میری ماں کا کیا ہوگا

صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاورمیں پولیس لائنز کے علاقے میں واقع مسجد کے اندر ہونے والے بم دھماکے سے آج ہر آنکھ اشکبار ہے ، پولیس بیان کے مطابق حملہ خود کش تھا۔ حملہ آور نے پہلی صف میں کھڑے ہوکر خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس سے اب تک سو افراد کی شہادت اور دو سو کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ شہدا اور زخمیوں میں پولیس اہلکار، امام مسجد اور زیادہ تر سیکورٹی اہلکار تھے، پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آور ایک دو دن پہلے سے مسجد میں تھا پویس کے مطابق حملہ آور نے دس کلو سے زائد بارودی مواد سے خود کو اڑایا۔ اگر پولیس کی ساری باتیں تسلیم کرلی جائیں تو بھی یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ ریڈ زون کی مسجد میں خودکش مواد کہاں سے آیا۔آخر یہ دس کلو مواد کسی نے جیب میں رکھ کر تو دیا نہیں ہو گا چاروں طرف پولیس کی بھاری نفری کیا کسی نے اس حملہ آورکو آتے جاتے ہوئے نہیں دیکھا؟۔ حسب معمول پہلے مرحلے میں ٹی ٹی پی کی جانب سے دھماکے کی ذمے داری قبول کرنے کا بیان آنا اور پھر رات گئے بیان سے منحرف ہونے کی خبر آنایہ سب کیا مذاق ہے سو سے زائد انسانوں کی کیا کوئی اہمیت نہیں ہے ،عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے موقع پر سوال اٹھایا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں؟، دہشت گردوں سے کب تک ڈریں گے؟۔لیکن میں سمجھتاہوں اس
قسم کے واقعات کی اکثر پہلے ہی اطلاع مل جاتی ہے مگر اسے روکنے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے تو اس قسم کے واقعات سے پھر ہماری تاریخ خون میں رنگی ہوئی ملے گی،اگرہم پی ڈی ایم کی ملک بچاﺅ حکومت کو دیکھیں تو ایسا لگتاہے کہ ان کی ترجیح مہنگائی یا دہشت گردی کا خاتمہ ہر گزنہیں ہے بلکہ ایسا لگتاہے حکومت بس عمران خان کوہی اس ملک کا سب سے بڑا دشمن ، مہنگائی کا ذمہ دار ،دہشت گرد اور غیرملکی ایجنٹ سمجھتی ہے ،مطلب ساری برائیاں ہی عمران خان میں موجود دکھائی دیتی ہے یعنی حکومتی اتحاد کے تیرہ سربراہ ان کے کچھ وزرا اور کچھ بکاﺅ صحافی عمران خان کو اس ملک کے لیے سب سے بڑاخطرہ سمجھتے ہیں۔ باقی رہی اس ملک کے بائیس کروڈ عوام کی تو وہ عمران خان کے خلاف ایک لفظ سننابھی پسند نہیں کرتے۔ یاتو یہ قوم بے وقوف ہے یا پھر یہ مٹھی بھر لوگ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں امن وامان کی صورت حال قابو میں نہیں ہے دشمن شاید پہلے سے زیادہ منعظم دکھائی دے رہاہے، ہم بچوں کے طرح بہلتے رہے اچھے طالبان اور برے طالبان کا راگ الاپتے رہے ،یہ بھی درست ہے کہ عمران خان کے دور میں افغان حکومت کے قیام پر پاکستان میں جشن کا سماں تھا ،مذاکرات کے دور جاری تھے سب کچھ اچھا اچھا سا لگ رہاہے تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں معلوم ہوگیا کہ سب وقتی تھا کیونکہ ایک بار پھر افغانستان دہشت گردوں کی جنت بنتا جا رہا ہے، افغان حکومت نے ہزاروں دہشت گرد قیدیوں کو آزاد کروایااور اپنے ساتھ شامل کیا،آج صورتحال یہ ہے کہ مغربی بارڈر پر دو طرح کے عناصر ہیں، ٹی ٹی پی اور داعش، کہا تو یہ جاتاہے کہ انہیں افغان طالبان روک رہے ہیں،پاکستان میں کاروائی نہیں کرنے دے رہے یعنی اگر انہیں پاکستان کی طرف چھوڑا گیا تو پاکستان میں دہشت گردی کے حالات 2014 سے بھی خراب ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان کے دو بڑے گروپوں قندھاری اور حقانی گروپوں میں کچھ باتوں پر اختلافات موجود ہیں مثلاً ایک گروپ القاعدہ کا حامی ہے تو دوسرا مخالف۔اسی طرح قندھاری کہتے ہیں دوحہ معاہدہ کی وجہ سے انہیں افغانستان پر تسلط حاصل ہوا۔ حقانی کہتے ہیں ان کی قربانیوں کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا اس بنا پر ہر گروپ حکومت میں زیادہ حصے کا طالب ومشتاق نظرآتاہے اور اپنی من مانیاں بھی منوارہاہے ،ان ہی دونوں گروپوں کی سوچ بس یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ ان دونوں میں پاکستان کے حوالے سے بھی اختلافات موجود ہیں ایک گروپ اشاروں پر چلتا ہے تو دوسرا گروپ پاکستان کی افغانستان میں امن کی کوششوں کامخالف ہے۔