
دہشت گردوں نے پشاور میں مسجد کو نشانہ بنا کر ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ان کا دین اسلام تو دور کی بات ہے کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ انسانیت پر یقین رکھتے ہیں۔اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ لگا کر ان کی طرف سے پاکستان میں برپا کی گئی دہشت گردی کا بنیادی مقصد پاکستانی عوام میں خوف و دہشت پیدا کرکے پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔ یقینا یہ کام کوئی ایسا دشمن ہی کر سکتا ہے جو اس طرح کے ہتھکنڈوں سے پاکستان کو بلیک میل کرنا چاہتا ہے یا پھر پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینے کا خواہشمند ہے۔ دہشت گردی کی اس بہیمانہ کارروائی سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ افغانستان کی زمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے تسلسل کے ساتھ استعمال ہو رہی ہے جبکہ افغان عبوری حکومت یا تو ملک میں پناہ لیے ہوئے پاکستان دشمن دہشت گرد عناصر کے سامنے بے بس ہے یا پھر وہ بھی چاہتی ہے کہ پاکستان داخلی طور پر کمزور رہے اور یہاں سے بغیر کسی روک ٹوک کے ڈالروں کی غیر قانونی طریقے سے افغانستان منتقلی کا سلسلہ جاری رہے اور ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت پاکستانی بندر گاہوں سے کنٹینروں کے ذریعے غیر ملکی مصنوعات افغانستان پہنچ کر وہاں سے واپس پاکستان سمگل ہو کر پاکستانی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹتی رہیں۔ اس طرح کے دیگر بہت سے تحفظات میں جو آج خدشات کی صورت میں پاکستانی عوام کے ذہنوں میں سر اٹھا رہے ہیں۔ وہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا ان تمام قربانیوں کا جو پاکستان کے عوام نے 2001 ء میں افغانستان پر امریکی و نیٹو افواج کے تسلط کے بعد ان کے خلاف آج کی افغان عبوری حکومت کی طرف سے لڑی جانے والی مزاحمتی جنگ کی حمایت کے بدلے پاکستان پر مسلط کی گئی دہشت گردی میں 80 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کی شہادت اور 150 ارب ڈالر کے مالیاتی نقصان کی صورت میں دی۔
افغانستان کے لئے پاکستانیوں کی طرف سے قربانیوں کا یہ سلسلہ 1979 ء میں سویت سرخ افواج کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے جاری ہے۔ جب 70 لاکھ افغانیوں نے جان بچانے کے لئے پاکستان کا رخ کیا اور پاکستان کے عوام نے انہیں صرف پناہ ہی نہیں دی بلکہ سرآنکھوں پر بٹھایا۔آج بھی چالیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں ‘ ہیروئن جیسا خطرناک نشہ ہو یا کلاشنکوف کے ذریعے پاکستان بھر میںپھیلنے والا بدامنی کا وائرس ‘یہ سارے مسائل اس دور میں افغانستان مہاجرین کے ذریعے پاکستان پہنچے۔ کراچی سے لے کر پشاور تک پاکستان کا کون سا شہر ہے جہاں افغان مہاجرین کاروبار نہ کررہے ہوں۔ افغانستان سے برادرانہ تعلق کی وجہ سے پاکستانیوں نے نہ تو کبھی ان کی کاروباری سرگرمیوں میں حائل ہونے کی کوشش کی نہ ہی انہیں یہاں سے دولت کما کر ڈالروں کی صورت افغانستان منتقل کرنے میں رکاوٹ بنے۔ بلکہ 5 اگست 2021 ء کو امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء اورکابل پر افغان طالبان کے قبضہ کے بعد امریکہ کی طرف سے تمام تر مخالفت کے باوجود پاکستان نے افغان عبوری حکومت کے استحکام کے لئے بھر پور کردار ادا کیا۔ پاکستان کے عوام مطمئن تھے کہ پاکستان کی طویل قربانیوں کا ادراک رکھنے والی افغان عبوری حکومت ان دہشت گرد عناصر کے خلاف بھر پور کارروائی عمل میں لائے گی جو امریکہ و نیٹو ممالک کی چھتری تلے بھارت کی پاکستان دشمنی پر مبنی مقاصد کو پورا کرنے کیلئے بھارت ہی کی مدد و معاونت سے پاکستان میں خودکش دھماکوں کے ذریعے دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے تھے۔ پاکستانیوں کی ان تمام امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے 2022 ء کا آغاز ہوتے ہی پاکستان کے دو مغربی صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں ایک بار پھراپنی مذموم سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان کے سکیورٹی اداروںپر حملوں اور دھماکوں کا سلسلہ شروع کردیا۔
