بہا دیتی ہیں۔ حکومت قائم رکھنے کے لئے وزراء اور مشیروں کی فوج‘ ظفر موج کھڑی کھڑی کر لیتی ہیں۔ حکمران اپنی حفاظت کے لئے اربوں روپے کی بلٹ پروف گاڑیاں خریدتے ہیں اور بقول شخصے اگر چھینک بھی آ جائے تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ لندن یا دبئی میں جا کر ماری جائے۔ صحت اور تعلیم کے لئے جو سالانہ بجٹ مختص ہوتا ہے۔ اسے اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
اٹھارہ کروڑ کی آبادی‘ غربت کی چکی میں پسے ہوئے خستہ حال لوگ‘ ماحولیاتی آلودگی کے شکار بے بس شہری‘ بیماریاں جس گھر کی راہ دیکھ لیں وہاں مستقل ڈیرے ڈال دیتی ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے علاج بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ دواﺅں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ نوے لاکھ کی آبادی والے شہر لاہور میں گنتی کے چند سرکاری ہسپتال ہیں جن کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ وہ سرکاری ملازم جن کو ان ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت میسر ہے ان کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ پرائیویٹ ہسپتالوں سے علاج کرائیں۔
گو پرائیویٹ ہسپتال خاصے مہنگے ہیں لیکن ان کی Contribution کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مقابلے کی وجہ سے یہ اپنے معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے سرکاری ہسپتالوں پر بھی پریشر کسی نہ کسی حد تک کم ہوا ہے ویسے تو ہمارے ہسپتال بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتے‘ لیکن خاص طور پر امراض قلب میں سب سے مسئلہ صفائی اور POST OPERTIVE کا ہے۔ اچھے سے اچھا سرجن بھی اس مریض کو شفایاب نہیں کر سکتا جس کو آپریشن ہوتے ہی انفیکشن ہو گئی ہو۔
ہمیں یہ کالم لکھنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی ہے کہ آج کل ڈاکٹرز ہسپتال اخباروں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے مبینہ طور پر ایک ڈاکٹر کی غفلت یا نا اہلی کی وجہ سے ایک تین سالہ بچی دم توڑ گئی ہے۔ اگر ڈاکٹر کسی تساہل یا تغافل کا شکار ہوا ہے تو اس کے خلاف قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ایکشن ضرور ہونا چاہئے انسانی جان بہت قیمتی ہے یہ الگ بات ہے کہ وطن عزیز میں لوگ کیڑوں مکوڑوں کی طرح مرتے رہتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر اگر کسی ڈر خوف کی وجہ سے روپوش ہو گیا ہے تو اسے تلاش کر کے انکوائری ہونی چاہئے اگر عدالت اسے مجرم ٹھہرائے تو قرار واقعی سزا بھی ملنی چاہئے یہ مسلمہ امر ہے کہ اس وقت امریکہ میڈیکل سائنس میں نمبر ون ہے جس قدر عمدہ ہسپتال‘ ماہر ڈاکٹر اور سرجن وہاں ہیں۔ دنیا میں کہیں نہیں باایں ہمہ ہر سال سینکڑوں لوگ ان ماہر ڈاکٹروں کے خلاف غفلت کے جرم میں قانونی چارہ جوئی کرتے ہیں۔ چونکہ Human Error کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس لئے مقدمے میں کامیابی کی صورت میں ڈاکٹروں کو بھاری ہرجانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب حکومت نے چس طرح عجلت سے کام لیتے ہوئے ہسپتال کی فارمیسی بند کی اس سے سارا ہسپتال اور اس میں سو کے لگ بھگ داخل مریض متاثر ہوئے۔ ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز نہیں بن سکتی اس اقدام سے کئی مریضوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی تھیں۔ ڈاکٹروں میں جو خوف و ہراس پھیلا اس کے اثرات بھی مریضوں پر مرتب ہو سکتے تھے۔ اس ہسپتال کو کھلے قریباً دس سال ہو چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس عرصے میں اس قسم کے کتنے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز کئی سرکاری افسر ہیں جنہوں نے سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کرانے کی بجائے ذاتی گرہ سے رقم خرچ کر کے ڈاکٹرز ہسپتال سے آپریشن کروانا زیادہ مناسب سمجھا
انصاف کا بنیادی تقاضا پورا کیا جائے‘ مرحوم بچی کے والد کے ساتھ اور ہسپتال کے ساتھ بھی.... دوہرے معیار کی بجائے سب کو ایک ہی انتظامی چھڑی سے ہانکا جائے یہ نہ ہو کہ چیدہ چیدہ پلازے تو چشم زدن میں زمین بوس ہو جائیں اور باقیماندہ کے لئے کسی دباﺅ یا لگاﺅ کی وجہ سے کمیٹی بٹھا دی جائے۔ اس قسم کی کمیٹیاں جب بیٹھ جائیں تو پھر اٹھنے کا نام نہیں لیتیں۔ اب پلازے بھی گرانے کی بجائے بنانے والوں کو جرمانے کئے جائیں جنہوں نے جانتے بوجھتے ہوئے اجازت دی ان کا بھی احتساب کرایا جائے۔ تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کر سکے۔
