شازیہ فرید پاکستان مسلم لیگ (ن) کی گوجرانوالہ سے ایک نمایاں سیاسی رہنما اور رکن قومی اسمبلی ہیں۔ پچھلے کئی سال سے پارلیمانی سیاست کا حصہ بننے والی شازیہ فرید کا شمار پڑھے لکھے اور ادب و ثقافت سے محبت کرنے والے پارلیمنٹرینز میں ہوتا ہے۔ محترمہ شازیہ فرید کا تعلق ایک ایسے سیاسی خاندان سے ہے۔ جس کے دیگر افراد بھی سیاسی میدان میں سرگرم ہیں۔میاں نواز شریف کے قریبی سمجھے جانے والے سینئر رہنما پیر غلام فرید کا ملکی سیاست میں اہم مقام تسلیم کیا جاتا ہے ۔شازیہ فرید انہی کی صاحبزادی ہیں۔
کچھ دن پہلے گوجرانوالہ ایک ادبی نشست میں شازیہ فرید صاحبہ سے ،ان کے انداز سیاست اور عوامی مسائل کے حوالے سے بھر پور مکالمہ کا موقع ملا۔سیاست کسی بھی ملک اور معاشرے کی ترقی اور استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ایک طرف جہاں ہمارے کچھ سیاسی راہنما نفرت،عصبیت اور انا پرستی کے شکار ہیں تو وہیں دوسری طرف محترمہ شازیہ فرید صاحبہ کی طرح وضعداری، تحمل، ادب اور گفتگو کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھنے والے لوگ بھی قومی منظر نامے میں ابھر کے سامنے آرہے ہیں۔جو یہ سمجھتے ہیں کہ، جب سیاست میں شائستگی، برداشت اور تہذیب شامل ہو، تو یہ نہ صرف جمہوریت کے استحکام کا باعث بنتی ہے بلکہ عوام میں اعتماد اور ہم آہنگی کو بھی فروغ دیتی ہے۔وضعداری سے مراد وہ اخلاقی اصول اور روایات ہیں جو کسی بھی معاشرے کو مہذب اور پُرامن بناتے ہیں۔
سیاست میں وضعداری کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی رہنما مخالف سیاسی راہنماوں کے خلاف بات کرتے وقت بھی اپنی گفتگو، رویے اور فیصلوں میں شائستگی اور دیانت داری کو برقرار رکھیں۔ ایک سچے سیاسی رہنما کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے نظریات کو بھی احترام کی نظر سے دیکھے اور اختلافِ رائے کو برداشت کرے۔ تحمل نہ صرف سیاسی ماحول کو خوشگوار رکھتا ہے بلکہ معاشرتی ترقی کے دروازے بھی کھولتا ہے۔ادب ایک قوم کی تہذیب اور ثقافت کا مظہر ہوتا ہے۔ اگر سیاستدانوں کی زندگیوں میں ادب کا عنصر شامل ہو، تو یہ اُن کے طرز ِ سیاست کو ایک معیاری اور باوقار پیشہ بنا سکتا ہے۔ادب سے محبت کرنے والے سیاست دان اپنی تقاریر اور بیانات میں مہذب الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ ادب کا دامن تھامنے والے سیاست دان نہ صرف عوام کے دلوں میں جگہ بناتے ہیں بلکہ تاریخ میں بھی عزت کے ساتھ یاد رکھے جاتے ہیں۔
سیاست میں گفتگو کا انداز بہت اہم ہوتا ہے۔ جب سیاست دانوں کے دن کا کچھ وقت کتب بینی میں گزرتا ہے تو ان کے سوچنے سمجھنے اور چیزوں کو دیکھنے کا انداز بدل جاتا ہے۔ وہ اپنے الفاظ کو ناپ تول کر استعمال کرتے ہیں اور ایسے الفاظ سے گریز کر تے ہیں جو کسی کی دل آزاری یا بدامنی کا سبب بنیں۔پھر پارلیمنٹ اور عوامی اجتماعات میں ان کی مثبت اور مدلل گفتگو جمہوری اقدار کی مضبوطی کا باعث بنتی ہے۔ ایک مہذب سیاست دان دوسروں کو سننے، سمجھنے اور اپنی بات دلیل اور نرمی کے ساتھ کہنے کا ہنر جانتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاست میں وضعداری، تحمل، ادب سے لگاؤ اور گفتگو کے آداب کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اگر سیاست دان ان اقدار کو اپنا لیں تو یہ نہ صرف ملک و قوم کے لیے مفید ہوگا بلکہ سیاست کا وقار بھی بلند ہوگا۔
