جمعۃ المبارک ، 11 رجب المرجب1444ھ، 3 فروری 2023ء

1975ء کے بعد مہنگائی بلند ترین سطح پر ۔یوٹیلٹی سٹورز پر مہنگائی کا طوفان
اسے ہم سونامی بھی کہہ سکتے ہیں۔ جی ہاں مہنگائی کا سونامی۔ عام معمولی سی استعمال میں آنے والی اشیاء سے لے کر پرتعیش کہلانے والی اشیاء جن میں شیمپو، کوکنگ آئل، اچار، دودھ اور مشروبات وغیرہ شامل ہیں کی قیمتوں میں 40 روپے سے 150 روپے تک اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے بعد اب غریب جائے تو جائے کہاں۔ اس پر تو کچن کی اشیاء کی خریداری کے تمام راستے بند کر کے اسے خودکشی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ پہلے کیا خودکشیاں کم ہو رہی ہیں کہ اب عوام کو اجتماعی خودکشی کی راہ دکھائی جا رہی ہے۔ آٹا، دال، چاول ، چینی جیسی اشیاء جن کی بدولت کم آمدنی والے اور غریب لوگ اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرتے تھے۔ اب ان کی پہنچ سے باہر ہو گئے ہیں جس کے بعد وہ اب کیا کریں۔ جس ملک میں 150 روپے کلو آٹا مل رہا ہو جہاں 15 روپے کی روٹی 25 روپے کا نان ہو وہاں کوئی غریب انہیں کھانے کی عیاشی کیسے کر سکتا ہے۔ مہنگائی کے طوفان کے آگے بند باندھنے کے لیے بھٹو دور میں راشن ڈپو بنائے گئے۔ ہر محلے میں موجود یہ راشن ڈپو کم قیمت پر یعنی سرکاری ریٹ پر آٹا ، چینی فراہم کرتے تھے۔ پھر یوٹیلٹی سٹورز کو متعارف کرایا گیا تاکہ عام صارف یہاں سے کم قیمت پر اشیائے خورد و نوش ایک ہی چھت تلے حاصل کریں۔ مگر اب یہ چھت بھی عوام سے سر کی چھت کی طرح چھین لی گئی ہے۔ اب یوٹیلٹی سٹورز بھی عام آدمیوں کے لیے جائے پناہ نہیں رہے۔ انہیں یہاں سے بھی مہنگائی کے دھکے مل رہے ہیں۔ پچھلی حکومت نے دسترخوان کھولے تھے اب موجودہ حکومت اور مخیر حضرات گلی گلی دسترخوان بچھائیں تاکہ بھوک سے بلکتی مخلوق خدا وہاں سے چند لقمے کھا کر زندہ رہے ورنہ تاریخ گواہ ہے جب یہ بھوکی ننگی مخلوق غضبناک ہو کر اُٹھی تو پھر نہ ’’تخت باقی رہے نہ تاج نہ حاکم بچے نہ اشرافیہ سب کو ان بھوکوں ننگوں نے تہہ خاک پہنچا کر دم لیا باقی رہے نام اللہ کا جو خالق بھی ہے رازق بھی اور قادر بھی۔
٭٭٭٭٭
چودھری شجاعت گروپ نے عدالت سے پارٹی چیئرمین بحالی کے بعد مسلم لیگ ہائوس پر نظریں جما لیں
جب چودھری شجاعت کو قانونی طور پر عدالتی کارروائی کے بعد مسلم لیگ (ق) کا چیئرمین تسلیم کر لیا گیا ہے تو اب یہ ایک واضح بات ہے کہ ان کے سامنے کسی دوسرے کا چراغ نہیں جل سکتا۔ اب وہی سکہ رائج الوقت قرار پائیں گے۔ سو اب ق لیگ کے چودھری شجاعت گروپ والوں کی طرف سے پرویز الٰہی، مونس الٰہی، کامل علی آغا کو یک بینی و دوگوش پکڑ کر ق لیگ سے باہر کا راستہ دکھایا جا رہا ہے تو پھر اس کوٹھی پر جس میں ق لیگ کا چراغ جلتا ہے اب مکمل طور پر چودھری شجاعت حسین گروپ کو قابض ہونے سے روکنیکا کسی میں یارا نہیں۔ پہلے یہاں نواز شریف والی مسلم لیگ (نون) کا دیا جلتا تھا پھر پرویز الٰہی نے بزور طاقت مسلم لیگ (ق) کا چراغ روشن کیا اب چودھری شجاعت گروپ والے اگر یہاں اپنی لالٹین جلاتے ہیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ یاد رکھیں یہ عمارتیں کسی کی نہیں ہوتیں یہاں آنے والے آتے ہیں پھر چلے جاتے ہیں نئے مکین آ کر ڈیرا ڈالتے ہیں انہوں نے بھی ایک دن چلے جانا ہوتا ہے۔ کسی نئے نے یہاں آنا ہوتا ہے۔ سو اب ڈیوس روڈ پر واقع مسلم لیگ ہائوس پر کبھی نواز شریف کی شہباز شریف کے ساتھ تصویر آویزاں تھی پھر چودھری شجاعت کی پرویز الٰہی کے ساتھ تصویر آویزاں ہوئی اب دیکھتے ہیں کس کی تصویر کس کے ساتھ یہاں نظر آتی ہے اس عمارت کو کون کون رونق بخشتا ہے۔
٭٭٭٭٭
شیخ رشید احمد کو رات گئے پولیس نے گرفتار کر لیا
