
ازلی ۔ابدی ’’دشمن ‘‘ کے حملہ سے بھی زیادہ افسوسناک دوڑ پکڑ لو ۔ پھر نہیں ملے گا۔ حتیٰ کہ سیکنڈز میں ریٹ بڑھتا گیا۔ ایک آگ تھی جو ہماری طمع سے اُٹھی اور دشمن کے بارود سے زیادہ تیزی سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا گئی ۔ کہانی ہے پچھلے ہفتہ ’’ڈالر‘‘ کی اُڑان کی ۔ عام آدمی نے کیا خریدنا تھا۔ وہی خریدار تھے جو دہائیوں سے معیشت ۔ معاشرت ۔ سیاست پر قابض ہیں۔ نقصان پہنچانے میں کوئی بھی پیچھے نہ رہا ۔ ڈالر بڑھ گیا ہم کیا کریں ہم تو خود پریشان ہیں یہ متذکرہ بالا دن پر مختلف کرنسی ڈیلرز کا موقف تھا۔ سوچئیے ’’پیٹ‘‘ کی اندھی طمع کے غلام کاہے کو پریشان ہونگے۔ غریب پر بم گرا جب وہ سودا لینے پہنچا تو قیمتیں فزوں تر۔ کئی مرتبہ لکھا ’’ڈالر‘‘ کا آلو ۔ پیاز ۔ گاجر سے کیا تعلق ؟ یہ تو ہماری اپنی زرعی اجناس ہیں۔ ’’پٹرول‘‘ بڑھتا ہے تو فوراً سے پہلے قیمتیں بڑھ جاتی ہیں پر آج تک نہیں دیکھا کہ ’’فیول پرائس‘‘ کم ہونے پر کبھی اشیاء صرف۔ کرایوں کے نرخوں میں کوئی کمی آئی ہو۔محض بیان ۔ افواہ پر پہلے سے ذخیرہ شدہ اشیاء ۔ مال کی قیمتوں میں مجوزہ تناسب سے بڑھ کر اضافہ کر دیتے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ پوری قوم ہی لالچ ہوس کمانے میں برابر شریک ہو چکی ہے۔
پہلے حکومت پھر قومی زعماء ڈیفالٹ ڈیفالٹ کی گردان کرتے رہے اور اب غیر ملکی اخبار بھی بول اُٹھے ۔ مانا کہ پاکستان کو زرمبادلہ کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ بندرگاہیں درآمدی کنٹینرز سے اٹی پڑی ہیں۔ خام مال کی کمی ہے ۔ فیکٹریاں بند ہورہی ہیں مگر تمام (مضمون گواہ ہے سب سے پہلے لکھا تھا جب چہار جانب خطرات کی دُہائیاں بلند ہو رہی تھیں کہ ’’پاکستان‘‘ ڈیفالٹ نہیں کرے گا ) صورتحال کا اکیلا ذِمہ دار صرف پاکستان ہے؟ بہت اچھا لگا جب پڑھا کہ ’’امریکہ‘‘ ’’200ملین ڈالرز‘‘ کی امداد پر چیک اینڈ بیلنس رکھے گا۔ کاش روز اول سے امداد کے استعمال کو سنجیدگی سے دیکھتا تو آج ہم بھکاری کی بجائے عطیہ دہ ہندہ ہوتے۔ سچ فرمایا معزز ’’اعلیٰ عدلیہ‘‘ نے کہ ریاست کا کام کاروبار کرنا نہیں ۔ یہ ریمارکس پہلی مرتبہ نہیں دئیے ہمیشہ یہی موقف رہا مگر روک تھام تو اُن کے پاس ہے جو قوت نافذہ رکھتے ہیں۔ یہ حد سے زیادہ بوجھ ہی تو ہے کہ چھت بھاری ہو چکی ہے اور بنیادیں کمزور ۔اب تو قانونی ۔ آئینی پابندی ہونی چاہیے ۔ اپنے ہی غلط فیصلوں کا دفاع کرنے والے کُرسی سے اُترے تو سچ کی آمد ہو گئی۔ واقعی ’’30کروڑ‘‘ نفوس پر مشتمل ملک کا فیصلہ چھوٹی سی اشرافیہ کرتی ہے۔ یہ کوئی نیا نہیں ۔ ایسی حقیقت ہے جو ہر ’’صاحب اختیار‘‘ کُرسی سے اُترنے کے بعد بیان کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ایلیٹ سسٹم کے نفاذ کی بات 100%درست ہے۔ ووٹ دینے والے عوام ۔ حکمران بنانے والے عوام اِس کے باوجود دُکھ ۔ مسائل ۔ بے روزگاری۔ بھوک صرف عوام برداشت کریں۔ اشرافیہ کُھل کر کھیلے ۔ راج کرے ۔ عیاشیاں کرتی پھرے ۔ ’’قرض ‘‘ ہماری ضرورت نہیں بلکہ اب تو جمہوریت کو بھی ؟؟ہمیں جمہوریت چاہیے مگر ہمارے رویے جمہوری نہیں ہونگے یہ ہماری قوی قیادت کی سوچ ہے۔
مجھے معلوم ہے ۔ پڑھنے ۔ سُننے والے جانتے ہیں ۔ روزمرہ سودا سلف خریدنے والے بھی بے خبر نہیں حتیٰ کہ اشرافیہ (درحقیقت وہی ذِمہ دار ہے) جانتی ہے کہ گھنٹوں کے حساب سے بڑھتی مہنگائی رُک نہیں پارہی ۔ احساس ہونے کے اعتراف کا کیا کریں ؟ پچھلے تمام بیانات ثبوت۔ سالوں پہلے بھی احساس تھا آج پتلی ترین حالت میں بھی تقاریر احساس سے پُر۔قارئین امیر ترین شخص بھی خریدا یا سلوایا گیا سوٹ سالہا سال پہنتا ہے مگر میں نے کبھی ’’حکمران طبقہ‘‘ کو ایک سوٹ دوبارہ پہنے ہوئے نہیں دیکھا ۔ ثبوت۔ تصویریں نکال لیں ۔ حساب تو سبھی کو دینا چاہیے ۔پچھلے چار سال دیکھ لیں اور گزرتا سال سامنے ہے پہلے ناس تھا اب ستیاناس ہے۔ آئی ایم ایف تو کبھی گیا ہی نہیں۔ بھلا بغیر تنخواہ کے تابعدار غلاموں کو کون چھوڑتا ہے۔’40 سالوں‘‘ کی حکومتوں میں قرض ختم نہیں ہوا ۔ بجلی ۔گیس کی پیداوار نہیں بڑھی ۔ ایسے ہسپتال نہیں بنے جہاں ہمارے محترم و معزز رہنماء کرام علاج کروا سکیں ۔معیشت صرف قوم کی نہیں سُدھری۔ حکمران کیا بیوروکریٹ حتی ٰ کہ معمولی اہلکار دنیا کے ہر ملک میں’’ لینڈ لارڈز‘‘ بن گئے ۔ چیک اینڈ بیلنس روز اول سے ضروری تھا۔ کیوں نہیں رکھا؟ صفحات ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ماضی ۔ سیاق و سباق روز روشن کی طرح سامنے ہے ۔ مالیاتی اداروں کا کام تو قرض دینا ہے اب استعمال کیسے کرنا تھا یا ہے یہ تو ٹوٹل ہماری صوابدید ہے۔ ہم تو صرف ملک کی سلامتی چاہتے ہیں۔ اپنے چُولہوں کو بوقت ضرورت چلتا دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ اپنے پیٹ کو شافی رکھنا خواہش ہے اب جو مرضی آئے ۔ جائے۔ ہمارے مسائل حل ہونا چاہیں ۔ ذاتی لڑائیوں کی نہیں گنجائش ۔مل بیٹھ کر متفقہ اعلامیہ ’’میثاق پاکستان‘‘ مرتب کریں اور عمل درآمد کروائیں ۔ آخر سب چاہتے کیا ہیں ؟؟
مہنگائی کی موجودہ شرح’’ 40فیصد‘‘ ہو چکی ہے ۔ حکومت نے ’’آئی ایم ایف‘‘ کی تمام شرائط کو قبول کر لیا ہے ۔سوچئیے جب ان شرائط کو ناٖفذ کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا جائیگا تو اُس وقت مہنگائی کا کیا تناسب ہوگا؟ ’’1975‘‘ کے بعد لمحہ موجود میں بدترین معاشی گراوٹ ہے۔