یعنی اسے یوں سمجھا جائے کہ طالبان اپنی بنیادی سوچ سے پیچھے ہٹے تھے نہ آئندہ یہ امید رکھی جائے ،جن طالبان کو تبدیل شدہ، اچھا یا نرم مزاج سمجھا جاتاہے وہ بھی ہرگز تبدیل نہیں ہوئے، صرف ان کی اسٹریٹجی اور طریقہ کار بدلا ہے، وہ بھی افغانستان میں حکومت بنانے کے بعد۔جبکہ افغانستان کی سیاسی صورت حال یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور سینیٹ کو عملی طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ موجودہ سیاسی بندوبست میں افغان عوام کے نمائندوں کو کوئی عمل دخل حاصل نہیں اس
وقت نام نہاد طالبان حکومت، کو چلانے کے لئے کوئی بھی عہدہ دینے کا معیار یہ ہے کہ وہی شخص حکومت میں شامل ہو سکتا ہے جو طالبان کے ساتھ گزشتہ حکومت کے ساتھ بر سر پیکار رہا ہو تجربہ وقابلیت کی بھی کوئی شرط نہیں ہے ،یعنی افغانستان کی باگ ڈور شدت پسندوں کے ہاتھ میں ہے ، ایک زرائع کے مطابق 23 صوبوں کا اختیار حقانی گروپ کے پاس ہے جو طالبان کا شدت پسند ترین گروپ سمجھا جاتا ہے 313 بدری بٹالین کا تعلق بھی اسی گروپ سے ہے کہا جاتا ہے کہ یہ بٹالین جدید ترین اسلحہ سے لیس ہے اور اس کے پاس ایک ہزار سے زائد خود کش حملہ آور بھی موجود ہیں۔خیر موجودہ صورتحال میں جو پشاور کا حال ہواہے وہ سب کے سامنے ہے مزید ایسے واقعات سے بچنے کے لیے حکومت کو سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ کو بند کرکے امن وامان کی صورتحال پر توجہ دینا ہوگی یعنی ، حکومت کو بغیر کسی امتیاز کے تمام عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے،کیونکہ شدت پسندی اور دہشت گردی نے ملک میں امن اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا ہے اور اس مسئلے کو جنگی بنیادوں پر حل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے یعنی اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان میں کوئی فرق نہیں پھرحکومت افغان طالبان کیخلاف کارروائی میں کیونکہ کترارہی ہے۔ ملک کی موجوہ صورتحال میں جہاں عوام کے لیے مہنگائی کے سبب دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوچکاہے وہاں اندرونِ ملک خلفشار، افغانستان اور ایران سے تعلقات میں سردمہری، ہندوستان کا پاکستان کے خلاف فاشزم اور آئی ایم ایف کے راستے امریکا کا پاکستان پر بڑھتا دباﺅ ایک عام شہری کی موت بن چکاہے،ہم دیکھا کہ گزشتہ سال نومبر میں حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم ہونے کے بعد سے ٹی ٹی پی نے اپنے حملوں میں اضافہ کردیا ہے ایک پل سکون کا نہیں لینے دے رہے یہ لوگ ۔دہشت گرد گروپ خاص طورپر کے پی اور افغانستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں پولیس کو نشانہ بنانے میں مگن ہے دوسری طرف بلوچستان میں باغیوںنے بھی اپنی پرتشدد سرگرمیوں میں اضافہ کیا ہے اور کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کو باضابطہ شکل دے دی ہے،جبکہ پشاور کی مسجد میں ہونے والے حالیہ واقعہ میں بھی پولیس کے لوگ بڑی تعداد میں شہید ہوئے ہیں اوریہاں ایک کرب ناک صورتحال دکھائی دی زخموں سے چور لوگوں کی داستانیں اور ان کی گفتگو دل دہلارہی ہے واقعہ کے فوری بعد ایک فلاحی تنظیم کارضاکار ایک زخموں سے چور پولیس ہلکارکو اٹھارہاتھا جس پر زخمی پولیس اہلکارنے رضاکار سے کہا کہ میرے جسم کے مختلف حصوں میں درد ہو رہا ہے تو کیا میں بچ پا¶ں گا۔ اس اہلکار نے کہا کہ اور تو کوئی غم نہیں بس میں اپنی ماں کا بہت لاڈلا ہوں اگر مجھے کچھ ہوا تو پتا نہیں میری ماں کا کیا ہو گا۔‘ریسکیو اہلکار کے مطابق ابھی وہ اس پولیس اہلکار کو لے کر ہسپتال کے گیٹ پر بھی نہیں پہنچے تھے کہ اس اہلکار نے دم توڑ دیا۔دیکھا جائے تو واقعی اس بیٹے کی شہادت کا سن کر اسکی والدہ پر قیامت گزرگئی ہوگی مگر سوچنے والی بات صرف یہ ہے کہ مائیں تو باقی ان سو سے زائد افراد کی بھی ہیں جو اس سانحے میں دنیا سے چلے گئے اس ملک میں اسی ہزار سے زائد لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ان کے بھی بچے ہونگے مائیں ہونگی ،لہذا اس سلسلے کو اب بند ہوجانا چاہیے ۔