بجلی و گیس کی قیمتوں میں ممکنہ اضافہ
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ پاکستان کے معاملات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت چاہ کر بھی آئی ایم ایف کے کسی مطالبے کو ماننے سے انکار نہیں کرسکتی۔ اس صورتحال کے لیے کوئی ایک سیاسی جماعت یا شخصیت نہیں بلکہ گزشتہ ساڑھے چھے دہائیوں میں تشکیل پانے والی تمام حکومتیں ذمہ دار ہیں کیونکہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلا قرضہ دسمبر 1958ء میں لیا تھا اور اس بعد یہ سلسلہ کبھی رکا نہیں۔ ہمارے ہاں رواج یہ ہے کہ ہر حکومت اپنی ناکامیوں کا ملبہ خود سے پچھلوں پر ڈال دیتی ہے، لہٰذا اب بھی یہی ہورہا ہے اور حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں موجودہ معاشی عدم استحکام کے لیے عمران خان کو ذمہ دار قرار دے رہی ہیں حالانکہ ماضی میں یہ سب جماعتیں حکومت کرتی رہی ہیں اور ان سب سے کسی نہ کسی موقع پر آئی ایم ایف سے قرض لے کر ملک کے معاشی بوجھ میں اضافہ کیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف مزید قرض دینے کے لیے حکومت سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ بجلی و گیس کے بلوں میں دی جانے والی سبسڈی ختم کرے۔ حکومت نے اصولی طور پر اس حوالے سے آمادگی ظاہر کردی ہے، لہٰذا بجلی کے نرخوں میں مارچ تک 3 روپے فی یونٹ جبکہ مئی تک مزید 70 پیسے اضافے کی تجویز ہے اور اگست 2023ء تک بجلی کی قیمت میں مرحلہ وار 6 روپے فی یونٹ اضافہ ہو سکتا ہے۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اس کے علاوہ ہو گی۔ اس سب سے عام آدمی کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا لیکن حکومت کو نہ تو پہلے کبھی عوام کے مسائل سے کوئی سروکار رہا ہے اور نہ ہی اب ہے۔