گزشتہ ہفتے کے روز کالم نہ لکھ سکا۔ معذرت قبول فرمائیں۔ دراصل ہماری گوجرانوالہ بار کے سالانہ انتخابات چند وجوہات کی بنا پر 12 دن تاخیر سے ہوئے۔ جن میں عامر منیر باگڑی صدر اور رانا علی آفتاب کو جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ اب یہ پورا سال 2024ء کا پڑا ہوا ہے۔ سب وکلاء صاحبان نیک تمنائیں رکھتے ہیں کہ ہر لحاظ سے یہ سال اچھا گزرے۔ اب ملک میں بھی 8 فروری کو انتخابات ہو رہے ہیں مگر انتخابات سے دو ہفتے قبل بھی کوئی حکومت ملک میں دفعہ 144 نافذ کرتی ہے؟ افسوس کہ ایسا سب کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے اور اس طرح کہ دوجماعتوں کو جلسے کرنے کی مکمل آزادی ہے اور جلوس وہ خوف کے مارے خود ہی نہیں نکالتے جبکہ ملک کی بڑی سیاسی جماعت کو نہ جلسے کی اجازت ہے نہ جلوس کی اور نہ کوئی کارنر میٹنگ کرنے کی۔ جس کسی نے ہمت باندھی اسکے گھر پولیس نے دھاوا بول دیا۔ گھر کی چیزیں توڑ دیں۔ صوفے پھاڑ دئیے حتی کہ واش روم تک نہ چھوڑے۔ رہیں گھر کی خواتین تو مجھے یہاں آغا شورش یاد آگئے کہ" خدا کسی آزادمنش سیاستدان کو بیٹیاں نہ دے" مقبولیت کی خوفزدگی اتنی ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا حکومت چلانے والوں کو کہ اسے کیسے ختم کریں۔ آج میں جس خدشے کا اظہار کرنے والا ہوں وہ مجھے ساٹھ سال پرانے دور میں لے گیا جب ایوب خاں اور مادر ملت کے درمیان صدارتی انتخابات کا معرکہ برپا ہوا۔ گلی محلوں سے منتخب ہو کے آنے والے ممبران جنہیں بی ڈی ممبر کہا جاتا تھا۔ صرف وہی صدارتی انتخابات میں اپنا ووٹ کاسٹ کر سکتے تھے۔ تب میں پرائمری سکول کا طالب علم تھا اور مادر ملت سے عقیدت کی بنا پر ان کا انتخابی نشان " لالٹین" لیے گلی گلی محلے محلے گھومتا رہتا۔ شہر میں جس نے یہ صدا لگائی کہ وہ منتخب ہو کر اپنا ووٹ مادر ملت کو دے گا وہ کامیاب ہو گیا۔ ایک بڑی اکثریت گوجرانوالہ میں صرف مادر ملت کا نام لے کر کامیاب ہو گئی اور پھر یہی اکثریت ووٹ ڈالتے وقت مادر ملت کو بھول گئی اور ووٹ ایوب خاں کو دے دیئے۔ یہاں میں آپ کو ایک دلچسب واقعہ سنانا چاہوں گا۔ گوجرانوالہ میں تین پہلوان بھی کامیاب ہو گئے۔ تب معروف ایڈووکیٹ مشتاق راج مرحوم گوجرانوالہ میں وکالت کرتے تھے۔ کچہری آتے ہوئے گھر سے نکلتے تو تینوں پہلوان جو آپس میں رشتہ دار بھی تھے راستے میں ایک " منجے" (بڑی چارپائی ) پر بیٹھے انہیں مل جاتے۔ پولنگ سے ایک روز قبل مشتاق راج جس کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا۔ ان پہلوانوں کے پاس کے پاس گئے اور بڑے رازدارانہ انداز میں کہا کہ کل رات امریکہ سے مادر ملت کو فون آگیا ہے کہ پاکستان کی آئندہ صدر وہ ہوں گی اس لیے اگر تم نے مجھے دکھا کے اپنا ووٹ ڈالا تو میں مادر ملت کو تمہاری کارکردگی بتا کر شہر کا اہم آدمی بنا دوں گا۔ وہ پہلوان جھانسے میں آگئے اور مادر ملت کو ووٹ دے دیا۔ شام کو گنتی ہوئی تو ایو ب خاں کا جھرلوچل چکا تھا۔ اور وہ " باقاعدہ " طور پر صدر پاکستان منتخب ہوگئے۔ اب تنیوں پہلوانوں نے گلی میں جاتے ہوئے مشتاق راج کو روک کر سخت سست کہنے کی کوشش کی تو راج صاحب نے کہا کہ پہلے میری بات سن لو پھر جو مرضی کر لینا۔ انہوں نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کل سے ہی ان تین ووٹرز کو ڈھونڈ رہا ہے۔ جنہوں نے مادر ملت کو ووٹ دیئے۔ اس بات کا علم میرے سوا کسی کو نہیں۔ اگرابھی اونچی آواز نکالی تو بات ڈی سی تک پہنچا دوں گا۔ پریشان ہو کر پہلوانوں نے کہا جائو بھائی جائو اب۔ مگر مشتاق راج نے کہا کہ یہ بات اب میرے پیٹ سے نکل کر حلق تک آرہی ہے جلدی سے مجھے دو عدد 7-UP کی بوتلیں پلائو تاکہ یہ بات واپس پیٹ میں جاسکے۔ اور پھر کئی سال تک مشتاق راج جب بھی پہلوانوں کی گلی سے گزرتے تو 7-UP کی بوتلیں پیتے اور تازہ دم ہوتے رہے۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی ان بی ڈی ممبران کی جنہوں نے مادر ملت کے نا م پر ووٹ لے کر اپنے ضمیر کو اپنی ضرروت کے تابع کیا اور ایوب خاں کو ووٹ ڈال دیئے۔ ایسی مقبولیت دہائیوں بعد اب تحریک انصاف کو حاصل ہے ہر کوئی اس کے ٹکٹ کا دعویدار ہے۔ حتمی فہرست تو بہرحال پارٹی ہی جاری کرکے اعلان کریگی فی الحال تو یہ دعوے بھی مقبولیت کی گواہی ہے۔ جس خدشے کا میں اظہار کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے والے کئی لوگ (سب نہیں) کسی نئے سیاسی "بندوبست "کا حصہ نہ بن جائیں۔ انتخابات کے بعد ہارس ٹریڈنگ کی جو منڈی سجے گی کہیں یہ لوگ بھی " منڈی کا سودا" نہ بن جائیں۔ کہیں ان کے ضمیر بھی ضرورت کے تابع نہ ہو جائیں‘ اس لیے تحریک انصاف کے حوالے سے منتخب ہونے والے ایم این اے اور ایم پی اے کی نگرانی حلقے کے ووٹر کو کرنا پڑے گی۔ اگر ایسا کوئی بے ضمیر نکل آئے تو اسکے لیے زمین اتنی گرم کر دیں کہ حلقے میں چل نہ سکے۔ ایسا بائیکاٹ کیا جائے کہ زندگی اسکے لیے بے معنی ہو کر رہ جائے۔
اگر سرکاری طور پر اسے کوئی ترقیاتی منصوبہ ملے تو اس پر کڑی نظر رکھی جائے کہ کتنی کمیشن اس نے کھر ی کی ہے۔ اور لوگوں کو اس کمیشن کی بابت آگاہ کیا جائے۔ اور بھی جو کچھ مقامی طور پر ہوسکتا ہے کیا جائے۔ شادی بیاہ پر ایسے لوگوں کو نہ بلایا جائے ان کا قافیہ اتنا تنگ ہو جائے کہ زندہ رہ کر بھی مردوں کی فہرست میں شمار ہوں۔ رہیں یہ دس یا چودہ سال کی سزائیں تو خان کی مقبولیت میں اگر کچھ فی صد بھی کمی تھی تو وہ بھی پوری ہو گئی۔
٭…٭…٭
8 فروری کے انتخابات کاہدایت نامہ
Feb 03, 2024