مہذب سیاست ایک خوشحال اور پُرامن معاشرے کی بنیاد رکھتی ہے، جہاں ہر فرد کو اظہارِ رائے کی آزادی اور عزت دی جاتی ہے۔ یہی جمہوریت کی اصل روح اور ایک ترقی یافتہ قوم کی پہچان ہے۔ اگر سیاست سے اخلاقیات کا عنصر ختم ہو جائے، محبت کی جگہ نفرت لے لے، اور خدمتِ عوام کی بجائے ذاتی مفادات اولین ترجیح بن جائیں، تو معاشرہ انتشار اور بدحالی کا شکار ہو جاتا ہے۔ سیاست کا مقصد عوام کی بھلائی اور ملک کی ترقی ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے جب سیاست سے اخلاقیات کا خاتمہ ہو جاتا ہے، تو بدعنوانی، اقربا پروری، جھوٹ اور دھوکہ دہی عام ہو جاتی ہے۔ ایک مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں سیاستدان دیانت دار، سچائی کے علمبردار اور اصولوں کے پابند ہوں۔ اخلاقی اقدار سے مزین سیاست نہ صرف عوام کا اعتماد حاصل کرتی ہے بلکہ ملک کو ترقی کی راہ پر بھی گامزن کرتی ہے۔ایک اچھا سیاستدان وہی ہوتا ہے جو ذاتی مفادات کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیح دے۔
خدمتِ عوام کا جذبہ رکھنے والے رہنما معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لاتے ہیں، تعلیم، صحت، انصاف اور روزگار کے مواقع فراہم کرتے ہیں، اور عوام کو ایک بہتر زندگی دینے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ خدمتِ خلق وہ بنیادی عنصر ہے جو ایک سیاستدان کو لیڈر بناتا ہے اور اسے عوام کے دلوں میں جگہ دِلاتا ہے۔اگر سیاست، اخلاقیات، محبت اور خدمتِ عوام ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ جائیں، تو ایک ایسا معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے جو انصاف، ترقی، اور بھائی چارے کی بنیاد پر استوار ہو۔
محترمہ شازیہ فرید صاحبہ سے شہر میں سے ناجائز تجاوازت کے خاتمے ،گلی محلوں سے لے پارکس کی صفائی،سگنل فری روڈ ،میٹرو بس اور دوسرے منصوبوں پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔آخر میں ہم نے عرض کیا کہ،ویسے تو ہماری انتظامیہ نے نہر کے کنارے رنگ برنگی روشنیاں لگانی شروع کی ہوئی ہیں ۔لیکن نہر کی صفائی کا کوئی منصوبہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔پھر نہرکے کنارے کھڑے ،صدقے کے گوشت کے نام پر رنگ کی ہوئی روئی، چیتھڑے اور کتو ںتک کا گوشت بیچنے والوں کے خلاف،جو ٹریفک روانی کو بھی متاثر کرتے ہیں ،ان کے خلاف کوئی آپریشن کیوں نہیں کیا جارہا ہے ۔
حیرت ہے ہمارے ڈی سی صاحب نے اس طرف ابھی تک توجہ نہیں کی ہے ۔کیا یہ کام تب ہو گا جب وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف حکم جاری کریں گے۔اگر نہر صاف ہوگی،اس کے اردگرد پھول ،پودے اور درخت لگیں گے تو مردے کھانے والی گرجوں کی بجائے محبت کے گیت گانے والی کوئلیں،بلبلیں اور فاختائیں شہر کی فضاوں میں چہکتی نظر آئیں گی۔
سیاست میںادب و ثقافت کی اہمیت
Feb 03, 2025