صحت اور تعلیم کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ہماری حکومتیں عوامی ضروریات اور توقعات پر کبھی بھی پورا نہیں اتر پاتیں‘ اپنے اللوں تللوں پر تو رقم پانی کی طرح بہا دیتی ہیں۔ حکومت قائم رکھنے کے لئے وزراء اور مشیروں کی فوج‘ ظفر موج کھڑی کھڑی کر لیتی ہیں۔ حکمران اپنی حفاظت کے لئے اربوں روپے کی بلٹ پروف گاڑیاں خریدتے ہیں اور بقول شخصے اگر چھینک بھی آ جائے تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ لندن یا دبئی میں جا کر ماری جائے۔ صحت اور تعلیم کے لئے جو سالانہ بجٹ مختص ہوتا ہے۔ اسے اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
اٹھارہ کروڑ کی آبادی‘ غربت کی چکی میں پسے ہوئے خستہ حال لوگ‘ ماحولیاتی آلودگی کے شکار بے بس شہری‘ بیماریاں جس گھر کی راہ دیکھ لیں وہاں مستقل ڈیرے ڈال دیتی ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے علاج بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ دواﺅں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ نوے لاکھ کی آبادی والے شہر لاہور میں گنتی کے چند سرکاری ہسپتال ہیں جن کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ وہ سرکاری ملازم جن کو ان ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت میسر ہے ان کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ پرائیویٹ ہسپتالوں سے علاج کرائیں۔
گو پرائیویٹ ہسپتال خاصے مہنگے ہیں لیکن ان کی Contribution کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مقابلے کی وجہ سے یہ اپنے معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے سرکاری ہسپتالوں پر بھی پریشر کسی نہ کسی حد تک کم ہوا ہے ویسے تو ہمارے ہسپتال بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتے‘ لیکن خاص طور پر امراض قلب میں سب سے مسئلہ صفائی اور POST OPERTIVE کا ہے۔ اچھے سے اچھا سرجن بھی اس مریض کو شفایاب نہیں کر سکتا جس کو آپریشن ہوتے ہی انفیکشن ہو گئی ہو۔
ہمیں یہ کالم لکھنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی ہے کہ آج کل ڈاکٹرز ہسپتال اخباروں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے مبینہ طور پر ایک ڈاکٹر کی غفلت یا نا اہلی کی وجہ سے ایک تین سالہ بچی دم توڑ گئی ہے۔ اگر ڈاکٹر کسی تساہل یا تغافل کا شکار ہوا ہے تو اس کے خلاف قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ایکشن ضرور ہونا چاہئے انسانی جان بہت قیمتی ہے یہ الگ بات ہے کہ وطن عزیز میں لوگ کیڑوں مکوڑوں کی طرح مرتے رہتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر اگر کسی ڈر خوف کی وجہ سے روپوش ہو گیا ہے تو اسے تلاش کر کے انکوائری ہونی چاہئے اگر عدالت اسے مجرم ٹھہرائے تو قرار واقعی سزا بھی ملنی چاہئے یہ مسلمہ امر ہے کہ اس وقت امریکہ میڈیکل سائنس میں نمبر ون ہے جس قدر عمدہ ہسپتال‘ ماہر ڈاکٹر اور سرجن وہاں ہیں۔ دنیا میں کہیں نہیں باایں ہمہ ہر سال سینکڑوں لوگ ان ماہر ڈاکٹروں کے خلاف غفلت کے جرم میں قانونی چارہ جوئی کرتے ہیں۔ چونکہ Human Error کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس لئے مقدمے میں کامیابی کی صورت میں ڈاکٹروں کو بھاری ہرجانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب حکومت نے چس طرح عجلت سے کام لیتے ہوئے ہسپتال کی فارمیسی بند کی اس سے سارا ہسپتال اور اس میں سو کے لگ بھگ داخل مریض متاثر ہوئے۔ ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز نہیں بن سکتی اس اقدام سے کئی مریضوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی تھیں۔ ڈاکٹروں میں جو خوف و ہراس پھیلا اس کے اثرات بھی مریضوں پر مرتب ہو سکتے تھے۔ اس ہسپتال کو کھلے قریباً دس سال ہو چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس عرصے میں اس قسم کے کتنے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز کئی سرکاری افسر ہیں جنہوں نے سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کرانے کی بجائے ذاتی گرہ سے رقم خرچ کر کے ڈاکٹرز ہسپتال سے آپریشن کروانا زیادہ مناسب سمجھا
انصاف کا بنیادی تقاضا پورا کیا جائے‘ مرحوم بچی کے والد کے ساتھ اور ہسپتال کے ساتھ بھی.... دوہرے معیار کی بجائے سب کو ایک ہی انتظامی چھڑی سے ہانکا جائے یہ نہ ہو کہ چیدہ چیدہ پلازے تو چشم زدن میں زمین بوس ہو جائیں اور باقیماندہ کے لئے کسی دباﺅ یا لگاﺅ کی وجہ سے کمیٹی بٹھا دی جائے۔ اس قسم کی کمیٹیاں جب بیٹھ جائیں تو پھر اٹھنے کا نام نہیں لیتیں۔ اب پلازے بھی گرانے کی بجائے بنانے والوں کو جرمانے کئے جائیں جنہوں نے جانتے بوجھتے ہوئے اجازت دی ان کا بھی احتساب کرایا جائے۔ تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کر سکے۔