رپورٹس کے مطابق 2022ء میں بم دھماکوں کے علاوہ سکیورٹی فورسز کے قافلوں اور سرحدی چوکیوں پر دہشتگردوں کے 376 حملے ہوئے ۔ اپنی مشرقی سرحد ی پٹی سے پاکستان میں کی جانے والی دہشتگردی کو روکنے کی بجائے افغان عبوری حکومت نے پاکستان پر ٹی ٹی پی سے مذاکرات پرزور دیا ۔ ٹی ٹی پی کے مطالبات ایک طرح سے پاکستان کے قبائلی اضلاع اور کے پی کے کاکنٹرول ٹی ٹی پی کے حوالے کرنے کے مترادف تھے۔ جنہیں پاکستان کی طرف سے مسترد کیا جانایقینی تھا۔ ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد ٹی ٹی پی نے زیادہ شدت کے ساتھ سکیورٹی اداروں پر حملے شروع کر دئیے۔ پاکستان میں براستہ افغانستان دسمبر 2022ء اوراس کے بعد کی دہشتگرد کارروائیوں پر مختصر نظرڈالی جائے تو 18 دسمبر 2022ء کو ایک طرف بنوں میں سی ٹی ڈی کی عمارت میں دہشتگردوں نے عملے کو یرغمال بنا کرافغانستان تک رسائی کا مطالبہ کر دیا تو ساتھ ہی اسی روز لکی مروت میں پولیس سٹیشن پر حملہ آور ہو کر چارپولیس والوں کو شہید اور چار کوزخمی کردیا گیا۔ دوسرے روز میران شاہ میں چنگ چی رکشے میں سوار خودکش بمبار نے سکیورٹی ادارے کی گاڑی کو نشانہ بنایا جس میں ایک جوان اور 2راہ گیر شہیدہوگئے۔ 23دسمبر کو اسلام آباد میں ناکے پر موجودپولیس والوں نے شک پڑنے پر ایک گاڑی کو روکا تو اس میں سوارخودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔جس میں پولیس کے بہادرسپاہی نے اپنی جان کی قربانی دے کر اسلام آباد کو ایک بڑے سانحہ سے بچا لیا۔ 25دسمبر کوبلوچستان کے علاقے تربت میں دہشتگردوں نے ایف سی کی گاڑی پرفائرنگ کے ذریعے چارجوانوں کو شہید کردیا۔ اسی روز چمن میں لیوی کے ایک جوان کو شہید کیا گیا۔26 دسمبر کے روز بلوچستان میں بارودی سرنگ کے ذریعے سکیورٹی فورسز کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ۔ جس میں ایک کپتان سمیت چار جوان شہید ہوگئے۔ 29دسمبر کو میر علی کے پی کے میں سکیورٹی چیک پوسٹ پر کیے گئے حملے میں دوجوان زخمی ہوئے۔15جنوری 2023ء کو دہشتگردوں نے پشاور میں ایک تھانے پر حملہ کیا۔ اس حملے میں ڈی ایس پی سمیت تین پولیس والوں نے جام شہادت نوش کیا ۔19 جنوری کو خیبر ضلع کی جمردوتحصیل میں پولیس چیک پوسٹ کو نشانہ بنا کر تین پولیس والوں کو شہید کردیا گیا اور اب 30جنوری کو پشاور میں مسجد میں خودکش دھماکے نے سانحہ آرمی پبلک سکول پر دہشتگردوں کے حملہ کی یاد تازہ کرد ی ۔پشاور کی پولیس لائن مسجد میں 100 سے زیادہ زیادہ شہادتوں پر ہر پاکستانی دکھی اور افسردہ ہے۔ شہید ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق پولیس سے ہے۔ ہمارے سکیورٹی کے ادارے گزشتہ 2دہائیوں سے دہشتگردی کے خلاف برسرپیکا رہیں اور ملک و قوم کی بقاء کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔افغانستان میں قیام امن کے لیے عالمی قوتوں پر زور دینے والا پاکستان اگر افغانستان میں پناہ لیے ہوئے دہشتگردوں کی وجہ سے بدامنی کا شکار ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ دہشتگردوں سے مذاکرات کی بجائے افغان عبوری حکومت سے بات کی جائے اور ان پرواضح کردیا جائے کہ ’’بس بہت ہوگیا‘‘ پاکستان افغانستان کے سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے اپنے معصوم و بے گناہ شہریوں کی زندگیاںدائو پر نہیں لگا سکتا۔