لیجئے جناب لگتا ہے شیخ جی کی خواہش پوری ہو گئی اور انہیں زیورات سمیت سسرال پہنچا دیا گیا ہے۔ جی ہاں شیخ رشید ہمیشہ نعرہ لگاتے تھے کہ ہتھکڑی ان کا زیور اور جیل ان کا سسرال ہے۔ اب وہ وہاں جا چکے ہیں دیکھتے ہیں سسرال والے ان کی کتنی خدمت کرتے ہیں۔ اس سے قبل شہباز گل، اعظم سواتی، فواد چودھری بھی جیل یاترا کر چکے ہیں۔ پی ٹی آئی والے شور مچا رہے ہیں کہ عمران خان کو بھی کسی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ مگر امید ہے کہ حکومت کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرے گی جس کی وجہ سے ملکی سیاسی صوورتحال میں کوئی بھونچال آئے۔ فی الحال وہ ان چھوٹی موٹی طوفانی لہروں سے ہی کھیلے۔جن کی وجہ سے حکومت کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے اور ناقدین ’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے ہلکے۔ دل کا جام کہیں نہ چھلکے‘‘ کا راگ الاپ رہے ہیں۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ ابھی تک جو گرفتاریاں کر چکے اس کے بعد اچانک شیخ رشید جیسے خوش گفتار سیاستدان پر ہاتھ ڈالنا ایسا ہی ہے جیسے بارودی سرنگ پر پائوں رکھنا۔ ان کی گرم گفتاری سے تو بازار سیاست میں رونق ہے۔ اب یہ گولہ باری میں بدل جائے گی۔ گرچہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں مگر وہ پی ٹی آئی کے نفس ناطق ہیں۔ عمران خان کے نزدیک ترین افرادمیں ان کے نام بھی شامل ہیں۔ ظاہر ہے اب خان صاحب خاموش نہیں رہیں گے وہ اس گرفتاری کے خلاف سخت ردعمل دیں گے۔ رہی بات شیخ رشید کی حالت نشہ میں گرفتاری کی تو یہ پولیس کا وطیرہ ہے اس سے جو مرضی کروا لیں کہلوا دیں۔ خود رانا ثنا پر بھی تو کئی کلو ہیروین رکھنے کا الزام تھا۔ سیاست میں سب جانتے ہیں سائیکل چوری، بھینس چوری، لوہا چوری، فنڈ چوری ، زیور چوری، شراب نوشی، منشیات فروشی کے الزامات لگتے رہتے ہیں جو شاید ہی کبھی ثابت ہوئے ہوں۔
٭٭٭٭٭
ایران کی طرف سے پاکستان کو گیس پائپ لائن مکمل نہ کرنے پر 18 ارب روپے ہرجانے کی یاددہانی
جی ہاں آخر کب تک کوئی وعدوں پر تاخیری حربوں پر یا خاموشی پر چپ رہ سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستان اور ایران کے درمیان طے ہوا گیس کی فراہمی کا یہ معاہدہ ایران کی طرف سے گیس پائپ لائن بچھانے کے بعد ہماری طرف سے مکمل ہونے کا منتظر ہے مگر ہماری طرف سے امریکی دبائو اور سعودی عرب و ایران کے درمیان تنازعہ کی وجہ سے یہ کام مکمل نہیں ہو پایا۔ اس پر مقررہ مدت کب کی ختم ہو چکی ہے۔ جس کے بعد قوانین کے مطابق ہمیں 18 ارب روپے ہرجانہ بھی ادا کرنے کا نوٹس مل چکا ہے۔ یہ تو ایران کی مہربانی ہے کہ اس نے اس پر عمل مؤخر کر دیا ورنہ ہماری معیشت پر یہ ایک اور کاری وار ہوتا۔ مگر کیا کریں ہم ابھی تک اس شش و پنج میں ہیں کہ کیا کریں۔ ہم سے کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا۔ اس وقت جب خزانہ خالی ہے۔ کیا ہم یہ ہرجانہ ادا کر پائیں گے ۔ کیا کچھ گروی رکھنا پڑے گا۔ کونسے اثاثے فروخت کرنا پڑیں گے۔ اس کا اندازہ ہماری دیوالیہ ہوتی معیشت کے وارثوں کو نہیں۔ کافی عرصہ بعد اب ایک بار پھر ایران کی طرف معاہدے کے مطابق گیس پائپ لائن بچھانے کی بات کی گئی ہے اور ساتھ ہی ہرجانہ بھی یاد دلایا گیا ہے۔ یہ ہمارے لیے تازیانہ عبرت ہے۔ خدارا ہمارے حکمران صرف اور صرف ملک اور عوام کے لیے سوچیں جہاں سے فائدہ ہو وہ کام ضرور کریں۔ بھارت بھی تو یہی کچھ کر رہا ہے اس کے امریکہ، سعودی عرب اور روس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ وہ کسی کی خاطر کسی سے تعلقات کوخراب نہیں کرتا۔ سب اس کے ساتھ خوش ہیں تمام تر اختلافات کے باوجود اس سے سب کے تجارتی، ثقافتی، معاشی رابطے ہیں تو پاکستان کو بھی چاہیے کہ غیر جانبدارانہ پالیسی کے مطابق سب سے اچھے تعلقات رکھے اور سب سے بڑھ کر اس وقت 18 ارب روپے کے ہرجانے سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ کسی نے یہ اتنی بڑی رقم ہمیں نہیں دینی۔
٭٭٭٭٭